کالم

رائے قائم کرنے میں جلدی مت کیجیے

پوری دنیا میں یہ رواج سا بن گیا ہے کہ لوگ اکثر ادھوری معلومات کی بنیاد پر ہی رائے قائم کر لیتے ہیں اور اس رائے کو حتمی بھی تصور کر لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ پریکٹس معمول سے بھی کچھ زیادہ ہی ہے۔ کبھی کسی نے تصویر کے دونوں رخ دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی بس ایک رخ دیکھا اور رائے قائم کر لی۔ بعض اوقات تو ہمیں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے پورے رخ کو دیکھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ معمولی سی ایک جھلک دیکھ کر ہی ہم ”لفافہ دیکھ کر خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں” اور شرمندگی تب ہوتی ہے جب تصویر کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے یا لفافے میں سے خط باہر آتا ہے۔
ایک عورت سڑک پر ایک آدمی کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے ”معاف کیجئے جناب، میں ایک چھوٹا سا سروے کر رہی ہوں، کیا میں آپ سے کچھ سوال کر سکتی ہوں؟”
آدمی کہتا ہے_ ”جی بالکل، پوچھیے” عورت: ”فرض کریں آپ بس میں بیٹھے ہیں اور ایک خاتون بس میں سوار ہوئی، اس کے پاس سیٹ دستیاب نہیں ہے، کیا آپ اس کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ دیں گے؟” آدمی ـ ”نہیں۔”اس عورت نے اپنے پاس موجود پیپر پر نظر دوڑاتے ہوئے ”بے ادب” کے خانہ پر ٹک کرتے ہوئے دوسرا سوال کیا عورت: ”اگر بس میں سوار خاتون معذور ہو تو کیا آپ اپنی سیٹ چھوڑ دیتے؟
آدمی: ”نہیں۔”اب کی بار ”خودغرض” پر ٹک کرتے ہوئے عورت نے اگلا سوال کیا __ عورت: ”اور اگر وہ خاتون جو بس میں سوار ہوئی وہ ایک بزرگ خاتون ہوں تو کیا آپ اسے اپنی سیٹ دیں گے؟” آدمی: ”نہیں۔” عورت: (غصے سے) ”تم ایک نہایت خود غرض اور بے حس آدمی ہو جس کو خواتین کا احترام ، بڑے اور ضعیف افراد کے ساتھ حُسنِ سلوک کے آداب نہیں سکھائے گئے”
یہ کہتے ہوئے عورت آگے چلی گئی۔پاس کھڑا دوسرا آدمی جو یہ بات چیت سن رہا تھا وہ اس پہلے بندے سے کہتا ہے۔ ”اس عورت نے اتنی باتیں سنائیں تم نے کوئی جواب کیوں نہیں دیا”؟ اس آدمی نے جواب دیا ”یہ عورت اپنی چھوٹی سوچ اور آدھی معلومات کی بنا پر سروے کر کے لوگوں کا کردار طے کرتی پھر رہی ہے۔ اگر یہ مجھ سے سیٹ نہ چھوڑنے کی وجہ پوچھتی تو میں اسے بتاتا کہ میں ایک بس ڈرائیور ہوں اس لیے کسی اور کو سیٹ نہیں دے سکتا”ادھوری معلومات کی بنیاد پر جلد بازی میں کی گئی رائے قابلِ اعتبار نہیں ہوتی۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے پہلے بات کو تولو پھر بولو، تولے بغیر بولنا بے وُقعت اور بے وزن ہوتا ہے۔ماسٹر عرفان بچے کو بڑی جان مار کے حساب سکھا رہے تھے. وہ ریاضی کے ٹیچر تھے. اُنھوں نے بچے کو اچھی طرح سمجھایا کہ دو جمع دو چار ہوتے ہیںـمثال دیتے ہوئے انھوں نے اسے سمجھایا۔ ”یوں سمجھو کہ میں نے پہلے تمہیں دو کبوتر دیے اس کے بعد پھر دو کبوتر دیے، تو تمہارے پاس کل کتنے کبوتر ہو گئے؟بچے نے اپنے ماتھے پہ آئے ہوئے سلکی بالوں کو ایک ادا سے پیچھے کرتے ہوئے جواب دیا
”ماسٹر جی پانچ”
ماسٹر صاحب نے اسے دو پنسلیں دیں اور پوچھا
”یہ کتنی ہوئیں”؟بچے نے جواب دیا۔ ”دو”
پھر دو پنسلیں مزید پکڑا کر پوچھا ”اب کتنی ہوئیں”؟
”چار” بچے نے جواب دیا.
ماسٹر صاحب نے ایک لمبی سانس لی جو اُن کے اطمینان اور سکون کی علامت تھی.
پھر دوبارہ پوچھا۔”اچھا اب بتاؤ! فرض کرو کہ میں نے پہلے تمہیں دو کبوتر دئیے پھر دو کبوتر دیئے تو کُل کتنے کبوتر ہو گئے”؟ ”پانچ” بچے نے فورًا جواب دیا.ماسٹر صاحب جو سوال کرنے کے بعد کرسی سیدھی کر کے بیٹھنے کی کوشش کر رہے تھے اس زور سے بدکے کہ کرسی سمیت گرتے گرتے بچے.او? خبیث! پنسلیں دو اور دو ”4” ہوتی ہیں تو کبوتر دو اور دو ”5” کیوں ہوتے ہیں”؟اُنھوں نے رونے والی آواز میں پوچھا.”ماسٹر جی ایک کبوتر میرے پاس پہلے سے ہی موجود ہے” بچے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”بس پورے حالات جانے بغیر کوئی رائے مت قائم کیجیے۔ تصویر کے دونوں رخ دیکھ کر کوئی نتیجہ اخذ کیجیے۔
ایک چوبیس سال کا لڑکا چلتی ٹرین سے باہر دیکھ کر اونچی آواز میں چِلّاتا ہے۔”دیکہو بابا! درخت پیچہے رہ گئے ہیں ہم بہت تیزی سے آگے جارہے ہیں.”
باپ اس کی طرف دیکہتا ہے اور خوش ہو کر مسکرا دیتا ہے.ایک نوجوان جوڑا بہی چوبیس سال کے لڑکے کے قریب بیٹہا ہوتا ہے اور غور سے اس کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا ہوتا ہے کہ ”اتنا بڑا ہوگیا ہے اور کتنی بچگانہ حرکتیں کررہا ہے. شاید یہ کوئی ذہنی مریض ہے جو باپ کو پریشان کر رہا ہے.”اچانک سے پہر لڑکا چِلّاتا ہے۔”دیکھو بابا! بادل بہی ہمارے ساتھ ساتھ بہاگ رہے ہیں”. آخر کار اس جوڑے سے رہا نہ گیا اور لڑکے کے باپ کو کہنے لگے۔ ”آپ اپنے بیٹے کو کسی اچہے ماہر نفسیات کے پاس کیوں نہیں لے کر جاتے؟”بوڑہے آدمی نے مسکراتے ہوئے کہا۔”ہم ابھی ابھی ڈاکٹر کے پاس سے آرہے ہیں لیکن ماہر نفسیات کے پاس سے نہیں. ہم ہسپتال سے واپس آرہے ہیں۔ میرا بیٹا پیدائشی اندہا تھا اس نے آج پہلی دفعہ دنیا کو اپنی نظر سے دیکہا ہے. آج 24 سال بعد اس کو اپنی نظر سے دنیا کو دیکھنے کا موقعہ ملا ہے۔ اس کا یہ رویہ آپ کے نزدیک احمقانہ ضرور ہو گا لیکن میرے لیے یہ کسی معجزہ سے کم نہیں ہے.”وہ جوڑا لڑکے کے باپ کے پاس آکر بہت سے اَن کہے الفاظ اور آنکھوں میں شرمندگی کے آنسو لیے ہوئے بیٹھ جاتا ہے اور ان کی خوشی میں شامل ہوتا ہے. دنیا میں ہر انسان کی کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہوتی ہے لیکن ہم بہت جلد لوگوں کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرنا اور رائے دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں. یہ نہ جانتے ہوئے کہ وہ کون ہیں اور ان کو کیا مسئلہ ہے. اس کہانی کا سچ بھی آپ کے لیے حیران کن ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button