کالم

مزید 18فی صد ٹیکس

میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف نے حکومت کو نئی شرائط سےآگاہ کیا ہے کہ مزید 18 فیصد سیلز ٹیکس لگایا جائے.یہ ٹیکس ہر چیز پر لگے گا اور اس میں ادویات بھی شامل ہیں.پہلے بھی ادویات غریب کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں اور مزید ٹیکس لگنے کے بعد عوام الناس اور ادویات کا فاصلہ مزید بڑھ جائے گا.پاکستانی عوام دونوالوں کے لییترس رہی ہیاور علاج کرنا انتہائی مشکل ہے.سرکاری ہسپتالوں میں ادویات بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں یا ملتی نہیں ہیں،اس کے علاوہ عام آدمی کا اسپتالوں میں چیک اپ بھی بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔مہنگا علاج غریب اور عام آدمی کی پہنچ سے بہت ہی دور ہے،اب 18 فیصد ٹیکس سے مزید مہنگا ہو جائے گااور مہنگا علاج کرنا عام آدمی کے بس کی بات ہی نہیں رہی۔اب مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہر چیز پر 18 فیصد مزید ٹیکس لگایا جائے.یہ بھی حکم نامہ جاری کیا گیا ہے کہ جولائی سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جائے.ٹیکس وصولی کا ہدف بڑھانے پر زور دیا گیا ہے.آئی ایم ایف کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں،شاید تھوڑی بہت بارگیننگ ہو جائیاور ٹیکس کم ہو جائیمگر ایک بات واضح ہے کہ اگلے سال مزید ٹیکسز کی شرح میں اضافہ کرنا ہوگا.اب ہر چیز پر18 فیصد کے حساب سے ٹیکس لگانے کا مطلب ہے کہ مہنگائی کا سونامی آئے گا۔یہ سال مشکل سے شاید گزر جائے,مگرآنے والا سال مزید طوفان لائے گا.اب تو نجکاری کر کے تھوڑا بہت معیشت کو سنبھالنیکی کوشش کی جائے گی،شاید کچھ اداروں کی نجکاری اگلے سال تک ملتوی کر دی جائیاور اگلے سال نجکاری کر کیمعیشت کو تھوڑا بہت سنبھال لیا جائے.بعد میں پاکستانی معیشت کس سٹیج پر ہوگی،اس کے لیے کوئی دانشور یا نجومی ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر کسی کو علم ہے کہ کیا ہوگا؟
موجودہ حکومت سیاسی عدم استحکام کے علاوہ معاشی عدم استحکام کا بھی سامنا کر رہی ہے.یہ درست ہے کہ معیشت کی یہ کمزوری ماضی کی مرہون منت ہے،مگرحکمران اس بات سے بھی نہیں مکر سکتے کہ سب سے زیادہ دور ان کا گزرا ہے.سارا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی بجائیاپنا احتساب کیا جائے.موجودہ حالات بہت ہی نازک ہیں اور معاشی کمزوری مزید نازک کر رہی ہے.قرضہ لے کرتھوڑا سا وقت گزار لیا جاتا ہیمگر چند دنوں کے بعد وہی حال ہوتا ہے کہ مزید قرضہ چاہیے.بارہا ہم لکھ چکے ہیں کہ قرض لینا مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ مسئلہ تب بنتا ہے جب قرض کاغلط طریقے سے استعمال کر لیا جائے.معیشت کو سنبھالنے کے لیے کی جانیوالی نجکاری مزید مسائل پیدا کرے گی.نجکاری کے ذریعے حاصل کیا گیا سرمایہ درست طریقے سے لگایا جائے تو ممکن ہے کہ پاکستان اپنے پاں پر کھڑا ہو جائے.سرمایہ کا اگر غلط استعمال کیا گیا تو مشکلات کیپہاڑ کا سامنا کرنا ہوگا۔پاکستانی معیشت وینٹی لیٹرپر پڑی ہوئی ہیاور ایمرجنسی کا سامنا کرتی پاکستانی معیشت منصفانہ پالیسیوں سے مستحکم ہو سکتی ہے.ٹیکس بڑھا کرآئی ایم ایف کا ہدف تو پوراکیا جا سکتا ہے مگریہ ہدف پورا کرتے وقت پاکستانی عوام کا کچومر نکل جائے گا.موجودہ حکومت میں تمام پارٹیاں شامل ہیں سوائے ایک دو کیاور یہ مشترکہ پارٹیاں پاکستانی معیشت کو سنبھالنے میں مشکل کا شکار ہو رہی ہیں.وقتی مفادیا ذاتی مفاد کے لیے بنائی گئی پالیسیاں معیشت کی کمزوری کا سبب بنتی ہیں،ان سے مضبوطی کی توقع نہ رکھی جائے۔ صرف یہ مطالبہ نہیں کیا جاتا کہ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جائے،بلکہ یہ حکم نامہ بھی جاری کیا جاتا ہے کہ ان کیمنظور شدہ ممالک یا اداروں سے تجارتی تعلقات قائم کیے جائیں.پاکستان اپنی معاشی حالت کو مضبوط بنا سکتا ہے اگرروس،ایران یا اس جیسے دوسرے ممالک سے تجارتی روابط بڑھادیے جائیں۔پاکستان کواپنی مرضی کیممالک سے تجارتی تعلقات بڑھانے ہوں گے.دوسرے ممالک سے تعلقات کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اس سے ڈالر کمزور ہوگا اور پاکستانی روپیہ بھی مستحکم ہوگا۔لوکل کرنسی کے ذریعے بھی کاروبار ہو سکتا ہے جوکہ بہترین زر مبادلہ ہو سکتا ہے.پاکستان اگر چاہے تو سستے داموں ایران سے تیل اور دوسری اشیا خرید سکتا ہے.یہ تجارت پاکستانی معیشت کو فوری مضبوطی فراہم کر سکتی ہے۔اس طرح کے فیصلوں سےآئی ایم ایف اور کچھ ممالک ناراض ہو جائیں تو ہوتے رہیں،کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے.ممکن ہے کہ وہ نقصان پہنچانے کی کوشش کریں،لیکن پاکستان کو بہادری سے جواب دینا ہوگا.پاکستان کی معیشت اس وجہ سے بھی کمزور ہیکہ یہاں کرپشن بہت زیادہ ہے.کرپشن کیناسور کو ختم کرناپاکستان کی اولین ترجیحات میں شومل ہونا چاہیے. بعض اوقات ایسے فیصلے کر لیے جاتے ہیں جو پاکستان کومشکلات میں دھکیلنے کا سبب بن جاتے ہیں.کچھ فیصلے شاید نیک نیتی سے کییگئیہوں مگرایک بات واضح ہیکہ نتائج پر غور و فکرنہیں کیا جاتا.مثال کے طور پر گندم سکینڈل جو پاکستانی زراعت کیلیے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔تصور کیا جائے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی گندم برآمد کی گئی ہیاور پاکستانی کسانوں سے گندم خریدنے کی حاجت ہی نہیں رہی,حالانکہ اچھی طرح علم تھا کہ پاکستانی گندم وافر مقدار میں موجود ہوگی.چاہیے تھا کہ کھاد کو سستا کیا جاتا،مگراس طرف دھیان نہیں دیا گیا.اب قرض لینے کے لیے منتیں کی جا رہی ہیں اور سخت شرائط کابھی سامنا ہے۔گندم سکینڈل پر کرپشن کے بھی الزامات لگ رہے ہیں اور ان الزامات کی تحقیق کی جانی چاہییکہ اصل حقائق کیا ہیں؟ اب جو 18 فیصدمزید سیلز ٹیکس لگانے کی شرائط لگائی جارہی ہیں،ان شرائط کو تسلیم کرنا پاکستانی قوم کا کچومر نکالنے کے مترادف ہے.اس پر بس نہیں ہوگابلکہ مزید شرائط لاگو ہوں گی.یہ ٹیکس پاکستانی قوم کو مجبوری کے نام پر برداشت کرنا ہوگا.حکومت اپنی مجبوری کا رونا روئے گی اور عوام کو مجبورااداکرنا پڑے گا.اس کا مطلب ہوگا،مزیدمہنگائی اور یہ مہنگائی حکومت کی ساکھ عوامی حلقوں میں شدید متاثر کر دے گی.معاشی استحکام بہت ہی ضروری ہیاورمہنگائی کرنے سے معاشی استحکام حاصل نہیں ہوتا بلکہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے سے ہوتا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button