کالم

جماعت اسلامی آزاد کشمیرکی بین الاقوامی کشمیرکانفرنس

جماعت اسلامی آزاد جموںوکشمیرگلگت بلتستان کے امیر ڈاکٹر محمد محمد مشتا ق خان نے حلف امارت اٹھانے کے بعد جن ترجیحات کاتعین کیا ان میںسرفہرست مسئلہ کشمیرکو مخدوش صورت حال سے نکال کر ایک بار پھر فلیش پوائنٹ بنانا شامل تھا،آزا د خطے کی بری گورننس اور موروثی سیاست اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کے حوالے سے بھی یونیک اقدامات ترجیح اول تھے ،ان اہداف کے حصول کے لیے ڈاکٹر محمد مشتا ق خان نے درجنوں ریٹائرڈ سیکریٹریز کو جماعت اسلامی میں شامل کیا،جو منفرد مثال ہے،بڑی تعدا د میں سول اور سابق فوجیوں سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افرادکوجماعت اسلامی میں شامل کیا،اسلامک لایئرز مووومنٹ کاقیام عمل میں لاکر وکلاء برادری کو تحریک سے جوڑا،نوجوانوں اور خواتین کے ونگز کو از سرنومتحرک کیا اور بڑی تعداد میں نوجوان کو جماعت اسلامی کے قریب کیا،جماعت اسلامی اور اس کے اداروں کو باہم مربوط کرکے عوامی خدمت کی نئی راہیں نکالنے کے لیے کام پر امور کیا اور باہم مربوط کیا،یوں جماعت اسلامی ایک متحرک متبادل سیاسی قوت کے طورپر سامنے آئی ہے ڈاکٹر محمد مشتاق خا ن نے جماعت اسلامی کو عوام کے لیے امید کی آخری کر ن کے طورپر میدان میں لاکھڑا کردیاہے۔
5اگست 2019کے مووی کے اقدامات کے بعد مقبوضہ کشمیرکی سنگین صورت حال تقاضاکررہی تھی کہ سارے حالات کا جائز ہ لیاجائے اور آئندہ کالائحہ عمل طے کیاجائے ،اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر،آزاد کشمیر،گلگت بلتستان ،برطانیہ ،امریکہ حتیٰ کے دنیا میں جہاں بھی اس تحریک کے اسٹیک ہولڈرز موجود ہیں ان سب کو جمع کیاجائے اور دوتین دن بیٹھ کر تحریک آزاد ی میں کیاکھویا؟ کیاپایا ؟سب کاتجزیہ کیاجائے اور آئندہ کے اہداف طے کیے جائیں۔ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے یہ تاریخ ساز اقدام کیاکہ ان سب اسٹیک ہولڈرز کو جمع کیا ، اسلام آباد اور بعدا زاں مظفرآباد میں عالمی کانفرنس کاانعقاد کیا،اس تاریخی کانفرنسز میں آزاد کشمیر،مقبوضہ کشمیر،گلگت بلتستان اور دنیا بھر سے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین ،اہل دانش اور صحافی شریک ہوئے اور پاکستان سے بھی قیادت شریک ہوئی ،ان کانفرنسزسے جہاں تحریک آزادی کشمیرکو جلاملی وہاں مقبوضہ کشمیرکے اندر پائی جائنے والی بے چینی کا خاتمہ بھی ہوا ور ایک بار پھر تحریک آزادی کشمیرپوری شدومدکے ساتھ اجاگرہورہی ہے۔ان کانفرنسز کے نتیجے میں تحریک آزادی کشمیرنے نئی انگڑائی لی ہے۔ڈاکٹر محمد مشتاق خا ن اس تصوراور جمود کو توڑنے میں بھی کامیاب رہے کہ یہاں کے عوام اورقیادت مسئلہ کشمیرسے لاتعلق ہوچکی ہے یا وہ کسی وجہ سے خاموش ہے۔امیر جماعت اسلامی آزاد جموںوکشمیر گلگت بلتستان ڈاکٹر محمد مشتاق خان کی زیر صدار ت عالمی کانفرنسز میں مشترکہ طوپرطے کیاگیاکہ ریاست جموں کشمیرایک وحدت ہے جس کی یک طرفہ ضرب تقسیم کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔بھارتی قابض افواج کے خلاف سیاسی’ سفارتی اور عسکری محاذوں پر مزاحمت اہل کشمیر کا بنیادی حق ہے جس کا حق اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین نے دیاہے۔ ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اپنے حق خود ارادیت کے حصول اور حق مزاحمت سے کسی طور دستبردار نہیں ہوں گے۔ہم5 اگست 2019ء کے مودی سرکار کی آئینی دہشت گردی کے اقدامات کو مسترد کرتے ہیں اور انہیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روح’ پاک بھارت دو طرفہ معاہدات اور تمام بین الاقوامی ضابطوں کی رو سے بھارت کی بد ترین ریاستی دہشت گردی سمجھتے ہیں جسے کوئی بھی باغیرت کشمیری کسی طور قبول نہیں کرتا۔حریت قائدین جناب محمد یاسین ملک’ جناب شبیر احمد شاہ’ جناب مسرت عالم’ جناب عبدالحمید فیاض’ محترمہ آسیہ اندرابی، نعیم احمد خان، ظفر اکبر بٹ اور ان کے ساتھ دیگر مقید خواتین رہنماؤں اور ہزاروں بے گناہ حریت پسند کارکنان کی گرفتاریوں اور ان پر جعلی مقدمات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔مقبوضہ ریاست کے مذہبی سکالر اور علماء جناب مولانا سرجان برکتی’ فہیم رمضان، کی گرفتاریوں،تشدد اوربے جا مقدمات کی مذمت کرتے ہیں اور دینی مدارس کی بندش پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ہم جماعت اسلامی جموں کشمیر’ مسلم کانفرنس’ جے کے ایل ایف اور حریت کانفرنس کی دیگرسیاسی اکائیوں پر پابندی کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں اور اس اقدام کو بھارت کی بوکھلاہٹ قرار دیتے ہیں۔ریاست کے مسلم اور کشمیری تشخص کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے مودی کے فاشسٹ اقدامات کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور کشمیریوں کی نسل کشی اور ڈیمو گرافی کی تبدیلی کی ان بھونڈی کوششوں کو تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑانے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ہم آزادی کی اس راہ میں شہید ہونے والے عظیم قائدین جناب سید علی گیلانی’ جناب مقبول بٹ، جناب محمد اشرف صحرائی’ جناب شیخ عبدالعزیز’ میر واعظ مولوی عمر فاروق، عبدالغنی لون، الطاف احمد شاہ اور دیگر قائدین اور مجاہدین کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ اس جدوجہد کو ہر صورت میں منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ہم اقوام متحدہ’ او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر ایک مستند حل طلب مسئلہ ہے جو دو نیو کلیئر طاقتوں کے درمیان مسلسل کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے۔اس مسئلے پر چار جنگیں ہو چکی ہیں اور مستقبل میں بھی اس مسئلے کی وجہ سے اس خطے پر ایٹمی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔مودی کی حکمت عملی نے تلخی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔جنوبی ایشیااور دنیا کے امن کے تحفظ کی خاطر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے یہ ادارے اپناکردار ادا کریں اور بھارت کو ریاستی دہشت گردی سے باز رکھنے کے لیے سفارتی’معاشی اوردیگر تمام ذرائع بروئے کار لائے جائیں۔ہم اقوام متحدہ اور او آئی سی کی انسانی حقوق کونسل کی رپورٹ کی تحسین کرتے ہیں۔فیکٹ فائنڈنگ مشن کے دورے کو یقینی بنانا ان بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری ہے جس کا اہتمام کیاجانا چاہیے۔ہم امید رکھتے ہیں کہ او آئی سی کے زیر اہتمام نوے کی دہائی میں کشمیر ریلیف فنڈ کے اجراء کے فیصلے پر بھی عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔ہم او آئی سی کے حالیہ ا جلاس میں کشمیر پر قرارداد کی بھی تحسین کرتے ہیں۔بھارت محض قراردادوں سے نہیں ٹھوس سفارتی اقدامات ہی سے مسئلے کے حل کے لیے تیار ہو سکتا ہے اس لیے او آئی سی کے تمام ممالک بھارت کامعاشی بائیکاٹ کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی ذ مہ داریوں سے عہدہ برآ ہوں۔ہمم سمجھتے ہیں کہ نام نہاد باجوہ ڈاکٹرائن سے تحریک آزادی اور پاکستان کی سلامتی کو شدید دھچکا لگاہے’ باہم بے اعتمادی کی خلیج میں اضافہ ہوا جس کے تدارک کے لیے قومی سطح پر واضح موقف اور بیانیہ تشکیل دیا جائے۔ اس سلسلے میں حریت اور کشمیری قیادت سے مشاورت کی جائے اور ایک جاندار اور ہمہ گیر کشمیر پالیسی تشکیل دی جائے۔ہم حکومت پاکستان کی محض اخلاقی’ سیاسی’ سفارتی حمایت سے مطمئن نہیں۔پاکستان اس مسئلے کا اہم فریق ہے۔اس لیے پاکستان تحریک آزادی کی عملی اور ٹھوس مددکا اہتمام کرے اور دنیا پر واضح کرے کہ پاکستان،بھارتی ناجائز قبضے کے خلاف جاری کشمیریوں کی قانونی جدوجہد کی وہ ہر محاذ پر مددکا پابند ہے۔ اس موقف پر باقی ممالک سے بھی حمایت کو یقینی بنائے۔ایک اسلامی جمہوری اورمستحکم پاکستان ہی کشمیریوں کی آزادی کی ضمانت ہے’ ا
س لیے ہم تمام قومی رہنماؤں اور اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں باہمی انتشار کو ختم کریں اور مذاکرات سے متنازعہ مسائل کو حل کرتے ہوئے یکجہتی کا ماحول پیدا کریں۔تحریک آزادی کی تقویت کے لیے ریاست آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کو آئینی اور وسائل کے اعتبار سے مزید با اختیار بنایا جائے’ ان خطوں میں عدل و انصاف پر مبنی اسلام کا فلاحی معاشرہ قائم کرنے کا اہتمام کیا جائے جو مقبوضہ کشمیر کے لیے ایک رول ماڈل بن سکے۔کانفرنس آزاد کشمیر میں عوامی حقوق کی خاطر جاری تحریک کے دوران چار قیمتی جانوں کے ضیاع پر اظہار تعزیت کرتی ہے اور حکومت آزاد جموں کشمیر سے ایک شفاف اور غیر جانبدار عدالتی کمیشن کا قیام کرتے ہوئے اس بھیانک عمل کی فوری تحقیقات اور ذمہ داران کو قانون کے مطابق سزا دینے اور جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثا کو قانون دیت کے مطابق معاوضہ دینے کا مطالبہ کرتی ہے۔کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ آزادکشمیر میں میرٹ اور NTSکے نظام کو موثر اور فعال بنایا جائے۔آزاد حکومت کی وساطت سے کشمیریوں کو بین الاقوامی محاذ پر بھرپور ترجمانی کرنے کا موقع دیا جائے’ اس سلسلے میں آزادکشمیر کے آئین کے مطابق مشیر رائے شماری کا تقررفوری طور پر کیا جائے جو بین الاقوامی محاذ پر رائے عامہ ہموار کرے۔مقبوضہ اور آزادکشمیر کے شہداء کے خاندانوں کی کفالت کے لیے بھرپور اہتمام کیا جائے’ نوے کی دہائی میں ہجرت کرنے والے آزادکشمیر میں کیمپوں میں مہاجرین کے مسائل حل کیے جائیں اور ان تمام امور کی انجام دہی کے لیے کشمیر ریلیف فنڈ قائم کیاجائے۔ہم عہد کرتے ہیں کہ شہداء کی قربانیوں کو نتیجہ خیز بنانے اور حق خود ارادیت کے حصول کے لیے منزل کے حصول تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یہ کانفرنس اہل فلسطین اور غزہ سے بھرپور اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت اور ریاستی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتی ہے جس کے نتیجے میں چالیس ہزار سے زائد فلسطینی بالخصوص بچے اور خواتین شہید ہو چکے،غزہ کے ہسپتالوں،تعلیمی اداروں اوررہائشی عمارتوں کوکھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہ کانفرنس اسرائیلی جارحیت کے فوری خاتمے کامطالبہ کرتی ہے۔کانفرنس اقوام متحدہ اور او آئی سی، اسرائیل کے خلاف سفارتی اور معاشی تعلقات کے خاتمے کے ساتھ سخت تادیبی اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے اور اہل فلسطین کے حق مزاحمت کی پشتیبانی کے لئے بھرپور امداد کا مطالبہ کرتی ہے۔کانفرنس سابق وزیراعظم اور فلسطینی رہنما جناب اسماعیل ہنیہ کے بیٹوں’پوتوں اور نواسوں اور دیگر ہزاروں شہداء کے قتل عام پر ان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ان کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتی ہے۔
ڈاکٹر محمد مشتاق خا ن نے بے انتہامایوسی کے اس عالم میں امید کے نہ صرف نئے چراغ جلائے ہیںبلکہ تحریک آزادی کشمیرکے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مشترکہ لائحہ عمل لے کر اپنے اپنے محاذوں پر پیش قدمی کرنے پربھی اتفاق کرایا۔یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔تحریک آزادی کشمیرکو اب نئے انداز سے منزل تک پہنچانے کااہتمام کیاجائے گا۔ڈاکٹر محمد مشتاق خان کی قیاد ت میں تحریک آزادی کا یہ قافلہ منزل تک جائے گا۔اب مقبوضہ کشمیرسے لے کر دنیا کے ہر کونے تک ایک ہی بات اور ایک ہی موقف اختیار کیاجائے گا وہ ہے حق خودارادیت کا حصول جس کا وعدہ اقوام متحد ہ نے کشمیریوں سے کیاہوا ہے۔اپنے ا س حق کے حصول کے لیے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے کشمیریوں کو حق مزاحمت دے رکھاہے ۔کشمیری اس کا استعمال کریںگے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button