کالم

میرے خواب۔۔لا جواب

قارئین! اگر اللہ رب العٰلمین نے انسان کو عقل سلیم نہ عطا کی ہوتی تو انسانیت بھی دیگر جانوروں کی طرح ایسی مخلوق ہوتی جو ذرائع ابلاغ کی قوت سے محروم رہتی،لیکن اللہ تعالیٰ کا صد لاکھ شکر بھی ادا کیا جائے تو کم ہے کہ اس نے نہ صرف انسان کو اچھائی اور برائی کا داعیہ ودیعت کیا بلکہ دیگر بہت سے امور میں بھی انسان کو مخلوقات پر فوقیت بخشی۔آج چونکہ اداریہ محض خیالات اور سوچوں کے متعلق ہے اس لئے جن احباب کو سمجھ آجائے تو ان کا تہہ دل سے شکریہ،جنہیں نہ سمجھ آئے وہ بھی اللہ کے شکر گزار ہوں ،کیونکہ انہیں شعور آگہی نہیں ملا،یقین جانئے آگہی بھی انسان کے لئے جہاں بہت ہی مفید ہے وہیں پر جن لوگوں کو یہ نعمت یا زحمت نصیب نہیں ہوئی وہ بھی خوش قسمت ترین لوگ ہیں۔ آج چند خوابوں کا تذکرہ کروں گا امید ہے آپ معذوذ ہوں گے۔ رات گئے جب آسمان پر دسمبر کی راتوں کا کالا گپ اندھیرا چھا چکا تھا تو مجھے اپنے سلوٹ زدہ بستر کی چادر سیدھی کرنے کے بعد محسوس ہوا کہ میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ بیٹھا ہوا ہوں،وہ بڑی شفقت بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے،اسی خامشی کے عالم میں جناح صاحب گویا ہوئے,,Mr!do you know how much effort I and my colleagues has been spent to make this country to whom you are spoiling day and night,,مسٹر جناح کی گرجدار آواز نے مجھے ڈرا دیا۔میں نے سہمے ہوئے لہجے میں کہا کہ قائد محترم مجھے تو آپ کا پاکستان روز بروز ترقی کرتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے۔وہ دھیمے لہجے میں گویا ہوئے کہ بیٹا میرے دنیا سے کوچ کرنے کے بعد اس ملک کے اشرافیہ نے اس کو نوچ نوچ کر کھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،یہ جو تم ترقی کی بات کر رہے ہو یہ محض میڈیا پروپیگنڈا ہے۔دنیا کا ریکارڈ نکال کر دیکھو کہ ہم کرپشن میں کون سے نمبر پر ہیں،معشیت میں ہمارا کیا درجہ ہے،دنیا کے ساتھ ہماری خارجہ پالیسی کیسی جا رہی ہے اور سب سے بڑھ کر تعلیم اور ہنر میں ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟ قائد کی باتیں بہت ہی ذو معنی اور ثقیل تھی،مجھ جیسا اوسط درجے کا آدمی ان کو صحیح طریقے سے سمجھنے سے قاصر تھا۔میں ابھی جواب دینے ہی والا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی،قائد نے بیٹھے بیٹھے پوچھا,,who?,,لیکن دستک کی آواز سے میں عالم رویا سے اپنی شکن زدہ چادر پر آگیا،لیکن دکھ اس بات کا ہوا کہ مجھے سرگوشی میں قائد کے ,,who?,,کے جواب میں صرف یہ سنائی دیا کہ مسٹر جناح میں اقبال ہوں۔مجھے شدید قلق ہوا کہ کاش میں کچھ لمحے مزید خواب خرگوش کے مزے لیتا اور مفکر اسلام کی گفتگو سے بھی معذوز ہوتا لیکن شاید اللہ کو مجھے دوبارہ اپنے کمرے کے در و دیوار اور سلوٹ زدہ بستر پر بھیجنا زیادہ مناسب لگا۔
چند روز کے وقفے کے بعد ایک رات جب آسمان پر چاند پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا،شاید چوہدویں شب کا چاند تھا،میں پھرسونے کے لئے بستر کی جھاڑ پونچھ کر کے سونے کی تیاری میں تھا۔دن کالج میں شدید مصروف ترین گزرا تھا۔اس دن بچوں کو میں مسلم سائنٹسٹ کے بارے میں بتا رہا تھا۔میں نے بایئولوجی کی کلاس میں بچوں کو بو علی سینا،جابر بن حیان،عبدالمالک اصمعی،البیرونی،ابن نفیس اور ابن الہشیم کے علاوہ کئی دوسرے سائنسدانوں کے سنہری کارنامے سکھانے کی کوشش کی۔اور میں بار بار بچوں سے یہ کہہ رہا تھا کہ سائنس اور فلسفے کی ابتداء مسلمانوں نے کی لیکن گزشتہ تین چار صدیاں بیت گئیں کوئی مسلمان ما سوائے ایک د و کے سائنس کے میدان میں دھاگہ تک نہیں ایجاد کر سکا۔ا س کی وجوہات تلاش کی جائیں۔سب بچے اپنے اپنے ذہن کے مطابق مختلف جوابات دیتے رہے اور میں بھی ہوں ہاں کرتا رہا۔۔۔سچی بات یہ ہے کہ بچوں کا کیا قصور جب ہم لارڈ میکالے کا بنایا گیا نصاب سو سال سے پڑھ رہے ہیں تو سائنسدان نہیں بلکہ کلرک ہی بنیں گے۔ خیر یہی کچھ سوچتے سوچتے میری آنکھوں پر نیند کا غلبہ چھا گیا۔پھر میں نے دیکھا کہ جابر بن حیان ایک سادہ سی لیبارٹری میں کام میں مگن ہیں۔میرے وہاں پہنچنے پر انہوں نے عربی زبان میں مجھ سے باتیں کی جن کا ترجمہ آپ کی نذر کرتا ہوں۔وہ بولے بیٹا میں نے تو king of chemicalsیعنی سلفییورک ایسڈ بنا دیا،میں نے نائٹرک ایسڈ بنا دیا اس کے علاوہ میں نے بغیر کسی پریس اور چھاپہ خانے کے کئی کتب قلم اور سیاہی سے لکھ دیں۔ اس کے علاوہ aqua regiaمیری تخلیق ہے۔تم مسلمانوں کو جو کہ جدید سہولیات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہو ابھی تک ایک ایجاد بھی نہیں کر پائے۔اس کی کیا وجہ ہے؟ میرے بولنے سے قبل ہی جابر بن حیان کے ہاتھ سے نائٹرک ایسڈ کی بوتل چھوٹ کر نیچے گری ،وہ نائٹرک ایسڈ کی خصوصیات سے واقف تھے،اس لئے وہ شدت سے اچھل کر ایسڈ سے دور ہونے کی کوشش کر رہے تھے،لیکن میری بدقسمتی پھر آڑے آگئی ،اگر ان کے ہاتھ سے تیزاب کی بوتل نہ گرتی،وہ نہ اچھلتے تو میں پھر چوہدیویں شب کے چاند کی ہلکی ہلکی روشنی کے نظارے نہ کر سکتا جو چھن چھن کر میری کھڑکی سے اندر آ رہی تھی۔ کاش میں کچھ دیر جابر بن حیان کے ساتھ اور گزار سکتا لیکن بوتل کے گرنے اور تیزاب کے زمین پر بہنے کی وجہ سے میں پھر اپنے مخملی بستر پر کروٹیں لینے لگا۔ پھر ایک رات یوں ہوا کہ خدا کے ودیعت شدہ تخیل کی وجہ سے میں معمول سے ہٹ کر زرا پہلے بستر پر درازہو گیا۔وہی سفید چادر،میرا سرخ کمبل اور سپرگ دار میٹرس جلد ہی دن کی تھکن کی وجہ سے مجھے نیند کی بانہوں میں جھولے جھلانے لگے۔میں اس دن اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔اور اکثر یوں ہوتا ہے کہ جس کے بارے میں آپ سوچتے ہیں وہ رات کودماغ ڈراماٹائز بنا کر آپ کی سوچوں کو جنت کی طرح وہی دکھاتا ہے جسے آپ سوچتے ہیں۔میں اپنی بہترین رفیق حیات کے ساتھ فضائوں میں بدلیوں کے ساتھ اڑ رہا تھا۔اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا،اور حسب عادت اس نے خوب کس کر میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا کہ کہیں ہزاروں فٹ کی بلندی سے وہ میرا ہاتھ چھوٹ جانے کی وجہ سے زمین پر گر نے کا خدشہ ظاہر کر رہی تھی
۔مجھے اس کی عادت کا پتہ ہے کہ وہ چھپکلی یا کاکروچ کو دیکھ کر آسمان سر پر اٹھا لیتیی ہے۔ اس لئے مجھے اس کے ہاتھ کی گرفت اپنے ہاتھ پر مضبوط محسوس ہو رہی تھی۔ بعض اوقات جب تیز ّہوائیں فضاء کو معطر کرتی تو وہ فطرطا ٰ میرے پہلوئوں میں سر چھپا دیتی۔ بعض اوقات تو اس کی سانسوں کی تپش میرے گالوں پر محسوس ہوتی اور دل پر عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی۔کچھ ہی دیر بعد بدلیاں چھٹ گئی اور ہم دونوں لمبی سی نیلی جھیل کنارے اپنے جوتے اتار کر اپنے پائوں پنڈلیوں تک جھیل میں ڈال کر بیٹھے رہے۔وہ تھی۔۔۔میں تھا۔۔۔۔نیلی لمبی لیکن خوب صورت جھیل تھی۔۔۔۔اور قوت تخیل تھی۔پھر قدرت نے ان لمحوں کو زیادہ دیر تک جنت کا منظر بننے کا موقع نہیں دیا ،حالانکہ ابھی میرے من میں بے شمار باتیں تھی جو میں نے اس سے کرنی تھی لیکن جھیل کے اندر سے ایک بڑی سی مچھلی پہلے اس کے پائوں سے ٹکرائی تو حسب عادت اس نے اتنے زور سے چیخ ماری کہ میں خیالی جنت سے دوبارہ اپنے کمرے کے زیرو پاور کے بلب کی مدہم روشنی محسوس کرنے لگا اور میرا سارا جسم کسمسا اٹھا کہ کاش وہ مچھلی چند لمحے نہ آتی تو میں اپنے ہم سفر کو وہ ساری باتیں بتانے کا ارادہ کر چکا تھا جو اس دنیا میں کرنے کے بارے میں میں سوچ بھی نہیں سکتا۔تین چار کروٹیں لینے کے بعد ایسے آنکھ لگی کہ صبح نماز کے وقت کا الارم میرے سیل فون سے بجا اور میں پھر دن کی گہما گہمی میں مصروف ہو گیا۔
قارئین! میں آپ کے لئے مزید فضول اور بے ہودہ قسم کے خواب نہیں سنائوں گا ،لیکن یہ خواب چونکہ بہت اہمیت کا حامل ہے اس لئے اس کے بعد کالم کا اختتام کروں گا۔سیانے کہتے ہیں کہ سوچوں پر کوئی پہرہ نہیں لگا سکتا۔ پتہ نہیں کس سیانے نے یہ بات کہی لیکن جس دن میں عالم نیم مد ہوشی میں یہ خواب دیکھ چکا تو مجھے سو فیصد یقین ہوا کہ جس نے بھی یہ کہا سچ کہا۔وہی میرا 1215کا کمرہ،وہی بیڈ،وہی دو سائیڈ ٹیبل،وہی سرخ رنگ کی قالین،وہی سرخ پردے جن پر ہلکے ہلکے سفید دھبے اور لائنیں کھنچی ہوئی تھی۔آج صرف میری چادر کا رنگ سفید نہیں تھا بلکہ سرمئی رنگ کی چادر جو کہ شاید سفید چادر کے میلا ہو جانے کی وجہ سے بدل دی گئی تھی۔ تکیہ کا غلاف بھی سفید کے بجائے چادر کے رنگ کا تھا۔ میں بہت دیرتک اس رات اپنے بستر پر کروٹیں بدلتا رہا مگر نیند تھی کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ میں بار بار وال کلاک پر دیکھتا۔۔۔گھڑی کی سوئیاں نو بجا چکی تھی۔۔پھر میرے جاگتے جاگتے دس۔۔پھر گیارہ۔۔پھر بارہ اور جب میں نے شعوری طور پر اس رات آخری مرتبہ وقت دیکھا تو بارہ بج کر انتالیس منٹ ہوئے تھے۔اس کے بعد نیند کی ہلکی ہلکی تھپکی میرے اعصاب پر سوار ہو گئی۔اور میں تخمیننا کہہ سکتا ہوں کہ شاید سوا ایک بجے میں مکمل نیند کی آغوش میں تھا۔اس دن امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر کارپٹ بمباری کی تھی۔ جو دن کو میں نے خبروں میں دیکھی بھی اور سنی بھی۔آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ یہ رات کافی عرصہ پہلے کی ہے۔لیکن میں نے خود کو وائٹ ہائوس میں پایا۔اس وقت وہاں کے صدر مسٹر اوبامہ تھے۔ میں نے بلا تمہیدمسٹر اوباما سے انگریزی میں کہا کہ جناب آپ مسلمانوں کو کس بات کی سزا دے رہے ہیں۔ انہوں نے بر جستہ کہا یہ سزا ہم نہیں دے رہے بلکہ Godنے ان کے مقدر میں لکھی ہے۔میں تلملا کر رہ گیا اور زرا تلخ لہجے میں ان سے مخاطب ہوا کہ(یاد رکھیں سوچوں پر کسی کا پہرہ نہیں ہو سکتا) آپ کے ملک نے اندھیر نگری مچا رکھی ہے،آپ نے عراق کو نیست و نابود کیا،شام پر چڑھائی کی،شمالی کوریا پر آپ نے ظلم و ستم کیا،ویتنام پر ظلم آپ کے کھاتے میں جاتا ہے اور تو اور آپ نے ہیرو شیما اور ناگا سا کی پر ایٹمی حملے کئے۔یہ کس جگہ کا انصاف ہے؟ مسٹر اوبامہ بڑے تحمل سے بولے بچے ,,All is right in love and war,,میں بڑا حیران تھا کہ دنیا میں امن کا درس دینے والے ملک کا صدر کہہ رہا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔اس پر میں نے پٹاخ سے جواب دیا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ جب جی چاہے،جس کو جی چاہے اور جہاں جی چاہے اس جگہ کا ستیا ناس کر دیں گے۔۔۔؟ مسٹر اوبامہ بولے بچے آپ ہی بتائو کہ کیا اسلام میں جب تک نظم حکومت اعلان نہ کرے تو کسی انفرادی جتھے کو حق ہے کہ وہ اپنے جسموں سے بم باندھ کر ہزاروں کے مجمعے میں خود کو بھی موت کے حوالے کر دے اور کئی بے گناہوں کو بھی مار دے؟ مجھے حیرت کا جھٹکا لگا کہ مسٹر اوبامہ کی بات تو قرآن مجید کی آیت سے لی گئی ہے۔ سکوت ٹوٹا اور پھر اوبامہ بولے کہ اگر آپ کو افغانیوں کے مرنے کا اتنا دکھ ہے تو اپنے پاکستانی حکام سے کیوں نہیں پوچھتے کہ انہوں نے ہمیں اڈے کیوں دیئے؟ میری تو عقل دنگ تھی کہ میں اس بارے میں صرف امریکہ کو ہی قصور وار کیوں ٹھہرا رہا تھا ۔۔۔یہاں تو نگہبان کتے چوروں سے ملے ہوئے ہیں۔وہ پھر گویا ہوئے کہ اگر پاکستان دو دن کے لئے نیٹو سپلائی روک دے تو کیا افغانستان میں امریکی فوج کے رکنے کا جواز بنتا ہے؟؟؟ اب میں بالکل گنگ ہو چکا تھا،اور پہلی مرتبہ خوش ہوا کیونکہ بادلوں کی تیز گڑ گڑاہٹ نے مجھے اپنی شکن زدہ سرمئی چادر کو ٹھیک کرنے کا بہانہ دیا اور میں با قاعدہ کھڑا ہو کر چادر درست کرنے لگا کیونکہ مجھے خوف تھا کہ اگر پھر میں سو گیا تو مسٹر اوبامہ ۔۔۔امریکہ نے جو تباہی مچائی ہوئی ہے ،اس سب کا ذمہ دار مسلم امت کو ٹھہرائیں گے۔اور قارئین ذرا غور کیجئے گا کہ میری قائد سے ملاقات ،جابر بن حیان سے ملاقات،اور رفیقہ حیات سے بتائے ہوئے لمحے اور بالخصوص مسٹر اوبامہ کا اور میرا مکالمہ کس حد تک درست ہے۔آپ کی رائے کا منتظر۔۔۔ اگلے اداریے تک اجازت۔۔۔اللہ آپ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور تخیل کی بھرپور طاقت عطا کرے۔آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button