کالم

خودکشی نہ کریں

خود کشی کوحرام فعل کہا گیا ہے,اسلام میں ممانعت ہے کہ کوئی شخص اپنی جان اپنے ہاتھوں قتل کر دے۔جس طرح اسلام میں کسی انسان کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف کہا گیا ہے۔اسی طرح خود کشی کا عمل بھی حرام کہلاتا ہے۔درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتیں ہیں,ان نعمتوں کا اللہ تعالی روز اخرت حساب لیں گے۔خود کشی ایک ایسا فعل ہے,جس کو اللہ تعالی ناپسند کرتے ہیں۔اللہ تعالی قران مجید میں ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں,اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو,اور صاحبان احسان بنو,بے شک اللہ تعالی احسان والوں سے محبت فرماتا ہیالبقرہ۔2:195.دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے,اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو,بے شک اللہ تعالی تم پر مہربان ہے۔اور جو کوئی تعدی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے اور یہ اللہ پر بالکل آسان ہیالنسا 30,29.قرآن کریم کی ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی خودکشی سے سختی سے منع کرتا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ دین سے دور افرادخود کشی کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں۔خودکشی کرنے والا فرد یہ اعتراف کر رہا ہوتا ہے کہ اس کو اللہ تعالی کی ذات پر یقین نہیں یا اللہ تعالی کی رحمت پر اس کو بھروسہ نہیں رہا۔اس کی امید ٹوٹ جاتی ہے اور اللہ تعالی پریقین ختم ہو جاتا ہے۔جب یقین ختم ہو جاتا ہے تو بے یقین فرد اپنے آپ کو موت کے حوالے کر دیتا ہے۔شیطان یہی چاہتا ہے کہ انسان کو گمراہ کرتا رہے,اس کی یہی بد عقیدگی موت کی طرف دھکیلنے کا سبب بن جاتی ہے۔قرآن کے علاوہ احادیث میں بھی خودکشی کی ممانعت کی گئی ہے۔حدیث میں آتا ہیحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا,جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کیا تووہ دوزخ میں جائے گا,ہمیشہ پہاڑ سے اپنے آپ کوگراتا رہے گا,اور جس شخص نے زہر کھا کر اپنے اپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا جس سے وہ دوزخ میں کھاتا رہے گااور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گااور جس شخص نے اپنے آپ کولوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا(یا کسی طریقہ سے اس نے اپنے آپ کو ہلاک کیا, اسی طریقہ سے دوزخ میں اپنے آپ کو ہلاک کرتا رہے گا)اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔بخاری,مسلم۔قرآن و احادیث کی تعلیمات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ اللہ تعالی مومن کو خودکشی سے ہر حال میں روکنا چاہتا ہے۔خودکشی مایوسی پھیلاتی ہے,حالانکہ اللہ تعالی نے قرآن میں واضح اعلان کر دیا ہے کہاوراللہ کی رحمت سے انکارنہیں(قرآن)خود کشی کرنے والا اللہ کی رحمت کا منکر ہو جاتا ہے.اللہ کی رحمت پریقین کرنے والا کبھی خود کشی نہیں کرتا۔یہ بھی اللہ تعالی کی طرف سے بتا دیا گیا ہے کہ خودکشی کرنے والا ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ایک حدیث کے مطابق ایک جہاد کے دوران ایک شخص بڑی دلیری اور دلجمی سے لڑ رہا تھا,صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کی بہادری سے متاثر ہو رہے تھے,صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے اس شخص کی بہادری کی تعریف کی تو آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرمایا کہ وہ جہنمی ہے,جنگ کے اختتام پر اس شخص نے زخموں کی اذیت سے گھبرا کر اپنےآپ کو قتل کر دیا۔یوں اس غلطی کی وجہ سے وہ جہنم کا حقدار ٹھہرا۔ذرا سوچیے کہ ایک شخص جہادکر رہا ہے لیکن زخموں کی اذیت سے گھبرا کر اپنی جان کو قتل کر دیتا ہے تو وہ بھی جہنمی ہو جاتا ہے۔اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ خودکشی ہر حال میں حرام ہے۔ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ انسان خودکشی کی طرف راغب کیوں ہو جاتا ہے,لازمی بات نہیں کہ ہر مسلمان یا شخص اللہ تعالی پرمکمل یکسوئی کے ساتھ بھروسہ رکھے۔بعض کمزور ایمان والے افراد خودکشی کر لیتے ہیں کیونکہ ان کو آگے کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہر طرف راستے بند ہو گئے ہیں۔ان کو نفسیاتی اصطلاح میں ہم بیمار بھی کہہ سکتے ہیں۔ان بیماروں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ خودکشی جیساحرام فعل نہ کر سکیں۔خود کشی کرنے والے افراد اکثرک مسائل کا شکار ہوتے ہیں,مثال کے طور پر محبت میں ناکامی خودکشی کی وجہ بن جاتی ہے,غربت اور تنگدستی بھی انسان کو خودکشی پر مجبور کر دیتے ہیں,کوئی لاعلاج بیماری بھی انسان کو خود کشی پرآمادہ کر لیتی ہے,گناہ کی وجہ سے بھی انسان خودکشی کی طرف راغب ہو جاتا ہے,امتحان میں ناکامی یا کئی ایسی باتیں جن کی وجہ سے انسان خودکشی کر لیتا ہے,ان کو ان مسائل سے نکالنے کے لیے اور خودکشی سے بچانے کے لیے ہمیں بھی ان بیمار(ذہنی طورپربھی بیمارہوسکتے ہیں)افراد کوخود کشی سے بچانے کے لیے مدد کرنی چاہیے۔بعض اوقات کوئی صدمہ بھی انسان کو جان لینے پر مجبور کر دیتا ہے۔خودکشی کرنے والے افراد کو سوچنا چاہیے کہ خود کو قتل کرنا ضروری نہیں,بلکہ اللہ کی تائید اور نصرت سے ایسا راستہ مل ہی جاتا ہے,جس سے انسان خودکشی جیسے فعل سے بچ سکتا ہے۔اگر کوئی فرد خودکشی کی طرح راغب ہو رہا ہے تو اس کو چاہیے کہ کسی دیندار/سمجھدارفرد کے پاس مشورے کے لیے چلا جائے۔قرآن کا مطالعہ اور اچھی کتب کا مطالعہ بھی انسان کو خودکشی سے باز رکھ سکتا ہے۔اگر اپ دیکھتے ہیں کہ کوئی فرد مایوسی کی باتیں کر رہا ہے اور اس کی باتوں سے لگ رہا ہے کہ وہ خودکشی کی طرف راغب ہے تو اس کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ خودکشی نہ کر سکے۔بعض اوقات ہماری دو چار منٹ کی تسلی بھری باتیں اس کو حرام موت سے بچا سکتی ہیں۔ہو سکتا ہے کہ وہ غربت کی وجہ سے خود کشی کی طرف راغب ہو رہا ہے تو اس کی مالی مدد کر کے خودکشی سے بچایا جاسکتاہے اوراس عمل کی وجہ سیاللہ کی طرف سے بہت بڑا اجر حاصل کیا جا سکتا ہے۔
خود کشی کرنے والا بعض اوقات یہ سمجھتا ہے کہ اس کے مسئلے کا حل ہی نہیں۔باد النظرمیں وہ معمولی سا مسئلہ ہوتا ہے۔تھوڑی سی توجہ اور سوچ بچار کے بعد وہ مسئلہ بآسانی حل ہو سکتا تھا۔لیکن ذہنی ابتری اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ خود کشی کر لیتا ہے۔اگر خودکشی کی طرف راغب فرد کسی ڈاکٹر(ماہرنفسیات)کے پاس چلا جائے تو معمولی سے علاج سے خودکشی کے ارتکاب سے بچ سکتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں بھی خودکشیاں زیادہ ہو رہی ہیں,لازمی بات نہیں کہ غریب آدمی غربت سے تنگ آکر خودکشی کرلے۔صرف دولت کی وجہ سے انسان خود کشی نہیں کرتا بلکہ کئی اور بھی ایسی وجوہات ہوتی ہیں جن سے انسان خودکشی کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔مغرب خصوصا جاپان جیسے ممالک میں خود کشی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے,بلکہ خود کشی کرنا انسان کا ذاتی فعل اور حق سمجھا جاتا ہے حالانکہ خودکشی سے روکنا معاشرے کی بھی ذمہ داری بنتی ہے۔حالات جتنے بھی بدتر ہو جائیں,خود کشی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔اگر اپ کا کوئی نظر ا جائے کہ ایسا فردمایوسی کا شکار ہے تو اس کی مدد کر کے مایوسی سینکالا جائے۔اگر اس کے پاس علاج کے لیے رقم نہیں تو اپ تھوڑی سی رقم خرچ کر کے اس کو خودکشی سے بچا سکتے ہیں۔قرآن نیجس طرح ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل کہا ہے,اسی طرح ایک انسان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانا کہا گیا ہے۔اپ ایک انسان کو خود کشی سے بچا کر پوری انسانیت کو بچا سکتے ہیں۔اگربالفرض آپ بھی مایوسی کا شکار ہیں توخودکشی نہ کریں,اللہ پاک یقینا آپ کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا۔اللہ کا ذکر کریں جتنا ہو سکے کرتے رہیں,اگر سمجھتے ہیں کہ مایوسی دور نہیں ہو رہی تو کسی ڈاکٹر کے پاس جا کر علاج کروائیں۔علاج کروانا بھی سنت ہے۔دعابھی اللہ تعالی کا ایک بہت ہی بڑاانعام ہے, دعا سے آپ اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button