کالم

سال نو کے چیلنجز

2024ء کا سورج طلوع ہو چکا ہے ، نیاسال ساتھ ہی نئے چیلنجز بھی لے کر آیا ہے۔ گزشتہ برس کے آخری روز بھی غزہ کے مسلمانوں نے قیامت صغٰری میں گزاری۔ بے رحم اور ظالم اسرائیل نے 295 مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے! 7 اکتوبر 2023ء سے ابتک صہیونی ریاست کی درندہ فوج 23 ہزار فلسطینوں کو شہید کر چکی۔ زخمی اور معذور ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ پورا غزہ قبرستان بن چکا ہے ، غزہ میں کوئی ایسا خاندان نہیں جس کے سربراہ نے ایک دو تین شہداء کو سپرد خاک نہ کیا ہو… حماس کی ”مہربانی” اور غزہ کے غیور اسلام دوستوں نے خواب غفلت میں مبتلا امت کو بیدار کر دیا مگر علام اسلام کے بڑے اور ”جلیل القدر” حکمران پھر سے غفلت کا شکار ہوگئے۔ مسلم حکمران قراردادوں پر قراردادیں منظور کررہے ہیں لیکن جارحیت رک رہی ہے نہ ناجائز ریاست کے وزراء اعظم نیتن یاہو کو لگام ڈالی جارہی ہے۔سوشل میڈیا پر ننھے فلسطینی مسلم حکمرانوں کو دھائی دے رہے ہیں’ انہیں پکار رہے ہیں مگر کوئی آواز سننے والا نہیں ہے۔ یہ یکطرفہ تماشا کب جاری رہے گا؟ اہل غزہ صرف اپنے وطن کی حفاظت کے لیے خون کے نذرانے پیش کررہے وہ امت کا کھویا ہوا وقار لوٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک آواز اور یک جان ہو کر سامراج کو نکیل ڈال لیں ”اللہ کرے یہ خواب نئے برس میں پورا ہو جائے”
پاکستانی معاشرے کو اس وقت گونا گوں مسائل نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ہم آج چند مسائل کا احاطہ کریں گے، آبادی کا بڑا حصہ غربت اور بے روز گاری سے دو چار ہے ۔ لمحہ فکر یہ ہے کہ وطن عزیز کی 38فی صد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور لاکھوں افراد بے روز گاری پر ماتم کناں دکھائی دیتے ہیں اور ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور اپنی قسمت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں اور یہ فکر فردا میں میں مبتلا ہیں اور مایوسی ان کا مقدر بنی دکھائی دیتی ہے ان کی صلاحیتیں مفلوج ہو رہی ہیں اور مایوسی کے بادل ان کے سروں پر منڈلا رہے ہیں لوگوں میں بے چینی اور اضطراب پھیل رہا ہے غربت اور مہنگائی کے مسائل ترجیع بنیادپر حل کرنے کی ضرورت ہے حکومت ان مسائل کے حل کے لئے گھریلو اور نجی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرے بے روز گاری کے خاتمے کے لئے نئے مواقع پیدا کرے اور اس سلسلے میں آسان شرائط پر قرضے فراہم کئے جائیں تاکہ غریب لوگ اپنا کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش بنا سکیں اور ان کی مشکلات میں کمی آئے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری شرح خواندگی بھی کم ہے اور ہماری 40فی صد آبادی بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہے اور نا خواندہ افراد ملک کی تعمیر و ترقی میں قابل رشک کردار ادا نہیں کر سکتے حکومت کو چائیے کہ وہ ملک میں شرح خواندگی کو بڑھانے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور نئے سکول کھولے اور پرانے تعلیمی اداروں کو اپ گریڈ کر ے بلا شبہ اس ضمن میں حکومتی سطح پر اقدام کے جا رہے ہیں لیکن وہ افراط آبادی کے مقابلے میں کم ہیں اس دور جدید میں پاکستانی معاشرے کو صحت کے مسائل جا بھی سامنا ہے اور دیہی علاقوں میں لوگوں کو علاج معالجے کی سہولتیں بھی میسر نہیں صحت کی سہولیات کی عدم موجودگی سے شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے حکومت صحت کے مسائل کو حل کرنے میں سرگرداں ہے لیکن تاحال دیہی علاقوں میں بنیادی مراکز صحت ، ہسپتالوں اور ڈاکٹروں ،نرسوں ،ادویات جدید سہولتوں کا فقدان ہے۔ افراط آبادی بھی معاشرتی مسئلہ ہے آبادی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے تعلیم ،صحت بے روز گاری اور آلودگی کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے پاکستان آبادی کے لحاظ سے ایک گنجان آباد ملک ہے مگر ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ صحت کے شعبے پر زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی سالانہ بجٹ میں ایک قلیل رقم صحت کے شعبے کے لئے مختص کی جاتی ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ وہ۔ عزیز میں 963افراد کے لئے ایک ڈاکٹر جبکہ 9413افراد کے لئے ایک ڈینٹٹسٹ موجود ہے ہسپتال میں 1698افراد کے لئے صرف ایک بستر کی سہولت موجود ہے۔ حکماء کو وفاقی و صوبائی حکومتوں نے مسلسل نظر انداد کرنے کا حلف دیا ہوا ہے محکمہ صحت ہسپتالوں ڈسپنسریوں ٹی بی کلینکس اور رورل ہیلتھ سنٹر ز بنیادی مراکز صحت اور میٹرنٹی کے مراکز کے ذریعے سے خدمات سر انجام دے رہا ہے لیکن ایسے علاقے موجود ہیں جہاں صحت کی سہولیات موجود نہیں حکومت معاشرتی مسائل کے حل کے لئے ٹھوس اقدام کرے تاکہ عوام تعلیم ، صحت اور آلودگی جیسے مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔وطن عزیز میں رواں برس 12 ویں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت کو درپیش سیاسی استحکام’ معیشت کی بحالی کے ساتھ مہنگائی اور بیروزگاری کے چیلنجز منہ کھولے موجود ہیں’ مہنگائی نے ہر شخص اور ہر خاندان کو اذیت کی وادی کا مسافر بنا دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی گرانی معاشرے کی بنیادیں ہلا رہی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب مہنگائی اور بے روزگاری خاندانوں میں نفرت’ انتقام اور خون کی لکریں کھینچتی نہ ہو۔ سال کے آخری روز فیصل آباد’ ملتان اور چشتیاں میں غربت نے 17 زندگیوں کی ڈور کاٹی۔ خدا کے لیے مہنگائی اور بے روزگاری کا سرپٹ دوڑتا ہوا گھوڑا روکیں وگرنہ یہ طوفان سب کچھ خش وخاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button