کالم

مسئلہ کشمیر پر دانشور کوچی کا تجزیہ

قارئین محترم!میں آج خود حیرت زدہ ہوں کہ میرے جگری یار کوچی کو کئی برس بعد میری یاد کیسے آئی اور وہ مجھے ڈھونڈتا ہوا چاچے بشیرے کی ہوٹل میں آن ٹپکا۔مجھے حیرت تو شدید ہوئی کی کوچی کوئی نیا پھڈاپانے کے لئے آیا ہے۔بحرحال میں نے پھر بھی نارمل رہنے کی ناکام سی کوشش کی کہ شاید کوچی کوئی ایسا موضوع نہ چھیڑ دے جو وجہ تنازعہ بھی بن جاجئے اور لوگ بھی خواہ مخواہ ناراض ہوں گے۔بحرحال خوشی اس لئیء دیدنی تھی کہ ایک پرانا یار بڑے رعرصے بعد ملا۔قارئین آپ میں سے اکثریت تو کوچی سے واقف ہوں گے لیکن جن ذی شعور اور صاحب علم لوگوں کو کبھی بھی میرا اداریہ پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا ان کو بتاتا چلوں کہ کوچی میرے بچپن کا لنگوٹیا یار ہے ،لیکن شعور کی عمر میں پہنچ کر اس میں اور مجھ میں بڑا فرق آگیا۔وہ ڈپلومیسی (منافقت) نہیں کرتا۔ جو بات دل میں ہو کھل کر بھرے مجمعے میں کہہ دیتا ہے۔الٹرا جینئس(پاگل) ہے۔وطن سے بے پناہ محبت کا جذبہ اس کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔المختصر قوم اور ملک کی خاطر اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتا،بلکہ اکثر اس معاملے پر لوگوں سے اس کا الجھائو ہوا کرتا ہے اور وہ غصے کے عالم میں منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے سرخ چہرے کے ساتھ وطن دشمن دوستوں کی کلاس لیتا رہتا ہے۔اس دن بھی جب وہ ‘آیا تو میں سمجھ گیا کہ ضرور کوئی ایسی انہونی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے کوچی صاحب تشریف لائے ہیں اور آج بلا وجہ غیر مہذب اور با شائستہ الفاظ سننا پڑیں گے کیونکہ مسٹر کوچی کی گفتگو ایسے لفظوں کے بغیر اپنے درست معنی و مفاہیم سامع تک نہیں پہنچا سکتی۔خیر مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق انہیں میں نے گرم جوشی سے گلے لگایا بلکہ شوق محبت میں انہیں زور سے بھینچا بھی لیکن ان کے طاقتور اور سڈول جسم پر میرے زور لگانے سے ذرہ بھر فرق نہیں پڑا۔ حسب سابق چاچے بشیرے کو کوچی نے چیختی ہوئی کرخت آواز میں آرڈر دیا کہ دو دودھ پتی وہ بھی کڑک اور تیز پتی کے ساتھ ہمارے لئے لائے۔چاچا گاہکوں سے نظر اٹھا کر ہماری جانب متوجہ ہوا اور اپنی جگہ سے ہی کہا بابو جی آج آپ کی خیر نہیں لگتی کیونکہ مسٹر کوچی کافی برہم نظر آ رہے ہیں۔اس کا پہلے ہی مجھے اندازہ تھا لیکن چاچے بشیرے کی جہاندیدہ آنکھوں نے یہ سب بھانپ کر میرے کمزور دل کو مذید دکھی کر دیا۔بحرحال بے ربط گفتگو کا آغاذ یہاں سے ہوا کہ کوچی صاحب فرما رہے تھے کہ ساڈھے کشمیر دا کے بنسی۔میں نے انہیں حوصلہ دیا کہ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے،سوشل میڈیا انتہاء کی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور ساری دنیا کو پتہ ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کو اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کر رکھا ہے کوئی بھی زور اور زبر دستی سے کشمیر کا ہتھیا نہیں سکتا۔ میں نے یہاں تک بھی کہا کہ جب پاکستان اور ہندوستان کا وجود بھی دنیا کے نقشے پر نہیں تھا تب بھی کشمیر ایک بڑی ریاست کے طور پر اپنا الگ وجود رکھتا تھا۔ لیکن مسٹر کوچی اس بات پر مصر تھے کہ کشمیر یو ں کو ان کا حق خود ارادیت دینے کے لئے متنازعہ فریقین تو الگ سہی لیکن دنیا بھی اس کے لئے تیار نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آپ کے تیز رفتار سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ کی آمد کی وجہ سے دنیا جو گلوبل ویلج بنی ہے اس نے بھی کشیریوں کو من حیث القوم کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ اکثریت تو کشمیر کی آزادی کے متوالوں کو دہشت گرد اور دنیا کے امن کو تباہ کرنے والے سمجھ رہے ہیں۔میرے کانوں میں سائیں سائیں کی آوازیں پیدا ہو رہی تھی لیکن میں یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ کوچی کسی حد تک درست باتیں کر رہا ہے۔حسب سابق کوچی کی سچی مگر تلخ اور بے ترتیب گفتگو کا سلسلہ تہاڑ جیل سے مقبول احمد بٹ کی شہادت سے شروع ہوا اور دوسری جانب مہذب دنیا کے ہیرو اور نامور شخصیت شیخ عبداللہ کی نیشنل ازم سے شروع ہونے والی تحریک کی کو انہوں نے نہرو اور گاندھی جی کا مہرہ قرار دیا اور انہیں وہ بحیثیت کشمیری لیڈر ماننے کئے تیار تو در کنار انہیں کشمیری قوم کا قاتل اور اپنے اقتدار کے حوس کا شخص گردانا اور انہیں مسئلہ کشمیر کو خراب کرنے کا پہلا با ضابطہ اور ذمہ دار شخص قرار دیا ،جنہوں نے دہلی جیل میں بیٹھ کر کشمیر پر مزاحمت نہ کرنے پر کشمیر کے پہلے ناظم اعلٰی کے مسودے پر دستخط ثبت کئے۔جسکی وجہ سے انہیں سلاخوں کے پیچھے سے نکال کر ایک دم جب قبائلیوں نے کشمیر پر حملہ کیا تو کشمیر کے اقتدار کی مسند اعلیٰ سنبھالی۔اس کے بعد وہ اشرف ڈارکے علاوہ دیگر آزادی کے متوالوں کا زکر کرتے رہے اور ان کی گفتگو کا سلسلہ برہان الدین وانی سے ہوتا ہوا بالآخر یٰسین ملک پر آ کر ٹوٹا۔برہان وانی اوریٰسین ملک کو وہ امن کا دعوے دار گرداننے پر مصر تھے لیکن بھارت کی نا نصافی نے دونوں کو نہ صرف سزا سنائی بلکہ انہیں دیش دروہی قرار دیا اور یٰسین ملک صاحب کو حال ہی میں پہلے عمر قید کی سزا سنائی لیکن پھر اسے سزائے موت میں بدل دیا۔ان سب صاحبان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے بھارت کے دبائو میں آ کر جیل کے اندر سے ہو کر مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کو نہ صرف جوتے کی نوک پر رکھا بلکہ اس پر شہادت کو ترجیح دی۔گرما گرم دودھ پتی ٹھنڈی ٹھار ہو چکی تھی لیکن کوچی کی باتوں میں وہ سچائی تھی کہ اگر اس وقت دودھ اور شہد کی نہریں بھی بہتی ہوتی تو ان پر بھی توجہ نہ جاتی۔ بالآخر راقم نے سلسلہء کلام یوںتوڑا کہ چل یار کوچی باقی باتیں کل تک التواء میں رکھتے ہیں ابھی میرے بچے گھر انتظار کر رہے ہوں گے مجھے گھر جانا ہے۔میں بوجھل قدموں سے گھر کی جانب چل پڑا لیکن کوچی کی سچی اور کھری باتیں ساری رات میرے سر پر ہتھوڑے کی طرح برستی رہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button