کالم

بدلتا ہوا سیاسی منظر۔نواز شریف کی نا اہلی ختم

بالآخرسپریم کورٹ آف پاکستان کے سات رکنی بینچ نے آئین کے آرٹیکل62ون ایف کی نئی تشریح کر کے سیاست دانوں کی تاحیات نا اہلی ختم کر دی ہے بظاہر تمام سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے تاہم نواز شریف مخالف سیاست دان اور تجزیہ کار چیخ و پکار کر رہے ہیں کہ یہ فیصلہ نواز شریف کو اہل قرار دینے کے لئے دیا گیا ہے اس سے براہ راست نواز شریف ہی فائدہ اٹھائیں گے یہ آدھا سچ ہے اس سے نہ صرف نواز شریف اور جہانگیر ترین ہی نہیں بلکہ اڈیالہ جیل میں ”سرکاری مہمان ” قیدی نمبر804بھی اٹھائے گا جس سزا کا پاکستان کے آئین میں ذکر ہی نہیںثاقب نثار کورٹ آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت تا حیات نا اہل قرار دے دیا ان کو ملکی سیاست سے آئوٹ کرنے کے لئے ”علاج ” کے لئے 4سال سے زائد بر طانیہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا گیا بے شک انہیں لندن میں زندگی کی تمام سہولیات ہی کیوں نہ فراہم کی جا رہی ہوں لیکن ایک سیاست دان کو جبراً ایک دن بھی عوام سے دور نہیں رکھا جا سکتا نواز شریف کا دل پاکستان میں ہی اٹکا رہا نواز شریف کے مختلف حیلوں بہانوں سے دو بار9،10سال جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے کی سزا دی گئی لیکن ان کو عوام کے دلوں سے نہیں نکالا جا سکا آج چوتھی بار ان کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھانے کی تیاریاں کی جا رہی ہے پرویز مشرف کے مارشل لاء میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا نواز شریف پاکستان واپس آکر پرویز مشرف کی نہ صرف چھٹی کرا دیں گے بلکہ تیسری بار وزیر اعظم بن جائیں گے عمران خان بھی نواز شریف کو ”دیس نکا لا”دے کر سکھ چین کی نیند سو رہا تھا کہ اب اس کے لئے میدان صاف ہے اور اگلیت پانچ سال کے لئے وہ اور فیض ملک کے سیاہ سفید کے ملک ہو ں لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا یہ نواز شریف کی سیاسی حکمت عملی ہے اس کا سب سے بڑا سیاسی مخالف جیل میں ہے جب کہ
ان کی ”تاج پوشی ” کے لئے سٹیج سجایا جا رہا ہے ایم کیو ایم ، آئی پی پی ، مسلم لیگ (ق) ، باپ ، جی ڈی اے اور جے یو آئی سے سیٹ ایڈجسٹ کرانے والوں کے پیش نظر نواز شریف کو عمران خان کی طرح ”بے بس ” وزیر اعظم بنانا مقصود ہے اب دیکھنا یہ ہے نواز شریف آئین میں دئیے گئے اختیارات کا حامل وزیر اعظم بننا پسند کرتے ہیں یا ”تابع محمل ” وزیر اعظم بن کرمحض وزارت عظمیٰ کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں گے میں ذاتی طور نواز شریف کا جانتا ہوں کہ وہ ”بے بس” وزیر اعظم بننا کبھی پسند نہیں کریں گے ان کی اسی روش نے ان کو تینوں بار وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھوناپڑے اور جلاوطنی کی زندگی برداشت کرنا پڑی ممکن ہے نواز شریف اپنی سیاسی زندگی کی آخری اننگزکھیل رہے ہوں لہذا وہ مقتدرہ سے بنا کر رکھیں گے اور اگلے انتخاب میں پارٹی کی ”کپتانی” اپنی ”جارحانہ سیاسی سوچ” کی مالک اپنی صاحبزاد ی مریم نواز کے حوالے کر دیں لیکن اس 40سال کے سیاسی سفر میں پیچھے مڑ کر دیکھیں تو اس جماعت کے متعدد بانیان نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑدیا ہے کم و بیش اتنی ہی تعدادمیں اپنے دیرینہ ساتھیوں کو اپنی کشتی سے اتر جانے پر مجبور کر دیا جب 1992میں اسلام آباد کی اہم سیاسی شخصیت حاجی نوا زکھو کھر کی رہائش گاہ پر صدر غلام اسحق خان کے تمام تر دبائو کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہوئے راجہ محمد ظفر الحق ، چوہدری نثار علی خان ، حاجی نواز کھوکھر ، صدیق کانجو ، عبدالستار لالیکا ، راجہ محمد افضل اور دیگر رہنمائوں نے مسلم لیگ (ن) کی بنیاد رکھی تھی آج اس کا ڈنکا بج رہا ہے لیکن اب پیچھے مڑ کر دیکھیں تو واحد لیڈر راجہ محمد ظفر الحق ہی نظر آرہے ہیں جو تاحال مسلم لیگ سے وابسہ ہیں کچھ لیڈر اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے ہیں جو زندہ رہ گئے ہیں ان میں ایک چوہدری نثار علی خان ہیں جن کو مسلم لیگ (ن) سے نکال دیا گیا یا خود انہوں نے اپنے لئے الگ راہ کا انتخاب کر لیا وہ اپنا دوسرا الیکشن آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑ رہے ہیں نواز شریف نے ان کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے اپنے دشمنوں کو بھی سینے سے لگا لیا ہے سردار مہتاب احمد خان ، جسٹس غوث علی شاہ ، الہی بخش سومر ،و مخدوم جاوید ہاشمی ، شاہد خاقان عباسی سمیت متعدد قد آور شخصیات نواز شریف کے قافلے سے بہت پیچھے رہ گئی ہیں راجہ محمد ظفر الحق جنہوں نے پرویز مشرف کے مارشلائی دور میں مسلم لیگ (ن) کا شیرازہ بکھرنے نہ دیا پہلے انہیں سینیٹ کی ٹکٹ نہ دی گئی پھر انہیں پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کا نمائشی رکن تک نہ بنایا گیا وہ نواز شریف کے پاس اپنے صاحبزادے راجہ محمد علی جو دوبار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں کے ٹکٹ کے حصول کے لئے بھی گئے لیکن راجہ محمد علی کو نظر انداز کر دیا گیا کچھ ایسی ہی صورت حال چوہدری ریا (جوقومی و صوبائی اسمبلی کے رکن اور صوبائی وزیر رہ چکے ہیں )کے ساتھ درپیش آئی ہے وہ پارٹی سے کم و بیش چار عشروں سے زائد وابستہ رہے لیکن ان کو بھی قابل در خور اعتنا نہ سمجھا گیاسب سے زیادہ دلچسپ صورت حال واہ ٹیکسلا کی نشست پر آئی ہے جہاں مسلم لیگ (ن) نے چوہدری نثار علی خان کے مخالف امیدوارکوسیٹ ایڈجسٹ
کے نام پر مسلم لیگ (ن) پر اپنی نشست دے دی چوہدری تنویر خان جو راولپنڈی میں مسلم لیگ کے ”کسٹوڈین” ہیں کے صاحبزادے اسامہ تنویر کوپارٹی ٹکٹ نہیں دیا گیا کئی جگہوں پر ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف پارٹی میں بغاوت کی کیفیت ہے مخدوم جاوید ہاشمی ، سردار مہتاب احمد خان ، عائشہ رجب علی اور دانیال عزیز نے اپنی پارٹی کے خلاف بغاوت کر دی ہے اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑ رہے ہیں ناصر بٹ نے احتساب عدالت کے جج کو ایکسپوز کر کے نواز شریف کی بے گناہی ثابت کی تھی ٹکٹ نہ ملنے پر واپس لندن جا رہے ہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کی راہ میں بڑی رکاوٹ تو دور ہو گئی ہے لیکن پنجاب میں قومی اسمبلی کے ہر حلقہ ان کی جماعت کو ”بلے” کا سامنا کرنا پڑے گا گو کہ پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھر گیا ہے اور بلے کے نشان میں اس کی جان ہے وہ انتخابی میدان کھلاچھوڑنے کے لئے تیار نہیں لہذا نواز شریف کو جہاں زخم خوردہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کا مقابلہ کرنا پڑے گا وہاں انہیں اپنی جماعت کے اندر” بغاوت” سے بھی نمٹنا ہو گا انہیںجماعت کے ناراض رہنمائوں کو راضی کرنا ہو گ سینیٹ میں عام انتخابات کے التوا بارے میں قرار داد کی منظوری سے غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گئی ہے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کے سوا کم و بیش تمام جماعتیں بھرپور طریقے سے انتخابات میں حصہ رہی ہیں ادھر عدالتی منظر بھی یکسر تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ریفرنس کے ممکنہ فیصلے سے قبل ہی جسٹس مظاہر علی نقوی نے استعفاٰ دے دیا ہے جب کہ اگلے روز اکتوبر2024ء کو بننے والے چیف جسٹس اعجاز الالحسن نے بھی استعفاٰ دے دیا ہے اس طرح عدلیہ میں نثا رثاقب کی باقیات کا خاتمہ ہو گیاہے چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے چارج سنبھالنے کے بعد جس تیز رفتاری سے اہم مقدمات کے فیصلے کئے ہیں اس کی ماضی میں کہیں نظیر نہیں ملتی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button