پاکستان کی سیاسی تاریخ میں انتخابی عمل اور انتخابی نتائج اکثر متنازعہ ہی رہے ہیں ، یوں بعد ازاں تشکیل پانے والی حکومتیں سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتی رہی ہیں،اس وقت پاکستانی سیاست میں جو معاملہ سب سے زیادہ زیر بحث ہے، وہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا ہے،لیول پلیئنگ فیلڈ کا بظاہر مطلب ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کو انتخابی میدان میں اْترنے کے یکساں مواقع حاصل ہوں،لیکن یہاں ایک سیاسی پارٹی کیلئے کھلے عام میدان صاف کیا جارہا ہے اور کوئی پو چھنے والا ہے نہ ہی کوئی روک رہا ہے ،الیکشن کمیشن سے لے کر نگران حکومت تک سارے ہی یکساں موقع دینے کی باتیں بہت کرتے ہیں ،مگر عملی طور پر کوئی کچھ کررہا ہے نہ ہی کچھ کرنا چاہتا ہے ،کیو نکہ یہ سب لوگ مل کر ایک ہی دیے گئے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق مختلف سیاسی جماعتوںکی جانب سے بڑھتے ہوئے خدشے نے اس وقت جنم لیاہے کہ جب میاں نواز شریف کی واپسی پر ان کو مخصوص قسم کا پروٹوکول ملنا شروع ہوا اور الیکشن سے پہلے ہی (ن) لیگ کو حکومت دینے کا تاثر پیدا ہوا ہے ،اس حوالے سے گزشتہ روز سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام درست ہے، پی ٹی آئی امیدواروں کو تنگ نہ کیا جائے اور کاغذات نامزدگی جمع کرانے دیے جائیں،اس پر جسٹس اطہر من اللہ کا بھی کہناہے کہ ایک سیاسی جماعت کو کیوں الگ ڈیل کیا جا رہا ہے؟ہر سیاسی جماعت کے ساتھ یکساں سلوک ہی لیول پلیئنگ فیلڈ ہے، یہ عدالت کی طرف سے دئیے جانے والے ریمارکس بھی فیصلے اور آرڈر کا درجہ رکھتے ہیں، تاہم ضرورت اس پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہے، لیکن یہاں پر عملدرآمد یقینی بنانیوالے ہی حکم عدولی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ان کے خلاف کوئی توہین عدالت کی کاروائی بھی نہیں ہورہی ہے۔یہ بات سب پر ہی عیاں ہوتی جارہی ہے کہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کیسے عدالتی حکم پر ٹال مٹول سے کام لیتے آرہے ہیں ،لیکن عدالت عظمیٰ نے تو ہین عدالت کے معاملے میں ابھی تک ہاتھ ہولا ہی رکھا ہے ، لیکن یہ ہاتھ کب تک ایسے ہی ہو لا رہے گا ،اس بارے کچھ کہنا مشکل ہے ،تاہم الیکشن کمیشن کوبہر صورت اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنی چاہئے ، اگر چیف الیکشن کمشنر اس طرح کے اقدام سے قاصرر ہتے ہیں تو پھر انہیں اپنے منصب سے خود ہی مستعفی ہو جانا چاہئے،الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کا پی ٹی آئی کے ساتھ جانبدارانہ رویہ ڈھکا چھپا نہیں رہاہے،الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو انتخابات سے بے دخل کر نے کیلئے جہاں سارے حربے آزمارہا ہے ،وہیں نگراں حکومت بھی انتقامی کاروئیوں میں زور شور سے مصروف عمل دکھائی دیے رہی ہے ، اس طرح کی صورتحال ملک و قوم کے لیے کسی طور مناسب نہیں ہے ، اس سے بحران در بحران ہی جنم لیں گے اور پھر وہی سیاسی عدم استحکام آئے گا کہ جس کی اذیت سے قوم بار بار گزر تی آرہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ قوم جس سیاسی بے یقینی، معاشی عدم استحکام اوربدترین مہنگائی و بیروزگاری کے بحران سے دوچار ہے ،اس سے نکلنے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیے رہی ہے ، اس انتخابات سے عوام نے اُمید لگارکھی تھی کہ اس سے ہی کوئی تبدیلی آئے گی ،مگر عالمی بینک نے ایک حالیہ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں ملک میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے نہ ہی حالات بہتر ہوتے دکھائی دیتے ہیں ، نئی آنے والی حکومت کو بھی زیادہ تر انہی مشکلات کا سامنا ہوگا ،جو کہ پچھلی حکومتوں کو درپیش رہی ہیں ، کیو نکہ ایک بار پھر الیکشن کے نام پر ہی سلیکشن ہوتی دکھائی دیے رہی ہے ، ایک بار پھر آزمائے کو ہی آزمایا جارہا ہے ، اپنے ہی لاڈلے کو زورزبر دستی اقتدارمیں لایا جارہا ہے اور عوام کے لاڈلے کو مسلسل سیاسی انتقام کا ہی نشانہ بنایا جارہا ہے،اس صورتحال میں انتخابی عمل سے بہتری کی توقع رکھنا خود کو دھوکہ دینے کے ہی مترادف ہو گا۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ان حالات میں آئندہ انتخابات آزادانہ شفاف ہوتے دکھائی نہیں دیے رہے ہیں ، عدالت کے حکم کے باوجود الیکشن کمیشن کے رویئے میں کوئی تبدیلی آرہی ہے نہ ہی نگران حکومت غیر جانبدارانہ رویئے اپنانے کیلئے تیار دکھائی دیے رہی ہے ، یہ دونوں ہی زبانی کلامی آزادانہ منصفانہ انتخابات کرانے کی باتیں کرتے ہیں ، ساری سیاسی پارٹیوں کو یکساں موقع دینے کے دعوئے بھی کرتے ہیں ،لیکن عملی طور پر سب کچھ اس کے برعکس ہی ہورہا ہے ،یہ سب کچھ عوام کب تک بر داشت کرتے رہیں گے ، ایک نہ ایک دن عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوہی جا ئے گا ، اگراس کا کوئی سخت ردعمل سامنے آ گیاتو انتخابات کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان پیدا ہوسکتا ہے، اس کے ذمہ دار الیکشن کمیشن کے ساتھ نگران حکومت پر ہی عائدہو گی ،جو کہ غیر جانبداری کے دعوئوںآڑ میں جانبدارانہ کھیل کھیلنے سے باز نہیںآرہے ہیں۔ ملک تاریخ کے نازک ترین موڑ پر ہے اور اس نازک ترین موڑ پر بھی عوام کو فیصلہ سازی میں شامل کرنے سے گریز کیا جارہا ہے ،اس ملک کے مستقبل کی قیادت کا انتخاب عوام کا اختیار ہے کہ وہ جسے بھی منتخب کریں، جمہوری رویہ اپناتے ہوئے اسے قبول کرنے میں ہی عافیت ہے،لیکن اس کے برعکس بند کمروں کے فیصلوں کوہی مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،اس کے نتائج پہلے اچھے نکلے نہ ہی آئندہ اچھے نکلتے دکھائی دیتے ہیں ،اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ آزمائے کو آزمایا جائے نہ ہی پرانے تجربات کو دھرایا جائے، کیوں نہ اس بار ایک نیا تجربہ کر کے ہی دیکھ لیا جائے ، ایک آزادانہ منصفانہ شفاف انتخابات کا تجربہ اور اس کے نتیجے میںعوام کے فیصلے کا تجربہ ہی کرلیا جائے ،اُمید ہے کہ یہ نیا تجربہ کبھی ناکام نہیں ہو گا ، عوام کو جب بھی آزادانہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیاگیا ،عوام نے ہمیشہ درست فیصلہ ہی کیا ہے ، کیو نکہ عوام ہی بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں، اگر آئندہ انتخابات واقعی شفاف ہوتے ہیںکہ جس کی اُمید بہت کم ہی نظر آرہی ہے تو ملک میں استحکام’ امن اور خوشحالی کا ایک نیا عہد شروع ہوگا اور اس کاسب سے زیادہ کریڈٹ تاریخ میںشفاف انتخابات کرانے والوں کوہی دیا جائے گا۔
0 57 4 minutes read