کالم

ماں تیری عظمت کو سلام

ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے
ماں اس لفظ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ماں دنیا کا ایک انمول ستارہ ہے، ماں اللہ تعالی کا دیا ہوا ایک انمول تحفہ ہے جس نے اس کی قدر کی وہ بہت سی خوش نصیب انسان ہے جس نے اس کی خدمت کی اس کو جنت نصیب ہے کیونکہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے جس گھر میں ماں ہے، وہ گھر جنت سے کم نہیں اور جس گھر میں ماں نہیں
، وہ گھر قبرستان کی مانند ہے۔ میں اپنی ماں سے بے انتہا محبت کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ ان کا سایہ تاحیات میرے سر پر رہے۔اگر کوئی مصیبت یا کوئی پریشانی آجاتی ہے اگر میں بیمار ہوجاں تو میرا خیال رات بھر جاگ کر رکھتی ہے، میری ماں مجھے اپنے ہاتھ سے کھانا بناکر کھلاتی ہے اور زندگی میں مثالی شخصیت میری ماں ہے اور ہمیشہ میری ماں ہی رہے گی۔ میری ماں میری خواہش پوری کرتی ہے میں جو بھی بولوں وہ سنتی ہے جس گھر میں تعلیم یافتہ تہذیب یافتہ نیک ماں ہے، وہ انسانیت کی درس گاہ ہے۔ بچے کا مستقبل ماں کی گود میں پرورش پاتا ہے،دنیا کا سب سے انمول زیور ہے۔ دنیا کا کوئی رشتہ ماں سے زیادہ پیارا نہیں ماں کا پیار سب سے بہترین اور خوبصورت ہے، اگر تم کوئی بھی فیلڈیا میدان میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو ماں کی خدمت کیا کرو۔
ماں اس کائنات کے سب سے اچھے، سچے اور خوبصورت ترین رشتے کا نام ہے، اللہ تعالی نے اس کائنات میں سب سے خوبصورت چیز تخلیق کی وہ ماں باپ ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا، بالخصوص ماں جیسی ہستی کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہے۔
باپ تو گھر کے باہر کے تمام امور انجام دیتا ہے، باہر کے تمام کام اس کے ذمے ہوتے ہیں۔ وہ صبح کا گیا رات کو گھر لوٹتا ہے، اس پورے عرصے میں صرف ماں کی ذات ہے جو گھر کو سنبھالتی، سنوارتی اور چلاتی ہے۔ وہ گھر کے تمام تر معاملات کی ذمے دار ہوتی ہے، خاص طور پر بچوں کی پرورش، دیکھ بھال، ان کی خوراک، لباس، کھیلنے کودنے کے اوقات مقرر کرنے، گھر میں بہترین نظم و ضبط قائم رکھنے میں اس کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ بچوں کی زبان، گفتگو، لب و لہجہ کو تہذیب یافتہ بنانے میں ایک ماں کا کردار خصوصی طور پر بہت اہم ہوتا ہے۔
ماں گھر کی سلطنت کا ایک اہم اور بنیادی ستون ہے۔ اگر ماں بچوں کو سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے، کھیلنے کودنے، ہوم ورک کرنے کے امور پر توجہ نہ دے تو بچے دیر تک سونے، ہر وقت کھیلنے اور ہوم ورک وقت پر نہ کرنے کے عادی ہونے کے علاوہ بدتمیزی، بدتہذیبی کی جانب مائل ہوجاتے ہیں۔ ماں کی ذات ہے جو چوبیس میں سے اٹھارہ گھنٹے ان کے ساتھ ہوتی ہے، وہ انھیں جھوٹ، سچ، برائی، بھلائی، نیکی، بدی کا فرق سمجھاتی ہے۔ انھیں اللہ، رسول اور قرآن کے احکام سمجھاتی ہے، یاد کراتی رہتی ہے اور ان کا ذہن تیار کرتی ہے کہ وہ اسلام کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں۔
نپولین نے کہا تھا کہ تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں ایک اچھی قوم دوں گا۔
کچھ عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں، پڑھ رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں اور میڈیا ہمیں بتا رہا ہے کہ عالمی سطح پر دنیا میں ہر سال مدرڈے منایا جاتا ہے۔ یہ مغرب کی جانب سے کیا گیا ایک بھونڈا مذاق ہے جو عالمی طور پر مدرڈے کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ مدر ڈے ایک تضحیک ہے، ماں کے مقدس رشتے کی توہین ہے۔ ماں جیسی ہستی جو اتنی اعلی و ارفع ہے جس نے بچے کی پیدائش کے سلسلے میں تکالیف برداشت کیں، جب وہ کچھ کرنے کے قابل نہ تھا، راتوں کو جاگ کر اس کی خدمت کی، چھوٹے سے بڑا کیا، اس کی پرورش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اس کو پروان چڑھانے میں اس کی نگہداشت میں نہ دن کو دن سمجھا، نہ رات کو رات۔ اتنی عظیم ہستی جسے ہم ماں کہتے ہیں اس کے لیے صرف ایک دن، مغرب کا دیا ہوا، بخشا ہوا صرف ایک دن مدرڈے۔
جی ہاں! یہ ایک دن عالمی سطح پر منایا جانے والا مدرڈے اہل مغرب کے لیے تو بہت موزوں ہے کیونکہ وہ ماں کی عظمت کو بھول چکے ہیں جہاں ماں باپ کو ریٹائرڈ کرکے انھیں زندگی کی گہما گہمی سے بھی ریٹائرڈ کرکے ہوسٹلوں اور محتاج خانوں میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں ان کی عظمت، خدمت اور اہمیت کو پس پشت ڈال کر صرف سال کے سال ایک مرتبہ پھولوں کا گلدستہ، جوڑا، فروٹ، چند محبت بھری باتیں، پھر پرفضا مقام کی سیر کروا کے انھیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ آج کا دن صرف آج کا دن، ان کا دن ہے۔ وہاں انھیں ایک مخصوص وظیفہ دے کر عضو معطل بنادیا جاتا ہے پھر یکایک 12 مئی کو نعرہ مدرڈے لگا کر ان سے جھوٹی محبت اور ہمدردی جتائی جاتی ہے ان کی اہمیت اور قدروقیمت کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔
ماں وہ ہستی ہے جس نے ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم ماں پر یہ مضمون سپرد قلم کررہے ہیں۔ اس کے احترام اور وجود کی دھجیاں صرف ایک دن منا کر اڑائی جاتی ہیں۔ ماں کا ادب، احترام، بلند مقام اور درجہ تو صرف ہمارے مذہب اسلام کا دیا ہوا ہے کہ ماں کیسی عظیم اور لائق تحریم شے کا نام ہے۔ مسلمان اولاد کی جانب سے یہ نعرہ اور احساس ہے کہ اے ماں! سال کا ہر دن آپ کا ہے، آپ کے نام پر ہے، ایک دن پر کیا موقوف ہے، ہر دن کا اجالا آپ ہیں۔
رسول اکرم ۖ نے فرمایا، ماں کے پاں تلے جنت ہے۔ حضرت شیخ سعدی نے کہا محبت کی ترجمانی کرنے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف ماں ہے۔ مشہور مفکر اور شاعر علامہ اقبال نے کہا سخت سے سخت دل کو ماں کی پرنم آنکھوں سے موم کیا جاسکتا ہے۔ الطاف حسین حالی نے کہا ماں کی محبت حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
مشہور مغربی دانشور جان ملٹن نے کہا آسمان کا بہترین اور آخری تحفہ ماں ہے۔ اسی طرح شیلے نے کہا دنیا کا کوئی رشتہ ماں سے پیارا نہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دانشوروں اور عالمی شہرت یافتہ شخصیات نے ماں کی عظمت اور بڑائی کا اعتراف کیا ہے۔
اس سال بھی دنیا بھر میں 12 مئی کو مدرز ڈے یعنی ماں کا دن منایا جارہا ہے، آج کے کمرشلائز دور میں مختلف دن کاروباری مقاصد کے تحت منائے جاتے ہیں، چاہے وہ محبت کا دن ہو، ماں باپ کا دن ہو یا دیگر مقدس رشتوں کا، یہ تمام تر دن اقتصادی فوائد حاصل کرنے کے تحت منائے جاتے ہیں۔ لیکن کیا ماں جیسے مقدس رشتے کو محض ایک دن کی یاد پر مقید کیا جاسکتا ہے؟ کیا ماں کی انمول قربانیوں، بے پناہ محبتوں کا صلہ اس ایک دن میں دیا جاسکتا ہے؟ یقینا نہیں۔ مدرز ڈے اغیار کی روایت ہے جہاں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کر کب کا ختم ہوچکا، جہاں رشتوں کا تقدس فنا ہوچکا ہے، جہاں انسان نہیں صرف مشینیں بستی ہیں، وہاں کی روایت ہماری نہیں۔ ہم اس روایت کے پروردہ ہیں جہاں رشتوں کا تقدس سب پر مقدم ہوتا ہے۔ ہمارے لیے سال کا ہر دن ماں کا دن ہے، محبت کا دن ہے، رشتوں کی تعظیم کا دن ہے۔ ہمیں اغیار کی تقلید کی بجائے اپنی روایات، جو حقیقی حسن سے آراستہ ہیں، کا پرچار اس طرح کرنا چاہیے کہ دیگر بھی ہماری پیروی کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button