
مسلمانوںِبرصغیر نے انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے سے اپنے اپنے علاقوں میں آزادی کی تحریکیں چلا کر اپنے نام شہدائے تحریک آزادی میں لکھوائے۔ ان حضرات اور ان کی آزادی کی تحریکوں کا ہم اپنی جلد ہی آنے والی کتاب” رہنمائے ِملت اسلامیہ” کے لیے سلسلہ وار مضامیں میں لکھ کر ابلاغ کے لیے پرنٹنگ پریس میں شائع ہونے کے لیے ای میل کرتے رہتے ہیں۔ ہم شکرگزار ہیں اخبارات کا کہ وہ، ہمارے ان مضامین کو اپنی اخبارات میں جگہ دیتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ اپنی بساط کے مطابق اپنے یو ٹیوب چینل” مشرقی اُفق” پر ان مضامین کی ویڈیو بنا کر آن ایئر کرتے رہتے ہیں۔ہم اپنے یو ٹیوپ چینل ” مشرقی اُفق” چینل کے سبسکرایبرز کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ہماری اس کاوش کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ آج ہم نے اس سلسلے کے مضمون” شہدائے بلوچستان” میں شہدا کی قربانیوںاور انگریز سامراج کے ظلم ستم کو بیان کریں گے۔
پہلے کچھ صوبہ بلوچستان کے بارے میں۔بلوچستان دنیا کے قدیم ترین انسان کے آثار دریافت ہو چکے ہیں۔ میر گڑھ تہذیب اس کی زندہ مثال ہے۔ ہندوستان میں اترو آرین کے نقوش ملتے ہیں۔ مگربلوچستان کی زبان اترو آرین نہیں، بلکہ اس علاقے کے قدیم باشندوں” درواڑی” نسل کی براہوی زبان ہے۔ جہاں تک موجودہ بلوچستان کی ذکر ہے تو بلوچستان کی بڑی ریاست قلات 1666ء میں وجود میں آئی۔اس کے علاو ہ موجودہ بلوچستان کی تین ریاستیں ریاست فاران ، ریاست مکران اور ریاست لسبیلہ تھیں۔اپنے قبضہ کے بعد انگریزوں نے1877ء میں بلوچستان انجم کی بنیاد رکھی۔ آج تک بلوچستان وہیں گھڑا ہے۔ 1948ء میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے یگر ریاستوںکے ساتھ ساتھ بلوچستان کی ریاستوں نے اپنی آزاد رائے سے پاکستان میں شمولیت اختیا کی تھی۔ بعد میں قلات کے کچھ لیڈروں نے اس الحاق کے خلاف ناراضی کا اظہار کر کے پاکستان کے خلاف بندوق اُٹھائی۔ کچھ ناراض بلوچ اب بھی پاکستان میں اپنے حقوق نہ ملنے پر ناراض ہو کر علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں۔13ء نومبر1839ء کو انگریز سامراج نے خان محراب خان بلوچ اور ان کے سیکڑوںساتھیوں کو لڑائی میں شہید کر کے بلوچستان کی خود مختیاری چھین لی تھی۔برطانوی نو آبادیاتی پالیسیوں نے بلوچ سر زمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ بلوچوں کے نذدیک اس دن کی تاریخی اعتبار سے نیایت ہی اہمیت کاحامل دن ہے۔ اس دن انگریز نے بھاری ہتھیاروں اور توپوں سے بلوچ سر زمین پر حملہ کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس سے قبل انگریز سامراج نے افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے اور اس مہم کے دوران بلوچ سر زمین استعمال کرنے کے لیے اور اپنے فوجی قافلوں کی حفاظت کے لیے والی ریاست قلات خان محراب خان بلوچ سے معاہدہ کیا تھا۔ اس کے بعد فوری طور پر انگیز سامراج نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ بلوچوں کے افغانستان سے تاریخی تعلوقات اور رشتہ داریں تھیں۔ اس لیے بلوچستان سے گزر کر افغانستان جانے والے انگریز فوجیوں پربلوچ مجاہدین نے حملے کرنا شروع کیے۔ اس وجہ سے افغانستان پر حملہ کرنے والی برطانوی فوج کو شکست ہوئی تھی۔ انگریز کو افغانستان کی سرزمین کی اہمیت پہلے سے تھی۔ برطانوی فوج نے بلوچوں سے بدلہ لینے کے لیے جنرل ونشانر کی کمانڈ میں بلوچستان قلات پر حملہ کر دیا۔ خان محراب خان بلوچ نے اپنے لوگوں کو منظم کر کے برطانوی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ کئی دن کی لڑائی ہوئی۔ برطانوی فوج نے جدیدتوپوںکے ساتھ حملہ کیا تھا جس کی تاب نہ لاتے ہوئے اور داد شجاعت دیتے ہوئے خان محراب خان بلوچ نے اپنے سیکڑوں ساتھیوں کے ساتھ جام شہادت نوش کر گیا۔بلوچستان کی انگریزوں سے آزادی کے ہیروں میں سب سے اُونچا نام کوہلو کے فقیر کالا خان بلوچ، جلھب خان بلوچ اور رحیم خان بلوچ کا ہے۔ انگریز نے جب 1870ء میں ان کے علاقے پر حملہ کیا تو فقیر کالا خان مری بلوچ جو ایک اللہ والا ایک بندہ تھا، نے تسبیح چھوڑ کر بندوق اُٹھائی۔ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے مزاحمت کی تاریخ رقم کی۔ موجودہ بلوچستان کے کوہلو کی تحصیل کابان کی ایک پہاڑی پر کالا خان بلوچ اپنے ساتھیوں سمیت انگریزوں کے راہ کی دیوار بن کر گھڑے ہوگئے۔ چار سال تک مسلسل انہوں نے انگریزوں کو آگے نہیں بڑھنے دیا اور وہیں روکے رکھا۔ انگریزوں نے کالا خان بلوچ کے سر کی بھاری قیمت رکھی۔ کئی لڑائیوں کے بعد انگریزوں نے توپوں کے ساتھ کالا خان بلوچ کے مورچوں کا محاصرہ کر لیا۔ پہاڑی پر رسد جانے کے سارے راستے بند کر دیے۔معرکہ پھر بھی کئی ماہ تک چلتا رہا۔ کئی روز کی لڑائی کے بعد انگریزوں نے پہاڑی پر قبضہ کر لیا۔ اس لڑائی میں برطانوی فوج کے 100سو سے زیادہ سپاہی مارے گئے۔ قبضے کے بعد پہاڑی پر چند لاشیں اور بھوک سے نڈھال مجاہد انگریز فوج کے ہاتھ لگے۔ کالا خان مری بلوچ، جلھب خان بلوچ اور رحیم خان بلوچ کو گرفتار کر لیا گیا۔ انگریزوں نے کالا خان مری بلوچ پر80 انگریز سپاہیوں کو مارنے کا مقدمہ قائم کیا۔ ایسے ہی مقدمے دوسرے مجاہد جلھب خان بلوچ اور رحیم خان بلوچ پر بنائے گئے۔ بلا آخر انگریز کی فوجی عدالت نے ان تینوں کو1891ء میں پھانسی کی سزا سنائی۔ پھانسی دینے سے پہلے بیڑیوں میںگرفتار ان تینوں کی انگریز بہادر یاد گار تصویر بنائی۔ یہ باصفا مجاہدین بلوچستان کی تصویر آج بھی برٹش میوزم لندن میںموجود ہے۔ مقامی انگریزوں نے ان پھانسیوں کی خبر کلکتہ ہیڈ کواٹر کو بھیجی ۔
انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کے بعد بلوچستان کے ساحلی علاقے پر حملہ کیا۔اُس زمانے میں مکران پر بوت بلوچ حکمران تھے۔ ان کا ہیڈ کواٹر کیج تھا۔ ھلمل کلمتی نے مکران کو بچانے کے لیے ہیڈ کواٹر کلمت منتقل کیا۔