کالم

بامِ خیال سے جھانکتی شاعری ”بس عشق کی باتیں ہیں”

جیون میں ہوا میرے ایک کام تسلسل سے
گذری ہے جدائی میں ہر شام تسلسل سے
ملتی ہے اسے طاہر معراج محبت کی
کرتی ہے جسے دنیا بد نام تسلسل سے
سید محمد طاہر شاہ کے نظریہ محبت سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دنیا میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کے الگ الگ نظریاتِ محبت ہیں ۔کسی کے نزدیک وصال معراجِ محبت ہے تو کسی کے نزدیک جان سے سے گزر جانا وصال ہے۔کسی کے لیے ہجر اک مسلسل روگ ہے اور کسی کے نزدیک ہجر میں یادوں کا میلہ بھی وصالِ یار ہی کی ایک صورت ہے۔
وہ کہتے ہیں:
اس بام کی باتیں ہیں،الہام کی باتیں ہیں
بس عشق کی باتیں ہیں،کچھ کام کی باتیں ہیں
آرام سے سننا تم،آرام کی باتیں ہیں
اک درد کہانی ہے،آلام کی باتیں ہیں
اور یہاں یہ کہنا بیجا نہیں کہ یہ سب سید محمد طاہر شاہ کی باتیں ہیں
وہ باتیں تیری وہ فسانے تیرے
شگفتہ شگفتہ بہانے تیرے
شاعری بھی تو فکشن سے قریب تر سخن ہے جہاں شاعر اپنے الفاظ کے جادو سے ایک طلسماتی منظر یا جادوئی فضا قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ فکر وخیال کے دھوئیں کے ذریعے الفاظ کے شیشے پر کچھ بیولے بناتا ہے ۔جن کو ان ہیولوں کا عکس سمجھ آ جائے وہ انہں امیجز کہتے ہیں ۔جسے نہ سمجھ آئے وہ کہتا ہے کہ شاعر مشکل پسند ہے ایبسٹرہکٹ آرٹ کی طرح الگ الگ توجیہات پیش کی جاتی ہیں جو قاری کی تفہیم کے مطابق درست ہوتی ہیں ۔سید محمد طاہر شاہ کی شاعری بظاہر سادگی اور سلاست سے مزین ہے ”نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی”سادگی کا حسن فطری حسن ہے ،نہ یہاں دقیق و پیچیدہ، ثقیل اور بوجھل مشکل الفاظ ملتے ہیں، نہ فلسفیانہ افکار کی بھرمار نظر آتی ہے۔خیال سادہ ، الفاظ سلیس،بیانیہ بلاواسطہ اور اسلوب ایک مخصوص رنگ لیے ہوئے ہے۔جو مکمل طور پر ان کا ذاتی رنگ ہے ۔میں نے یہ نہیں دیکھا کہ ان کی شاعری میں عہد حاضر کے کسی شاعر یا کسی شعری تحریک کا شائبہ بھی ملتا ہو۔یْوں لگتا ہے جیسے سید محمد طاہر شاہ کی شاعری” بلیو لیگون” مووی کے کرداروں میں سے کوئی ایک کردار ہے جو اتفاق سے کسی جزیرے پر پہنچ جاتا ہے اور پھر 25 ،30 سال وہیں گزر جاتے ہیں۔ اس کے پاس بیرونی دنیا سے نہ کوئی ملنے اتا ہے۔نہ کسی کی خبر، نہ اطلاع نہ رابطہ۔وہ اپنے اندر ایک ذاتی جہان آباد کر لیتا ہے۔ اس کے سامان میں کچھ پرانے گانوں کے کیسٹس ہیں ایک ٹیپ ریکارڈر ہے اور قلم کاغذ ہیں.وہ انہیں 60اور 70 کی دہائی کے گیتوں سے دل بہلاتا ہے۔یہی اس کی واحد تفریح ہے۔ اور وہ روزانہ ساحل کی گیلی ریت پر بیٹھتا ہے۔ سوچوں میں مَست رہتا ہے۔شب و روز کی تیز ہوا کو اپنے اردگرد اٹھکیلیاں کرتے دیکھتا ہے۔ ہر احساس کو بہت قریب سے محسوس کرتا ہے۔ اْمیدوں کو یقینوں کی عبائیں پہنانے کے راستے تلاش کرتا ہے۔ پہلے خواب بْنتا ہے پھر اْن خوابوں کی تعبیریں تلاش کرتا ہے۔ جذبوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ خود سے باتیں کرتا ہے۔ احساس کی دْنیا بساتا ہے۔ محسوسات سے ہم کلامی کرتا ہے۔ حْسن کو حْسن کی نظر سے دیکھتا ہے۔ کبھی سمندر کی خاموشی میں غوطہ زن ہو جاتا ہے اور کبھی موجوں کے شور میں سوچوں کی ڈور سْلجھانے لگتا ہے۔ کبھی تصور کے جوگی کا رْوپ دھار لیتا ہے تو کبھی تخیّل کے روگی کا۔ کبھی آرزؤں کی توسیح کرتا ہے کبھی تمناؤں کی تشریح کرتا ہے۔ کبھی دل میں نئی اْمنگ بھرتا ہے کبھی اْمنگ میں ترنگ بھرتا ہے۔ کبھی خیال سے بولتا ہے کبھی وبال کو تولتا ہے۔ کبھی جہانِ موجودات کو دیکھتا ہے تو کبھی مالکِ حیات و ممات کو سوچتا ہے۔ نرم و لطیف لہروں کی لطافتوں سے زندگی کی کثافتوں کو دھونے کی کوشش کرتا ہے۔کبھی تنہائی سے شناسائی کا لْطف لیتا ہے تو کبھی انجانی جْدائی میں دِلِ سودائی کی صدائیں سْن کر مسیحائی کی لگن میں مگن ہو جاتا ہے۔سمندر کی لہروں سے باتیں کرتا ہے۔ ساحل کی ہواؤں سے ترنّم کشید کرتا ہے۔اور خیال کی جھنکار کو سْن سْن کر اپنی انگلیوں سے ساحل کی گیلی ریت پر اشعار لکھتا چلا جاتا ہے۔میں نے سید محمد طاہر شاہ کی شاعری میں خاص عہد کی موسیقی اور گیتوں کا رچاؤ محسوس کیا ہے۔ان کا کہنا بھی یہی ہے کہ انگلینڈ کی مصروف زندگی میں انہیں مطالعہ کے لئے وقت نہیں ملتا۔ وہ گھنٹوں ۔ڈرائیونگ کرتے ہیں پرانے گیت سنتے ہیں ۔سر دھنتے ہیں اور شعر لکھتے ہیں ۔ان کے ہاں ایک خاص طرح کا ناسٹیلجائی تاثر ملتا ہے .سید محمد طاہر شاہ حسن ومحبت، ہجر و وصال اور عِشق و محبت کی طلسماتی فضاؤں کے شاعر ہیں۔
تیرے نام کی ہوائیں میرے دھیان کو سجائیں
ترا چاند چاند مکھڑا گلِ آرزو کھلا دے
تو نور بدن دولتِ دلِ حسن کا دھارا
میں خاک بسر چاک گریباں بچارا
مری وصلِ آرزو تو فقط آرزْو رہی ہے
میں تھا کارواں سے پیچھے وہ تھا کارواں سے اگے
طاہر شاہ کے ہاں چھوٹی بحر میں غزلیں بھی ملتی ہیں اور لمبی بحر میں بھی ۔انہیں عروض پر عبور ہے اس لئے ان کے اشعار میں بالعموم اوزان خطا نہیں ہوتے
۔الفاظ کے چناؤ میں بہت زیادہ تنوع نظر نہیں آتا۔ سید محمد طاہر شاہ نے اپنے کلام میں بہت بڑا ذخیرہ الفاظ استعمال کرنے کی بجائے محدود الفاظ کو انتہائی خوبصورتی سے شعری ضرورت کے مطابق بجا استعمال کیا ہے۔”بامِ خیال ” کتاب کا ٹائیٹل ہی نہیں بلکہ ہر غزل میں بام کا لفظ جگمگا رہا ہے ۔بام خیال کے فریم میں اشعار نمودار ہوتے ہیں اور ہر بار چولا بدل بدل کر آتے ہیں۔ان. کے کلام میں ان کی شخصی سوچ کے علاوہ بیرونی دنیا کا منظر نامہ اپنی جگہ بناتا دکھائی نہیں دیتا ۔وہ نہ کسی سے بہت زیادہ ملتے جلتے ہیں اور نہ ہی ان کا کہیں بہت زیادہ آنا جانا ہے۔ اِسی عادت نے اِن کی سوچوں کو یکسْوئی عطا کی ہے۔وہ خود کو بیرونی آلودگی سے بچا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہْوئے ہیں۔ان کے شعری مجموعہ بام خیال کی اشاعت پر میں ان کو مبارک باد پیش کرتی ہوں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button