قارئین !یوں تو پاکستان کی مٹی بڑی نرم ہے ساقی یا ذرخیز ہے وغیرہ،وغیرہ۔ لیکن میں اس بحث سے خود کو قطعی بری الذمہ ہو کر حقائق بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔اس سے قبل دختر مشرق عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔لیکن اسی تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے ہماری پنجاب اور میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز عا لم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعلٰی پنجاب منتخب ہوئی۔ 26مئی2024ء کو پاکستان کی ستہتر سالوںمیں ایسا پہلی بار ہوا کہ ایک نوارد معصوم سی اور جسمانی طور پر نحیف اور صنف نازک کی مالک خاتون اعصابی اور ذہنی طور پر انتہائی مضبوط اور سیاسی حریفوں کے لئے بھاری پتھر ثابت ہوئی۔اس عورت نے نہ صرف ہر گھر کی دہلیز تک رسائی حاصل کی اور غرباء اور فقراء کی داد رسی کی۔بحیثیت وزیر اعلٰی پنجاب آج تک ایک اچھی منظم اور غیر قانونی حربے استعمال کئے بغیر کسی بھی شخص کو ذاتی رنجش کے باعث گندی سوچ کو قریب تک نہیں آنے دیاْ۔
یاد رہے کہ بی بی مریم نواز نے پہلی مرتبہ الیکشن میں حصہ لیا اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزیر اعلٰی کاقلمدان تھاما۔ان کے اقتدار کو تقریبا چار ماہ تین دن ہوچکے ہیں۔محترمہ مریم کے لئے وزارت اعلٰی کی کرسی ایک آزمائش ہے۔ یاد رہے کہ مریم بی بی کی سیاسی تربیت ان کے والد میاں محمد نواز ژیف نے کی ہے جو پاکستانی سیاست کی تاریخ سے بخوبی واقف ہیں۔ یاد رہے میاں صاحب دو مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب رہ چکے ہیں اور عوام میں مقبولیت کے باعث وہ تین دفعہ وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان رہ چکے ہیں۔وہ سیاست کی باریکیوں اور تمام خدو خال سے واقف ہیں۔اب گیند بی بی مریم کے کورٹ میں ہے۔ اگر وہ ہنجاب میں اپنی مقبولیت کا گراف بڑھا دیتی ہیں تو یقیننا اس کا نقصان پی ٹی آئی اور عمران خان کو ہو گا۔لیکن اگر محترمہ مریم کچھ نہ کر پائیںتو ان کا حشر پاکستان پیپلز پاٹی جیسی بڑی اور تربیت یافتہ کارکنوں سے بھی بد تر ہو سکتا ہے۔ اس بات سے تو کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا چاہے وہ کتنا ہی بھٹو صاحب کے خلاف ہو کہ انہوں نے پاکستان بننے کے بعد جو انقلابی اقدامات کئے وہ آج تک کوئی نہیںکر سکا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بھٹو صاحب کے قریبی ساتھیوں اور محترمہ بے نظیر کے جانثار سپاہیوں کو ایک ایک کر کہ کھڈے لائن لگا دیا گیا۔
عموما شریف خاندان کو مشرقی خاندان تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں پردے اور شرم و حیا کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے۔ محترمہ کلثوم نواز (مرحومہ) نے جب نواز شریف کے اقتدار پر طاقت کے بل بوتے پر اور آئین کی شکل بگاڑ کر انہیں ملک بدر کیا گیا تو کلثوم نوازسیاسی منظر نامے پر نمودار ہوئی، انہوں نے لاہور کے ایک حلقے سے کاغذات نا مزدگی بھی جمع کرائے لیکن بعد میں نا معلوم وجوہات کی بنیاد پر اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لئے۔ جب نواز شریف واپس پاکستان پہنچے تو اس کے بعد کلثوم نواز عمکی سیاست سے الگ ہو گئیں اور علالت کے باعث سیاسی منظر نامے سے غائب رہیں۔بی بی مریم نے 2011ء سے عملی سیاست کا آغاذ کیا اور وہ اکثر لاہور میں منعقد ہونے والے پروگرامز میں بطور Chief Guestشریک ہوتی رہیں۔یاد رہے کہ میاں شریف اور ان کے خاندان کے خلاف بلا جواز انتقامی کارروائیاں کی گئیں۔انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی دھکیلا گیااور ان کے اقتدار پر بھی شب خون مارا گیا اور ساتھ ساتھ وہ جلا وطن بھی رہے،لیکن کوئی حربہ اور کسی طرح کا دبائو میاں صاحب کو عوام سے دور نہ لے جا سکا۔ اب بی بی مریم کا امتحان ہے کہ وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلکر لوگوں کی خدمت کو اپنا شعار بناتی ہیں یا پھر وہ نا کامہو کر مسلم لیگ ن کا بھی وہی حشر کرتی ہیں جو بھٹو صاحب کے بعد ان کے جان نشینوں نے کیا۔
بی بی مریم جہاندیدہ خاتونہیں اور سیاسی دائو پیچ سب جانتی ہیں۔انہیں چار ماہ تک گھر میں نظر بندرکھا گیا۔اس کے بعد انہیں سعودی عرب جانے پر مجبور کیا گیا۔وہ کئی دفعہ مسلم لیگ ن کے مرکزی انتخابات میں بطور چئیر پرسن کام کر چکی ہیں۔بی بی 28اکتوبر 1973ء میں پیدا ہوئیں۔
مریم بی بی نوجوانوں کی پسندیدہ سیاسی راہنماء ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یوتھ کی کثیر تعداد ان کے ساتھ کھڑی ہے۔سیاسی شروعات یو بی بی نے بہت عمدہ انداز میں کی ہیں۔انہوں نے نہ صرف پنجاب کی قریبا ساری ضمنی نشستیں جیتیں بلکہ دوسرے طرف کمال مہارت سے مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ اتحادی کی حیثیت سے کے پی کے میں بھی پی ٹی آئی کو شدید نقصان پہنچایا۔بحرحال مریم بی بی نے سیاسی شروعات بہت ہی عمدہ کی ہیں۔لیکن ان کی حتمی کارکردگی کے بارے میں آج ہی تحریر کرنا قبل از وقت ہو گا،ان کی سیاست کے معیار کا اصل پتہ 3یا ساڑھے تین سال بعد لگے گا۔ابھی کوئی رائے دینا قبل از وقت اور بیکار ہو گا۔ بحرحال ہماری دعائیں بی بی مریم اور ان کے کارکنوں کے ساتھ ہمیشہ رہیں گی۔
0 36 3 minutes read