کالم

ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی

آج کل جو کام دنیا میں کہیں نہیں ہوتا وہ پاکستان میں باآسانی ہورہاہے ،پاکستان میں طاقت کی ایک لڑائی چل رہی ہے عوام اور طاقتور حلقوں کے درمیان اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ کشمکش کم ہونے کی بجائے گہری سے گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔سانحہ نو مئی حقیقتاً بہت برا سانحہ تھا جسے شاید صدیوں نہ بھلایا جاسکے الزام تو ایک سیاسی جماعت پر عائد ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ کچھ شکو ک وشبہات ایسے بھی دیکھنے کو ملے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید اس الزام میں بھی کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہے جبکہ پاکستان میں سانحہ ماڈل ٹائون سمیت بے شمار ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جھنیں شاید کبھی نہ بھلایا جاسکے مگر یہاں پر ملوث طاقتور شخصیات نے کہانی کا رخ ہی بدل کررکھ دیاہے ،فی الحال آج کل پاکستان میں ایک ایسے الیکشن کا انعقاد ہونے جارہاہے جو الیکشن سے بھی سلیکشن میں تبدیل ہوچکاہے مطلب جو میں نے اوپر لکھا کہ پاکستان میں وہ کام بھی ہوجاتاہے جو پوری دنیامیں کہیں نہیں ہوتا ہوگا،اس الیکشن میں ملک کی تمام بڑی جماعتیں ہی الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں مگر بہت سار ی شکایات پی ٹی آئی کے لوگوں کی جانب سے سننے میں اور دیکھنے کو آرہی ہیں،پی ٹی آئی کے بیشتر اُمیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کیے جا رہے ہیں جب کہ پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اُن کے اہلِ خانہ کو ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے الزامات بھی تواتر سے سامنے آ رہے ہیں۔مظفر گڑھ سے پی ٹی آئی کے اُمیدوار جمشید دستی نے بھی ایک ویڈیو میں الزام عائد کیا ہے کہ پولیس اور ریاستی اداروں کی جانب سے اُن کے اہلِ خانہ کو ہراساں کیا گیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔جبکہ اس الزام سے کچھ عرصہ قبل سیالکوٹ سے پی ٹی آئی کے سابق رہنما عثمان ڈار کی والدہ نے بھی الزام عائد کیا تھا کہ پولیس نے اُن کے گھر میں داخل ہو کر ایک بار پھر توڑ پھوڑ کی ہے، صنم جاوید ،یاسمین راشدسمیت اور بھی بہت سے لوگ جن کی تفصیل بہت لمبی ہے ان کا ماننا ہے کہ انہیں الیکشن کے میدان سے باہر رکھنے کے لیے ان کے ساتھ بڑے پیمانے پر غنڈہ گردی ہورہی ہے،جن لوگوں نے عمران خان کو چھوڑ کر جانا تھاوہ تو چلے مگر جو رہ گئے ہیں ان پی ٹی آئی کیامیدواروں کے لوگوں کا جزبہ دیکھ کر تو ایسا ہی لگتاہے کہ پی ٹی آئی میدان چھوڑ کر نہیں جائے گی اور الیکشن کمیشن کے ہر بھونڈے حربے کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار دکھائی دیتی ہے۔جبکہ میں بھی بطور ایک عام شہری یہ سمجھتا ہوں کہ ایک سیاسی جماعت کے کاغذاتِ نامزدگی بڑے پیمانے پر مسترد ہوئے ہیں یہ کوئی مناسب بات نہیں ہے۔زراہم ڈیٹیل میں جائیں تو الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان بھر سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر 25 ہزار 951 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔ان میں سے تین ہزار 240 امیدواروں کے کاغذات منظور نہیں کیے گئے جب کہ 22 ہزار 711 امیدواروں کے کاغذات منظور کیے گئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک ہزار 24 اور صوبائی اسمبلیوں کے 2 ہزار 216 امیدواروں کے کاغذات منظور نہیں کیے گئے۔ای سی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب سے قومی اسمبلی کے 521، اسلام آباد کے 93، سندھ کے 166 امیدواروں کے کاغذات مسترد ہوئے، خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر 152، بلوچستان سے 92 سیٹوں پر امیدواروں کے کاغذات مسترد کیے گئے ہیں۔اِسی طرح صوبائی اسمبلی پنجاب سے 943، سندھ اسمبلی سے 520، صوبائی اسمبلی بلوچستان سے 386 اور خیبرپختونخوا اسمبلی سے 367 امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی منظور نہیں کیے گئے۔شاید اس ملک کا میڈیا کچھ اور ہی منظر دکھا رہاہے مگر سوشل میڈیا سمیت مختلف زرائع ہمیں بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ایک ایک امیدوار کو دیوار میں چنا جارہاہے، قائرین کرام پاکستان کو بنے 70 سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے، آزادی سے لے آج تک ہم بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ اس ملک کی بربادی نے برابر کا حصہ ڈالا اس ملک کی دوبڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پی پی نے تباہی کی بڑی بڑی داستانیں رقم کی اس کے باوجود آج وہ میدان سیاست میں دھڑلے سے جلسے جلسوس کررہے ہیں،ملک کی باقی سیاسی جماعتوں کی نسبت پی ٹی آئی اِس وقت کئی الجھنوں میں الجھی ہوئی ہے ایک کے بعد ایک مشکل کھڑی ہو جاتی ہے، وہ تو پہلے ہی لیول پلئینگ فلیڈ نہ ملنے کی شکایت کر رہی ہے اور اب اُس کا انتخابی نشان بھی ہاتھ سے نکل رہا ہے بلکہ موجودہ صورتحال میں تو نکل ہی گیا ہے، اب اِسے واپس لینے کے لئے اُسے نہ جانے کیا کیا کچھ اور کرنا پڑے،سپریم کورٹ بھی تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا کرنے کا حکم جاری کر چکی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں لڑنے کی پوری اجازت ہونی چاہیے، لیکن مجال ہے جو اعلیٰ عدلیہ کی باتوں پر کوئی عمل کرنے کو تیارہو،آج اگر سب کی زبان پر سانحہ نو مئی ہے تو سانحہ نو مئی کے ساتھ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے اپیل ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاون کا کیس 9 سال سے انصاف کا منتظر ہے،کیونکہ سانحہ ماڈل ٹاون پاکستان کی تاریخ کا منفرد کیس ہے جس میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف، سابق وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف، سابق وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ، پولیس کے اعلیٰ افسران اور بیوروکریٹ ملوث ہیں مگریہ ملزمان کھلے عام پھرتے بھی ہیں اوروزراتوں کے مزے بھی لوٹتے ہیں،سانحہ ماڈل ٹاون کی تفتیش کے لئے بننے والی نئی جے آئی ٹی میں وہ تمام شہادتیں اور ثبوت فراہم کئے گئے جو نوازشریف، شہبازشریف حکومت کے جانے کے بعد میسر ہو سکتے تھے اور اصل ملزموں تک پہنچنے کے لئے جے آٹی کو ایسی تمام شہادتیں، ثبوت اور شواہد ملے کہ باآسانی اس سانحہ کے منصوبہ سازوں تک پہنچا جاسکتا ہے مگرکس کی مجال جو ان صاحبان پرہاتھ بھی ڈال سکے بلکہ قوم کو سانحہ نو مئی کے پیچھے لگادیاہے اور سانحہ ماڈل ٹائون کے لوگوں کو معاف کردیا گیا،کیاسانحہ ماڈل ٹاؤن ریاستی دہشت گردی کا بدترین واقعہ نہیں تھا جس میں ن لیگ کی قیادت نوازشریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ سمیت بیوروکریٹس، پولیس افسران اور حکومت پنجاب کے اہلکاران ملوث ہیں جنہوں نے عدالتی حکم پر لگائے جانے والے بیریئر ہٹانے کی آڑ میں ذاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ماڈل ٹاؤن میں100 افراد کو گولیوں سے زخمی کیا گیا، جن میں سے 14 افراد شہید ہو ئے خیر ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا کے مختلف ملکوں نے عام یا کمزور طبقات کی سیاست کو مستحکم کرنے کے لئے کیا حکمت عملیاں اختیار کیں اور ایسے کون سے تجربے تھے جس نے وہاں ریاست، حکومت اور شہریوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنایا اگر ان باتوں پر ریاست توجہ دے تو پھر پاکستان میں ترقی تو ہوسکتی ہے لیکن کو سانحہ رونما نہیں ہوسکتا۔لیکن افسوس ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button