کالم

املا نویسی ۔۔ایک بہترین تدریسی حکمت عملی

دور جدید کے طلبا جہاں ذہین و فطین نظر آتے ہیں وہیں صحیح تلفظ بولنے اور لکھنے میں کمزور پائے گئے ہیں اس کی بنیادی وجہ املا نویسی کا ناپیدہونا ہے جسے انگریزی میں Dictation کے مترادف سمجھا جاتا ہے درحقیقت املا وہ واحد تدریسی عمل ہے جس میں چار بنیادی مہارتیں بولنے ، سننے، لکھنیاور پڑھنے کی مشق شامل ہے ہمارے زمانہ طالب علمی میں ہمیں تختیوں پر لکھنیکی پریکٹس کروائی جاتی تھی۔استاد بولتے اور طالب علم لکھتے تھے معلم چیک کرتے اور اصلاح کے بعد پھر بولتے اور طالب علم درست لب ولہجے کے ساتھ لکھنے اور بولنے کی مشق کی دہرائی کرتے جس کی وجہ سے اگر ایک طرف ان کی خوشخطی میں نکھار آتا تو دوسری طرف زباندانی میں بھی درستگی ہو جاتی ۔ ماضی میں اساتذہ املا کی بھر پور مشق کراتے تھے طلبا بھی بڑی دلچسپی کے ساتھ مشکل الفاظ کی پریکٹس کرتے اور دن میں دو، تین بار تختیاں ضرور لکھتے یہی وجہ تھی کہ انکی خوش نویسی بھی عمدہ ہوتی تھی اور تلفظ بھی درست ہوتا تھا لیکن عصر حاضر میں املا اور تختی کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے۔ جس کی وجہ سے طلبا کے معیار تعلم میں تنزلی وقوع پزیر ہوئی ہے۔ اگر چہ تختی کی جگہ نوٹ بکس اور ملٹی میڈیا نے لے لی ہے تاہم املا کے تصور کو پھر سے اجاگر کرنا ہوگا۔ یہ مشق نرسری سے جماعت ہشتم تک کرائی جاسکتی ہے کیونکہ اس وقت بچوں کو اردو، انگریزی عربی اور پشتو سے بھی واسطہ ہے۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی وجہ سے اور گلوبل ویلج بن جانے کی وجہ سے الفاظ آپس میں مکس اپ ہو رہے ہیں۔ زبانیں ایک دوسرے میں مدغم ہورہی ہیں تو اس صورتحال میں املا نویسی اور بھی ضروری ہوگئی ہے۔ املا نویسی سے جہاں بچوں کے بولنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا وہاں الفاظ کی درستگی کی مشق بھی ہوگی ۔ املا نویسی سے سننے کی صلاحیت میں بتدریج اضافہ بھی ممکن ہوگا کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچوں میں سننے کی صلاحیت کمزور ہورہی ہے۔ بچے اگر سنتے بھی ہیں تو غور سے نہیں سنتے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اردو انگریزی یا دوسری زبانوں کے سمجھنے میں مدد بھی ملے گی۔ لکھنے اور خوشخطی کی صلاحیتوں کو فروغ ملے گا۔ بچوں پر مختلف قسم کی سرگرمیاں کرائی جاسکتی ہیں بچے خود صحیح عبارت سے موازنہ کر کے اپنی غلطیوں پر نشان لگائیں صحیح لفظ اوپر لکھیں۔اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ طلبا اپنی کاپیاں بدل کر دوسروں کی غلطیاں معلوم کر کے ان غلطیوں پر نشان لگائیں ۔ بعض اوقات مدرس خود ہر ایک نوٹ بک کی اصلاح کرے عام غلطیوں کو تختہ تحریر پرلکھا جائے اور سمجھایا جائے۔ آوازوں کو احسن طریقے سے ادا کیا جائے تا کہ غلطی کا ابہام نہ رہے اس تدریسی عمل میں چونکہ مدرس بولتا ہے اور طلبا سنتے ہیں۔ اس کا مناسب اور موزوں طریقہ یہ ہے کہ لکھائی ساز و سامان کا جائزہ لینے کے بعد طلبا کو عبارت کی مشق کرائی جائے۔ طلبا کا سامان ، پن اور کاغذ موزوں صورت میں ہونے ضروری ہیں ۔ اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ طلبا املا کی عبارت کا مطالمہ کر چکے ہیں یا نہیں۔ املا بولتے وقت ٹیچر کی آواز قدرے بلند ہونی چاہیے تاکہ جماعت کے تمام طلبا سن سکیں۔ آخر میں تمام عبارت پھر پڑھ کر سنائی جائے وغیرہ۔ اس قسم کی مشق کی دھرائی سے طلبا کے پڑھنے کا معیار بلند ہو جائے گا۔اردو میں املا نو یسی اس لئے بھی ضروری ہے کہ الفاظ میں اعراب نہ ہونے کی وجہ سے اکثر غلط پڑھے جاتے ہیں ۔ اس جلد بازی کی وجہ سے حروف و علامات پر توجہ نہ دینا اور محض انکل سے پڑھنا کافی سمجھا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غلط تلفظ ادا ہوتے ہیں اور غلط املا کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ املا نویسی اور خاص کر اردو املا کو بہتر بنانے کے لئے تجاویز پر عمل ہو تو اس کے خاطر خواہ نتائج نکل سکتے ہیں۔ الفاظ کو الگ الگ لکھنا ضروری ہے جیسے تجھکو کی بجائے تجھ کو لکھنا بہتر حکمت عملی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اعراب کی عدم موجودگی کی وجہ سے ایک ہی لفظ کو کئی طرح سے پڑھا جا سکتا ہے مثلا ملک ملک علم علم اسی طرح مخلوط حروف کی آواز پر توجہ دینا۔ ان کو سمجھ کر پڑھنا اور لکھنا ہے اٹھو مت بیٹھو یا ا ٹھو مت بیٹھو اگر چہ یہ الفاظ ایک جیسے ہیں لیکن ان کے مطلب جدا جدا ہیں جہاں آپ سمجھتے ہیں کہ غلطی کا امکان ہے تو وہاں علامت اور اعراب کی مدد لی جاسکتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ عربی کے حروف پر خصوصی توجہ دی جائے اور ان کی آوازوں کے فرق کو واضح کیا جائے۔اسی طرح عربی کے مشکل الفاظ کی بار بار مشق سے ان الفاظ کو سمجھا جا سکتا ہے اور ان کو اس طرح سہل بنایا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات مختلف ہجوں کے فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے اردو میں چونکہ عربی کے علاوہ دیگر زبانوں کے الفاظ بھی شامل ہیں اور خاص کر فارسی کے الفاظ تو وہ بھی طلبا کے لئے مشکلات پیدا کرتے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button