کالم

حلوہ ،جلوہ اور حملہ

آج کل پاکستان میں حلوے کو بڑی شہرت حاصل ہوئی ہے جسے دیکھوحلوا کے پیچھے بھاگتا ہوا نظر آتا ہے ٹیلی ویژن چینلز سوشل میڈیا اخبارات گھر ہو یا بازار مسجد ہو یا مزار مدرسہ ہو یا دربار ختم قل خوانی ہو یا شادی کی تقریب محفل ایصال ثواب ہو یا دعوت شیراز ہر جگہ حلوا کے چرچے ہو رہے ہیں یہ حلوا کیا چیز ہے کہ پوری قوم اس کی دلدادہ ہو چکی ہے تو آئیے دیکھتے ہیں کہ حلوا کا تذکرہ قرآن مجید کی سور البقرہ کی آیت نمبر 57میں یوں آیا ہے ترجمہ۔ اور تم پر من اور سلوی اتارا ۔ تفسیر روح البیان میں آتا ہے یہ دو مختلف کھانے تھے جو اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل پر آسمان سے اتارے ۔من بالکل شہد کی طرح حلوا تھا یا سفید رنگت کی شہد تھی جو روزانہ آسمان سے بارش کی طرح برستی تھی ۔جبکہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حلوا اور شہد کو پسند فرماتے تھے (البخاری) جبکہ علما کرام فرماتے ہیں کہ حلوا کھانا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔اور زندگی میں ایک دفعہ بھی کھانے سے سنت کی ادائیگی ہو جاتی ہے شرط کہ حلوا حلال و پاکیزہ ہو لیکن یاد رہے کہ سنت کی ادائیگی میں فرض کو چھوڑا نہیں جا سکتا ۔عام طور پر لفظ حلوہ لکھا ہوتا ہے اور مشہور و معروف حلوے تیار کرنے والوں کے ٹین کے ڈبے پر بھی حلوہ لکھا ہوتا ہے جو کہ درست نہ ہے فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات دونوں کے مطابق اس لفظ کا درست املا حلوا ہے حلوا عربی زبان کا لفظ ہے جس کو فارسی میں شیریں اردو میں میھٹا انگریزی میں Sweet کہتے ہیں اور حلوا بنانے والے کو حلوائی کہا جاتا ہے حلوا گھی شکرمیدے سوجی اور میوے وغیرہ ڈال کر بنایا جاتا ہے اور یہ ایک میٹھی نرم لطف اندوز اور طاقت بخش غذا ہے اور دنیا بھر میں مختلف انواع اقسام کے حلوے تیار کیے جاتے ہیں اور جو میوے سبزیاں پھل اس میں شامل کیے جائیں حلوا کے ساتھ وہی نام لگا دیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں مختلف اقسام کے مختلف ناموں کے ساتھ حلوے تیار کیے جاتے ہیں حلوے کی تاریخ بہت پرانی ہے جیسا کہ دیوار چین بنانے میں لاکھوں افراد محنت ومشقت سے کام کر رہے تھے تو جب وہ ایک کھانا دال روٹی کھا کھا کر کمزور اور سست روی کا شکار ہونے لگتے تو ان کو حلوا کھلایا جاتا جس سے ان کی طاقت و قوت بحال ہو جاتی جبکہ حلوے پر شعرا کرام نے بہت سے اشعار نظمیں کہاوتیں ڈرامے کہانیاں اور محاورے بنا رکھے ہیں جبکہ ہماری قوم حد سے زیادہ حلوا کی شوقین اور دلدادہ ہو چکی ہے کہ یہ ہر وقت ہر جگہ خوشی و غمی میں حلوا کی تلاش میں رہتی ہیاور کہیں سے بھی حلوے کی خوشبو محسوس ہو اس طرف بھاگ پڑتی ہے یہاں تک کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عبادت گاہ مساجد بھی حلوے سے بنائی جائیں تاکہ ہم دوران سجود بھی حلوے سے لطف اندوز ہوں ۔حافظ خیر دین مرحوم فرماتے ہیں ۔حلوے دی اک میست بنائیے تے سوئیاں دے چھت چڑھائیے کھیر دا تھلے فرش بچھا کے جا جا سجدے کھائیے ۔۔۔۔۔یعنی ہمیں سوائے حلوا کے اور کچھ نظر ہی نہیں آتا بس ہمیں حلوا چاہیے حلال و حرام کی تمیز کی ضرورت نہیں عزت و آبرو کی پرواہ نہیں حلوا کی خاطر کسی کی جان لینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔حلوا جان و ایمان لیوا زہر پر بھی لکھ دیا جائے تو ہم کھانے سے گریز نہیں کرتے گزشتہ روز کسی عورت کے لباس پر حلوا لکھا دیکھ کر ہم اسے کھانے کے لیے حملہ آور ہو گئے اور اسے تیز دھار دانتوں سے کاٹ کاٹ کر کھانے خون پینے کے لیے کوشاں تھے کہ اسی دوران حاضر ڈیوٹی اے ایس پی خاتون شہر بانو نقوی پہنچ گئی اور اس کی جان بچانے میں کامیاب و کامران ٹھہری اگر خدا ناخواستہ اس کی وردی پر بھی حلوا لکھا نظر آ جاتا یا اس سے حلوے کی خوشبو محسوس ہوتی تو ہم اسے بھی نوچ نوچ کر کھا جاتے بس ہمیں حلوا چاہیے بیشک وہ بے حیائی اور بے غیرتی کر کے ہی کیوں نہ ملے ہم نے حلوا ہی کھانا ہے ۔ایک دفعہ ایک قابلی پٹھان ہندوستان میں سیر کے لیے آیا تو اس نے دیکھا کہ ایک آدمی کھانے والی کوئی چیز بیچ رہا ہے اس نے اپنی فارسی زبان میں پوچھا ایں چیست (یہ کیا یے)ہندوستانی نے جواب دیا کہ یہ حلوا ہے پھٹان نے اس کا حلوا کھا لیا تو ہندوستانی نے رقم کا مطالبہ کیا تو قابلی پھٹان نے حلوے کی قیمت دینے سے انکار کیا بات پولیس تک پہنچی آخر میں یہ فیصلہ ہوا کہ یہ غیر ملکی ہے اور سیاحت کرنے کے لیے آیا ہے اسے گدھے پر سوار کرکے شہر میں گھومایا جائے ساتھ ایک ڈھول والا ڈھول بجا کر منادی کرے کہ اس آدمی نے مفت اور زبردستی حلوا کھایا ہے اور اس کی یہ سزا ہے جبکہ ساتھ شہر کے شریر بچے تالیاں بجائیں تاکہ اس کی خوب بے عزتی ہو اور آئندہ کوئی مفت حلوا نہ کھائے سزا پر عمل درآمد کر دیا گیا پھٹان بہت خوشی خوشی واپس اپنے ملک پہنچا تو اس کے دوست احباب ملنے کے لیے آئے اور انہوں نے اپنی زبان فارسی میں پوچھا کہ بتا ملک ہند چہ گونا است (یعنی ہندوستان کیسا ملک ہے)اس نے جواب دیا خوب است حلوا خوردن مفت است سواری خر مفت است فوج طفلاں مفت است نیز ڈم ڈم مفت است ترجمہ یعنی بہت اچھا ملک ہے حلوا کھانے کو مفت ملتا ہے گدھے کی سواری مفت ملتی ہے بچوں کی فوج ساتھ مفت ہوتی ہے جبکہ ساتھ ڈھول بھی مفت بجاتے ہیں ۔یہی حال ہمارا ہے کہ ہم نے حلوا کھانا ہے اس سے غرض نہیں کہ اس پر ہمارا حق نہیں یہ ہمارے لئے حلال نہیں یہ کسی غریب مزدور مسکین یتیم بیوہ کا حق ہے یہ زکو خیرات صدقہ فطرانہ کی رقوم سے آیا ہے اسے کھانے سے ایمان و اسلام کو نقصان پہنچے گا آخرت برباد ہو گی اللہ و رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے یہ رشوت خوری کرپشن ہیرا پھیری بے حیائی و بے غیرتی کی کمائی سے آیا ہے یہ کسی کی جان و مال دا پر لگا کر حاصل کیا ہے یہ ملک و قوم کی عزت و وقار گروی رکھ کر آیا ہے یہ حلوا ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر لیا ہے یہ حلوا قوم کی آزادی دے کر لیا ہے یہ حلوا بیایمانی اور قوم کا مستقبل دا پر لگا کر لیا ہے بس ہم نے حلوا کھانا ہے بس ہمارا ایک ہی نعرہ ہے کھا حلوا پکا حلوا جبکہ پنجابی کے معروف شاعر بزرگ میاں محمد بخش فرماتے ہیں
بے حیائی دے حلوے نالوں ساگ سروں دا چنگا
بے غیرت دی یاری نالوں سنگ چوڑھے دا چنگا۔بشکریہ سی سی پی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button