کالم

جینے کا حق

جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں تو سیاسی پارٹیاں اپنی امیج بہتر کرنے کے لیے جلسے شروع کرتی ہیں اس کے علاہ وہ مختلف قسم ٹیمیں بھی بناتی ہیں ۔ سوشل میڈیا ٹیم الگ ہوتا ہے وہ چوبیس گھنٹے لگا رہتا ہے اس کے علاہ یہ سیاستدان لوگوں کے حجروں میں جاتے ہیں ان سے میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں اور آخر میں ووٹ مانگتا ہے ۔ اس کے علاہ جب علاقے میں کوئی مسلئہ پیدا ہوتا ہے ۔ وہ پوری طور پر وہاں پہنچ جاتا ہے ،تقریر شروع کرتا ہے علاقے کے لوگ بھی خوش ہوتے ہیں کہ انھوں نے ہمارا مسلہ حل کر دیا اس کے علاہ یہ غم خوشی میں بھی جاتا ہے ایک قسم کا اپنا پبلک ریلیشنز بناتا ہے ۔ جلسوں میں کہتا ہیں کہ میں آپ لوگوں کے سارے مسائل حل کرونگا ۔ اصل میں یہ ایک طرح کا پبلک کے ساتھ ریلیشن تو بناتا ہے ۔ لیکن ان کو برقرار نہیں رکھتا ۔ جب الیکشن ہوتا ہے اور یہ موصوف کامیاب ہوتا ہے ۔ تو یہ اپنا گاں بھی چھوڑ دیتا ہے ، اور سیدھا اسلام آباد جاتا ہے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ پاکستان میں شروع دن سے یہ سب کچھ چلتا آرہا ہے ۔ چاہے بڑا سیاستدان ہو یا چھوٹا وہ الیکشن کے دنوں میں اس قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ اگر بلوچ مسنگ پرسنز کی بات کریں تو پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں زیادہ تر افراد لاپتہ ہیں ۔ گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر بلوچ مائیں اور بہنیں سڑکوں پر ہیں اور اپنے پیاروں کے تصاویر انھوں نے ہاتھوں میں پکڑی ہیں اور ریاست کو کہتا ہے کہ ہمارے پیاروں کو بازیاب کرو ۔ گزشتہ کئی دنوں سے ہم سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہیں ۔ کہ بلوچ مائیں اور بہنیں اپنے گھروں سے نکلی ہیں اور ریاست سے مطالبہ کرہی ہے کہ ہمارے پیاروں کو زندہ سلامت رہا کرو ۔ اس مارچ کی سربراہی ایک بہادر خاتون ماہ رنگ بلوچ کررہی ہے ۔ ماہ رنگ بلوچ کے والد صاحب کو اغوا کیا تھا اور بعد میں اس کا تشدد زدہ لاش پھینکا گیا تھا اب ساری خواتین جس کی خاندان سے کچھ بندے لاپتہ ہیں وہ سب اس مارچ میں شامل ہے اور اس کی سربراہی ایک خاتون کررہی ہے ، ماہ رنگ بلوچ نے صحافی اسد علی طور سے بات کرتے ہوے کہا کہ ہمارے وسائل تو آپ کے پاس ہیں ہمیں جینے کا حق دیا جائے ۔ یہ جملہ جس وقت میں سن رہا تھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ یہ خاتون پاکستانی سر زمین پر نہیں بلکہ کشمیر کی سرزمین پر کھڑی ہے ان کی آواز میں ایک درد تھا ، ان کی آنکھوں میں وہ آزادی کا خواب میں نے دیکھا ، ان کی لہجے میں معصومیت تھی ان کی باڈی لینگویج سے مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک بہادر عورت ہے ، ان کی باتوں سے مجھے معلوم ہوا کہ وہ تشدد پسند نہیں بلکہ امن پسند خاتون ہے وہ ریاست کو کہ رہی تھی کہ ہمارے لاپتہ افراد کو رہا کرو۔ ان کے ساتھ جتنے بھی مائیں اور بہنیں موجود تھیں وہ بھی امن پسند تھی وہ جنگ کے لیے گھر سے نہیں نکلی تھی بلکہ سب کے ہاتھوں میں ایک لاپتہ شخص کا تصویر تھا اور دسمبر کی سرد و تاریک شام میں وہ سڑک پر بیٹھی تھی۔ ذہن میں بے شمار سوالات ہیں ۔
بقول امجد اسلام امجد
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
زمیں جس پہ میرے قدم ٹک سکیں
اور تاروں بھرا کچھ فلک چاہیے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں یہ مائیں اور بہنیں روز کبھی پرس کلب کے سامنے تو کبھی سڑکوں پر نظر آتے ہیں ۔ ان کے جو مطالبات ہیں وہ کیوں پورے نہیں ہوتے ؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ بلوچستان سے بندوں کو کیوں لاپتہ کیا جاتا ہیں؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی کو لاپتہ بھی کیا تو پھر ان کو عدالت میں پیش کیوں نہیں کیا جاتا ؟
اگر کسی نے کوئی ایسی غلطی کی ہے جو ریاست اور قانون کے خلاف ہے تو ان کو عدالت میں کیوں پیش نہیں کیا جاتا ؟
کیا ساری عمر یہ بلوچ مائیں اپنی لاپتہ بیٹے کے لیے سڑکوں پر بیٹھے نگے اور ریاست سے بھیک مانگے گی
سادہ اور آسان حل یہ ہے کہ جس نے ایسا کام کیا جو ریاست پاکستان کے خلاف ہے تو ان کو سزا دیں دوں ۔ آخر یہ عدالتیں کس چیز کے لیے ہیں لیکن کسی کو گھر سے یا راستے سے اٹھانا یہ ایک انتہائی غیر انسانی رویہ ہے ۔ اب جب یہ خواتین گھروں سے نکلتی ہیں ۔ اور سڑکوں پر بیٹھتی ہے اس سے میرے ملک پاکستان کا امیج دنیا میں خراب ہوتا ہے ۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ جتنے بھی لاپتہ افراد ہیں ۔ ان سب کو عدالت میں پیش کرنا اور عدالت جو فیصلہ کریگی اس پر عمل کرنا یہ اس مسلے کا واحد حل ہے ۔ آخر ہماری یہ مائیں اور بہنیں کب تک سڑکوں پر بیھٹی گی کب تک اپنا فریاد سنائے گی کب تک ریاست سے کو کہے گی کہ ہمارے پیاروں کو رہا کروں ۔ پاکستان میں ایک مسلہ یہ بھی ہے بلکہ میں اس کو بدقسمتی سمجھتا ہوں ۔ کہ پاکستانی میڈیا پر تو ہر وقت ہمارے معزز صحافی حضرات سیاست اور انتخابات پر باتیں کرتی ہیں ۔ سیاست پر روزانہ پروگرامز ہوتے ہیں لیکن وہ صحافی خضرات اس قسم مسائل پر بات نہیں کرتے بہت کم ایسے صحافی ہیں جو اس مسلہ پر بات کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی میڈیا پر زیادہ تر سیاست پر بات ہوتی ہے ۔ اس کے علاہ بھی بہت سے ایسے سوشل ایشوز سماجی مسائل ہیں جن پر بات کرنا انتہائی ضروری ہے لیکن ہمارے معزز صحافیوں کو موقع نہیں ملتا ۔ کیونکہ میڈیا کا ایک فارمولا ہے جو دیکھتا ہے وہی بکتا ہے۔ کیا مسلہ ہے آپ کو ہم سے کیوں نوجوان کو لے جا کر مارتے ہو ۔ کیوں ہمارے عورتوں کو اغوا کرتے ہو ۔کیوں ہمیں دہشتگرد قرار دیتے ہو ۔ ہمارے وسائل تو آپکے پاس ہیں ہم نے تو آج تک آپ سے وسائل کی بھیک بھی نہیں مانگی ہے ۔
ہمیں جینے کا حق دیا جائے ۔۔۔۔۔۔ ماہ رنگ بلوچ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button