پشاور:دنیا کے5قیمتی ونیم قیمتی پتھروں میں سے تین نایاب قسم کے پتھر خیبر پختونخوا میں پائے جاتے ہیں،ان میں زمرد سوات،شموزئی،گجر کلے،چار باغ ، کاٹلنگ مردان میں دنیا کا بہترین گلابی پکھراج (ٹوپاز)پایا جاتا ہے،ہزارہ اور کوہستان میں پیراڈاٹ،گلگت اور شمالی علاقہ سکردومیں ایکوامرین، ٹورملین پا یا جاتا ہے۔ آل پاکستان کمرشل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق ان پتھروں کا شمار دنیا کے نایاب پتھروں میں کیا جاتا ہے جو پاکستان کے شمالی علاقہ میں وافر مقدار میں موجود ہیں،جدید اور سا ئنسی کان کنی نہ ہونے کے باعث ان علاقوں میں قیمتی ونیم قیمتی پتھروں کی دولت ضائع ہو رہی ہے،اکثر ناتجربہ کاری کے باعث کان کنی سے یہ دولت نہ صرف ضائع ہو رہی ہے بلکہ تراش خراش کے بعد ان کی خوبصورتی بھی ماند پڑ جاتی ہے۔آل پاکستان کمرشل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق جیمز اینڈ جمالوجیکل انسٹی ٹیوٹ میں بین الاقوامی ماہرین کی ضرورت ہے جو یہاں کے لوگوں کو پتھروں کی تراش خراش کی صحیح معنوں میں تربیت دے سکیں۔آل پاکستان کمرشل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن(اے پی سی ای اے)کے گروپ لیڈر معمور خان نے کہا ہے کہ قیمتی پتھروں کے شعبے کو صنعت کا درجہ دے کر پاکستان کی معیشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے،پاکستان متنوع اور نایاب اقسام کے قیمتی پتھروں کے ذخائر کا گھر ہے جس میں ہر سال 800,000 کیرٹس روبی، 87,000 کیرٹس زمرد اور 5 ملین کیرٹس پیریڈوٹ برآمد کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ جولائی 2021 سے 30 جون 2022 کے دوران قیمتی پتھروں سے 6.77 ملین ماہرین تیار کیے گئے ہیں جبکہ اگست میں 193,132.85 امریکی ڈالراوراے پی سی ای اے کی طرف سے گزشتہ سال جولائی میں 422,004.6 امریکی ڈالرکی برآمدات کی گئیں۔انہوں نے کہا کہ قیمتی پتھر ایک اہم معدنی شعبہ بن سکتا ہے اگر اسے جدید خطوط پر ترقی دی جائے، اس سے پاکستان کی خراب معاشی صورتحال کو بہتر بنانے میں نمایاں مدد مل سکتی ہے۔ معمور نے کہا کہ اے پی سی ای اے نے 2021-22 میں 4 ملین امریکی ڈالر کے قیمتی پتھروں کی برآمدات حاصل کیں۔انہوں نے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2018 میں قیمتی پتھروں اور زیورات کی برآمدات 14.1 ملین امریکی ڈالر تھیں جو 2019 میں بڑھ کر 14.6 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئیں جس سے خیبر پختونخوا کے غیر پروسیس شدہ قیمتی پتھروں سے 80 فیصد سے زائد ریونیو اکٹھا کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بھاری ٹیکسوں کے علاوہ ٹیکنالوجی اور پیشہ ورانہ تربیت کی کمی خیبرپختونخوا میں جواہرات کی کان کنی پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔نگران وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے مشیر برائے معدنیات و معدنی ترقی، منصوبہ سازی و ترقی اور توانائی و برقیات ڈاکٹر سید سرفرازعلی شاہ نے کہا ہے کہ نمک منڈی پشاور قیمتی پتھروں اور معدنیات کے لحاظ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، یہاں ہزاروں افراد اس اہم شعبہ و کاروبار سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں جیمز سٹی کے قیام سے ریونیو امور میں خاطر خواہ ترقی یقینی ہے جبکہ اس سے روزگار کے بیشتر مواقع بھی پیدا ہوں گے، ایکسپورٹ سیکٹر کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ معمورخان کے مطابق خیبر پختونخواکے جیمز سٹون کی امریکہ،جرمنی،فرانس سمیت یورپی اور خلیجی ممالک میں کافی مانگ ہے کیونکہ ان پتھروں کی ساخت صاف اور واضح ہے جبکہ انڈیا کے پتھروں کی ساخت صاف نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ چند سال قبل پشاور شہر کا نمک منڈی بازار دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کا مرکز تھا جن کو جیمز سٹریٹ کا نام دیا گیا،امریکہ اور یورپ میں پتھروں کے بیوپاری نمک منڈی کو جیمز سٹریٹ پکارتے تھے ۔گزشتہ تیس برسوں سے قیمتی پتھروں کے کاروبار سے وابستہ پشاور کے رہائشی ذاکر خان کا کہنا ہے کہ ملک میں 95 فیصد جم سٹون مائننگ کے فرسودہ طریقے کے سبب ضائع ہو رہے ہیں ، حکومت کو ناصرف بہتر اقدامات اٹھاکر ملک کے اس قدرتی اثاثے کو عالمی منڈی تک زیادہ رسائی دینی چاہیے بلکہ ان قیمتی اور نایاب پتھروں کی جانچ کے لیے تحقیقی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قیمتی پتھروں کے اربوں ٹن کے ذخائر موجود ہیں تاہم متعلقہ اداروں کی عدم توجہ کے سبب یہ ذخائر پہاڑ کی شکل میں کھڑے ملک اور قوم کی حالت پر افسوس کر رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے جم سٹونز کی امریکا، آسٹریلیا، دبئی، جرمنی، چین، اٹلی، فرانس، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک میں کافی طلب ہے، وہ ان قیمتی پتھروں کے بارے میں کہتے ہیں، سوات کی کانیں بہت قیمتی ہیں، سوئٹزرلینڈ میں ان کو بہت پسند کیا جاتا ہے، کیونکہ ان کا زیادہ تر استعمال زیورات میں کیا جاتا ہے، یہ افغانستان کے پنج شیر کے پتھروں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پنک ٹوپاز ملتا ہے، جو دنیا میں اور کہیں بھی نہیں ملتا اور یہ روبی کا مقابلہ کرتا ہے۔ذاکر خان کہتے ہیں گو کہ پاکستان ان قیمتی پتھروں سے مالامال ہے لیکن بدقسمتی سے ان پر دوسرے ممالک کی اجارہ داری ہے، یہاں سے نکالے جانے والے اکثر قیمتی پتھروں کو امریکا، جرمنی اور برطانیہ کے باشندوں نے اپنے ناموں سے منسوب کیا ہے، جس کی بڑی وجہ پاکستان میں ان پتھروں سے متعلق لاعلمی اور وسائل کی کمی ہیں۔معدنیات یہاں پاکستان میں ہیں اور ان کے انسٹیٹیوٹ جرمنی اور امریکا میں ہیں، یہ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ کچھ پتھروں کی یہاں پر قیمت چند ہزار روپوں سے زیادہ نہیں ہے، جبکہ باہر ممالک میں ان کی قیمت لاکھوں ڈالرز میں لگائی جاتی ہے۔زکراللہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اب بھی سینکڑوں اقسام کے مزید نایاب اور قیمتی پتھر موجود ہیں جن کے بارے میں تحقیق ، سمجھ اور مہارت کی ضرورت ہے۔ ملک میں 95 فیصد جم سٹون مائننگ کے فرسودہ طریقے کے سبب ضائع ہو رہے ہیں ۔ حکومت کو ناصرف بہتر اقدامات اٹھاکر ملک کے اس قدرتی اثاثے کو عالمی منڈی تک زیادہ رسائی دینی چاہیے بلکہ ان قیمتی اور نایاب پتھروں کی جانچ کے لیے تحقیقی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
0 26 4 minutes read