کالم

فرقہ پرستی سے بچنے کا واحد حل المورد انسٹیٹیوٹ

صاحبو! دکھ اس بات کا ہے کہ ہما رے وطن عزیز میں جہاں کہیں بھی علم و فہم کی تگ و د کی گئی اسے یا تو جبر سے دبا دیا گیا یا پھر اس پر سنسر کی پابندیاں لگا دی گئیں۔میں گزشتہ پندرہ دنوں سے مسلسل سے استاذ محترم جاوید احمد غامدی پر تحریر کر رہا ہوں اور اسے روزانہ پبلش کروانے کے لئے بھیجتا بھی ہوں لیکن اجارہ داری کے خوف کی وجہ سے کوئی اس تحریر کو شائع کرنے کی جرات نہیں کر رہا۔ حالانکہ اس میں ایک بات بھی controversialنہیں ہے۔ محترم جاوید احمد غامدی عالم اسلام کے کسی بھی فرقے یا فرد کے خلاف طعن زنی اور کسی بھی فرقے یا فرد کے خلاف کبھی بھی ہرزہ سرائی نہیں کرتے۔لیکن نجانے وہ کون سا ڈر ہے،خوف ہے جس کی وجہ سے ان کی بے لاگ اور صحیح صحیح گفتگو اور حتیٰ کہ ان کا تعارف بھی بر صغیر پاک و ہند میں کروانا جرم سمجا جاتا ہے۔جاوید احمد غامدی اسلام کا گہرا فہم رکھتے ہیں اور تدبر اور حکمت سے اسلامی تعلیمات کو دنیا میں پھیلانے میں مصروف کار ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ شاید میرا یہ سولہواں کالم بھی کسی اخبار کی زینت نہ بنے لیکن غامدی صاحب نے جو کام اسلام پر کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ وہ بلا شبہ اس وقت عالم اسلام کے سب سے بڑے مفکر ہیں۔قارئین محترم! اپنی زندگی کے چالیس سال تک میں مذہب کو سمجھنے کی جستجو کرتا رہا لیکن بقول مولانا حضرات اور مذہبی راہنمائوں کے خیال کے مطابق مذہب سمجھنا ہر ایک انسان کی بس کی بات نہیں۔ ستم تو یہ کہ جب بھی کبھی کسی عالم کے پاس مذہبی اشکال دورکرنے کے لئے جاتا تو وہ یہ کہہ کر زبان پر مہر ثبت کر دیتے کہ اگر تم مجد ہو تو اجتہاد کرو اور اگر عام مسلمان ہو تو وہی کرو جو ہم تمہیں بتا رہے ہیں۔لیکن اپنی جستجو اور طلب کی وجہ سے میں کبھی بریلوی بنا،کبھی دیو بندی بنا،کبھی اہلحدیث بنا،کبھی شیعہ بنا۔۔۔لیکن بد قسمتی سے کبھی بھی گزشتہ چالیس سال میں میں مسلمان نہ بن سکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے فاضل علمائے کرام کی انتہاء پسندانہ سوچ تھی۔میں بار بار یہ سوچنے پر مجبور رہا کہ میں نے مرنا ہے اور میں نے ہی خدا کے سامنے دنیا میں کئے گئے اعمال کا جواب بھی دینا ہے۔اگر میں اپنے علم اور عمل کی بنیاد پر اللہ کے حضور پہنچ کر کامیاب ہو گیا تو مجھے ابدی جنت ملے گی اور اگر خدا نخواستہ میں ناکام ہو گیا تو جہنم میرا ٹھکانہ بن جائے گا۔
قارئین! موت اٹل حقیقت ہے۔اور موت کے بعد کی زندگی ابدی ہے اور اگر میں جنت کا حقدار ٹھہرا تو نہ مجھے ماضی کا کوئی پچھتاوا ہوگااور نہ مستقبل کا کوئی غم۔مجھے مرنا ہے اور مجھے جواب دہ ہونا ہے۔میری جگہ میری قبر میں کوئی مولوی صاحب،کوئی حافظ صاحب،کوئی شیخ الحدیث یا کوئی ولی اللہ خدا کے سامنے جواب نہیں دیں گے۔ یہ میں نے ہی اپنا حساب کتاب دینا ہے۔اور وہ حساب بھی اتنا عدل و انصاف پر مبنی ہو گا کہ ۔۔۔و مثقال ذرة خیراَ یراہ و مثقال ذرة شراَ یراہ ۔۔۔ کے اصول پر ہو گا۔ وہاں کوئی چوہدری صاحب،راجہ صاحب،ملک صاحب،سردار صاحب،نواب صاحب اور خواجہ صاحب کی یہ مجال نہ ہو گی کہ وہ رب کائنات کے سامنے کوئی عذر پیش کر سکیں۔ وہاں ہاتھ،پائوں،اور جسم کے سارے اعضاء گواہی دیں گے اور زبان پر مہر لگا دی جائے گی۔اس ساری صورت حال میں مجھے صرف میرے اعمال بچا پائیں گے ،معذرت کے ساتھ نہ کوئی مولوی صاحب،نہ حافظ صاحب،نہ قاری صاحب اور نہ کوئی بڑے سے بڑا شیخ الحدیث میری سفارش اور نجات کا ذریعہ بن پائے گا۔ اب آپ فیصلہ کریں کہ مجھے اپنی ابدی زندگی میں کامیابی کے لئے واعظوں ،قاریوں،مولویوں اوربڑے سے بڑے علمائے کرام میری نجات کا ذریعہ کیسے بن سکتے ہیں۔ اسی سوال نے میری زندگی کو مذہب کی حقیقت سمجھنے پر مجبور کر دیا اور آج اللہ کے فضل و کرم سے مولانا حمیدالدین فراہی،مولانا امین احسن اصلاحی اور استاذ محترم جاوید احمد غامدی کی مدد سے مجھے مذہب کی کچھ نہ کچھ شد بد حاصل ہو چکی ہے۔قارئین!اگر ہم پوری دنیا میں تلاش کریں تو ہمیں یا تو بریلویویوں کی مساجد ملیں گی،یا دیو بندیوں کی،یا اہلحدیث کی لیکن بد قسمتی سے ساری دنیا میں ہمیں اللہ کی کوئی مسجد ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ یہ ہمارا بہت بڑا المیہ ہے۔ اور اسی فرقہ پرستی اور مذہبی تعصب کو ختم کرنے کے لئے استاذ محترم جاوید احمد غامدی نے ملکی سطح پر بھی اور بیرونی ممالک میں بھی جو خدمات سر انجام دی ہیں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں اور نہ ہی وہ چھپی ہوئی ہیں بلکہ ان کے سارے افکار جو انہوں نے اسلام کی ری کنسٹرکشن کے لئے کئے ہیں وہ کتابی شکل میں بھی موجود ہیں اور ان کے تفصیلی لیکچرز کی صورت میں بھی محفوظ ہیں۔غامدی صاحب کی پیدائش 18اپریل 1951ء کو ساہیوال کے ایک گائوں جیون شاہ میں ہوئی۔ان کا آبائی گائوں سیالکوٹ کا ایک قصبہ ہے اور پیشے کے اعتبار سے ذمیندار ہیں۔ابتدائی تعلیم پاک پتن سے حاصل کی۔اسلامیہ ہائی سکول پاک پتن سے میٹرک کا امتحان پاس کیا،اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور آنرز کا امتحان پاس کیا۔عربی اور فارسی کی تعلیم ضلع ساہیوال کے ایک عالم مولوی نور احمد صاحب سے حاصل کی۔دینی علوم قدیم طریقے سے مختلف اساتذہ کرام سے حاصل کئے۔قرآن و حدیث کا علم مشہور مدرسہ فراہی کے جید عالم مولانا امین احسن اصلاحی سے کم و بیش 25برس تک حاصل کرتے رہے۔غامدی صاحب کے دادا کو گائوں کے لوگ مصلح اور عظیم صوفی سمجھتے تھے۔اسی لفظ مصلح کو جاوید احمد غامدی نے عربی سے ماخذ کر کہ غامدی کو اپنے نام کا حصہ بنا لیا۔جاوید احمد غامدی المورد، اشراق،ماہنامہ رینی ساںاور قرآن شریف کی جدید تفسیر البیان کے مصنف ہیں۔اس کے علاوہ ان کی مزہب پر جامع کتاب المیزان ہے جو کئی زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔اس کے علاوہ ب ربان، مقامات،خیال و خامہ اور مجموعہ کلام ان کی اعلیٰ درجے کی مذہبی تصانیف ہیں۔حال ہی میں انہوں نے حدیث پر مفصل کام کیا ہے اور مستند حدیثوں کو تحقیق کے بعد کتابی شکل میں لانے کے لئے کو شاں ہیں۔جاوید احمد غامدی کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن پاک کا قریش کی لغت کے مطابق آسان فہم ترجمہ کرنا ہے۔اشراق اردو زبان میں غامدی صاحب کے افکار کا نچوڑ ہے۔اس کا آغاز انہوں نے 1985ء میں کیا۔پھر اسے باقاعدہ declarationمل گیا۔تب سے یہ رسالہ با قاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔اس میں قرآنیات،دین و دانش،معارف نبوی،نقد و نظر،نقطہء نظر اور کرنٹ افئیرزکے علاوہ تبصرہ کتب پر بحث کی گئی ہے۔رینی رساں غامدی صاحب کا انگریزی مجلہ ہے، اس میں انہوں نے قرآن کی تفہیم بڑے واضح انداز سے کی ہے۔ اس کا آغاذ انہوں نے 1991ء میں کیا۔
استاذ محترم جاوید احمد غامدی کے عقائد اگرچہ پرانے ملائوں کو ایک نظر نہیں بھاتے۔ لیکن اگر فکر و دانش سے ان عقائد پر غور کیا جائے تو یہ اسلام کی سادہ ترین اور آسان تفہیم ہے۔ ان کے عقائد عین اسلامی اور logicalبنیادوں پر مبنی ہیں۔کم از کم مجھ جیسا عام مسلمان ان کے عقائد کی وجہ سے ہی سچا مسلمان،عبادات کو اسلام کا لازمی جزو اور محمد عربیۖکو اللہ کا آخری اور حتمی حجت مانتے ہوئے مذہبی افکار پر عمل پیرا ہو سکتا ہے۔قارئین محترم! جاوید احمد غامدی کو اکثر علمائے کرام منکر حدیث کہتے ہیں۔اکثر علمائے کرام انہیں مرتد اور کفریہ عقائدکے مرتکب گردانتے ہیں۔لیکن اس بات میں محض بغض معاویہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ اگر نعوذ باللہ جاوید احمد غامدی منکر حدیث ہوتے تو کیا وہ اپنی بنیادی کتاب جو انہوں نے اسلام پر تحریر کی ہے اس میں بارہ ہزار سے زائد احادیث quoteکی ہیں۔میری ناقص رائے کے مطابق چونکہ میں ایک مذہبی سکالر نہیں اس لئے اگر موجودہ دور کے سب سے بڑے عالم دین کا نام لیا جائے تو وہ صرف جاوید احمد غامدی ہی ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق حضرت محمدۖ امام الانبیاء ہیں۔ ان کے بعد جو بھی مذہبی راہنماء آئے ان پر نہ تو وحی اترتی تھی اور نہ خدا کی طرف سے کوئی ڈائریکٹ پیغام موصول ہوتا تھا۔ وہ سب یقیننا جلیل القدر شخصیات تھے۔لیکن ان کی حیثیت محض ایک عام انسانوںکی طرح تھی۔ ہمارے علمائے کرام اور فراہی مکتبہ ء فکر کے درمیان سب سے بڑا اختلاف یہ ہے کہ آئمہ اربعہ کی حیثیت عام انسانوں جیسی نہیں،بلکہ وہ افضل ترین انسان تھے۔ جب کہ مکتب فراہی کے نزدیک امام انسانیت محض محمد رسول اللہۖتھے،جب کہ باقی سارے آئمہ بالکل عام انسانوں کی طرح تھے اور اپنی سوچ کے مطابق مذہبی عقائد یش کرتے تھے،جن میں بحرحال غلطی کا احتمال ہو سکتا تھا۔کیونکہ کوئی بھی جتنا بڑا متقی اور پرہیزگار انسان ہو گا وہ احمد عربیۖ کے بعد کم ازکم پیغمبر نہیں ہو سکتا۔ پیغمبر خدا کا messageلوگوں تک پہنچاتے تھے جب کہ اللہ کے متقی لوگ اپنی عقل و فہم کے مطابق لوگوں کو مذہب کی تعلیم دیتے ہیں،جس میں بحرحال غلطی کا احتمال ہو سکتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے مذہبی پیشوائوں نے دین کے اوپر تحقیق اور researchکے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دئیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button