جو حقائق کا ادراک رکھتے ہیں جو انسانیت کی عظمتوں پر یقین رکھتے ہیں جو اپنے اختیارات کو خدا کی امانت سمجھتے ہیں وہ لوگ جن کا دل شیشے کی طرح شفاف ہوتا ہے جن کا چہرہ کھلی کتاب ہوتا ہے اور جن کا تاثر تسخیر قلوب کا ہنر جانتا ہے وہ لوگ جو تن کی آسودگی سے زیادہ روح کی بالیدگی کو افضل سمجھتے ہیں جو اچھائیوں کا بیج بوتے ہیں اور عزت و محبت کی فصل کاٹتے ہیں وہ لوگ قابل قدر بھی ہوتے ہیں اور قابل ذکر بھی ایسے اچھے لوگوں کا تذکرہ اظہار عقیدت کے زمرے میں بھی اچھے لوگوں کی اچھائیوں کا اچھے الفاظ میں تذکرہ بجائے خود ایک اچھی اچھائی ہے …یہ حقیقت ہے کہ میرے روحانی استاد محترم جناب قمرصاحب سے ملکر یا بات کر کے یا ان کو محسوس کر کے حد سے زیادہ خوشی ملتی ہے اور یہ احساس برسوں تک قائم رہتا ہے پاکستانی قوم کے فخر خلیل الرحمان سحر انگیز شخصیت کے مالک ہیں معروف ڈرامہ رائٹر شاعر ، دانشوری میں بے مثال اور انسانئیت کی قدر کرنے والے خوف خدا رکھنے والے اہک عظیم انسان ہیں ائیں پاکستان میں ڈرامہ کی بات کرتے ہیں ۔ خلیل الرحمن قمر نے بہت سے مشہور ڈرامے لکھے ہیں جن میں بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ ،لنڈا بازار، چاند پور کا چندو، منچلی میں مر گئی ،شوکت علی اور کبھی نہ بھولنے والے ڈرامے کیسے افضل صدقے تمہارے پیار مشہور ہیں مگر ان کا شہرہ افاق ڈرامہ” میرے پاس تم ہو” نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں دھوم مچا کر رکھ دی اس کے علاوہ ان کے خاص ڈراموں میں ذرا یاد کر بھی شامل ہے جو کہ’ ہمـ ٹیلی ویڑن پہ چلا تھا جو لوگ محترم خلیل الرحمان قمر کو قریب سے جانتے ہیں وہ اس بات سے ضرور واقف ہوں گے کہ خلیل الرحمن قمر پیدائشی لکھاری ہیں جو کہ اللہ پاک کی جانب سے انہیں اعزاز عطا کیا گیا خود اگاہی کے ساتھ اس دنیا میں اتے ہی بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہی عہد کر چکے تھے کہ میں نے ایک لکھاری ہی بن کر نام کمانا ہے ان کے والدین کو خلیل الرحمن قمر کے لکھنے پر اعتراض تھا کیونکہ ان کے خیال میں لکھاری کے بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں اس کے ہاتھ میں ایک سائیکل ہوتی ہے اس سائیکل میں ایک تھیلا ہے اور تھیلے میں تہ کیے ہوئے کاغز ہیں تو یہ سب سوچ کر انہوں نے خلیل الرحمن قمر کی مخالفت کی مگر چونکہ خلیل الرحمن قمر عہد کر چکے تھے وہ ایک باکمال رائٹر کی حیثیت سے سرخرو ہوئے اج کے دور میں کسی مصلحت کے بغیر سچ کہنا اسان نہیں ہے مجھے فخر ہے کہ میں نے جناب خلیل الرحمان قمر جیسی شخصیت سے بہت کچھ سیکھا ہے ان کی گفتگو سے ان کی سادگی سے لفظوں سے بہت کچھ سیکھا ہے جناب خلیل خلیل الرحمن قمر کے دل میں جو ہوتا ہے وہ اسے صاف صاف زبان پر لے اتے ہیں اور یہی سچے اور کھڑے انسان کی نشانی ہے ان کو قریب سے جاننے والے برملا یہ کہتے ہیں کہ ہمارا خلیل الرحمن قمر کے ساتھ بہت وقت گزرتا ہے اور ہم نے انہیں کبھی اپنے فائدے کے لیے جھوٹ بولتے ہوئے یا مصلحت سے کام لیتے ہوئے نہیں دیکھا وہ سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ کہنے کی جرات رکھتے ہیں اور کچھ لوگوں کو یہ پسند نہیں ہے کچھ عرصہ قبل جن موضوعات کو لے کر ان پر تنقید کی جا تی رہی اس پر اج تک کوئی بھی دلیل سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں اگر انہیں کسی شعبے سے کوئی بھی شخصیت پسند نہیں ہوگی تو وہ کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے کہ کوئی مجھ سے ناراض ہو جائے گا بلکہ وہ صاف کہہ دیں گے مجھے یہ شخصیت پسند نہیں ہے اسی طرح وہ اداکاروں کی اداکاری کے بارے میں بھی اظہار اظہار خیال کرتے رہتے ہیں کہ اس میں کیا برائی ہے مجھے کسی اداکار یا اداکارہ کا کام پسند نہیں تومیں اس کا اظہار نہیں کر سکتا بحر حال میں توخلیل الرحمن کی تحریروں کا مداح ہوں ان کے مشہور ڈراموں میں ایک چیز بہت ملتی جلتی ہے جب بھی کوئی کردار جلد بازی میں کوئی غلطی کرنے لگتا ہے تو وہ مخالف کردار ایک لائن دہراتا ہے ذرا تھم کے رہو۔میں نے خلیل الرحمن قمر کو بہت بارپڑھا ہے اور بار بار پڑھا ہے وہ ایک جگہ پر لکھتے ہیں کہ میں جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پرست تھا اور غربت کے باوجود کبھی بھی یوزڈ یا لنڈے کے کپڑے نہیں پہنتا تھا ایک بار میرے بابا کو کپڑے کا سوٹ گفٹ ملا تو میں نے ان سے کہا مجھے کوٹ سلوانا ہے تو ابا جی نے اجازت دے دی ہاف سوٹ سے میں نے گول گلے والا کوٹ سلوا دیا جس کا ان دنوں بڑا رواج تھا وہ کوٹ پہن کر میں چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزن نے فٹ سے پوچھا اوئے خیلے کوٹ کتھوں لیا اء میں نے کہا سوایا اے چاچی لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھائی لیکن ان کو اعتبار نہ ایا پھر میں خالہ اور پھوپھی کے گھر گیا تو وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ میں گھر ایا اور کوٹ اتار کر پھینک دیا رونے لگ گیا۔حالات کچھ ایسے تھے کہ کوئی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ خیلہ بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے ۔پڑھنے لکھنے اور جاب کے بعد کچھ عرصہ بعد جب میں بینک کے بورڈ اف ڈائریکٹرز کا ممبر بنا تو بورڈ اف ڈائریکٹرز کی ایک میٹنگ میں اچھے سے ڈرائی کلین کیا ہوا لنڈے کا کورٹ پہن کر گیا کولیگز کوٹ کو ہاتھ لگا کر پوچھنے لگے خلیل صاحب بڑا پیارا کوٹ اے کیہڑی برانڈ دا اے تے کتھو لے ائیا نے کلاتھ سے سٹیچنگ و اہ کمال اے۔۔ میں نے بناکوئی شرم محسوس کرتے ہوے کہا بھای جان لنڈے چو لیا اے ۔لیکن وہ نہ مانے بہت سی قسمیں کھائیں پھر بھی ان کو اعتبار نہ ایا اور اب کی بار میں رونے کی بجائے ہنسنے لگ گیا سچ تو یہ ہے کہ یہ معاشرہ بڑا منافق ہے غریب کے سچ پہ بھی اعتبار نہیں کرتا اور امیر کے جھوٹ پر بھی صداقت کی مہر لگا دیتا ہے ۔اب تھوڑا اگے چلتے ہیں عورت مارچ پہ بہت واویلا مچا . کہ ہم عورتوں کو مرد بتائے گا کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا یہ سوال عورتوں کی ازادی کی علمبردار عورتیں اٹھاتی ہیں عورت مارچ میں ۔ اے عورت تم نے کیا کرنا ہے اور کیا نہہں کرنا ہے تممیں یہ سب رسول محتشم ۖ نے ہی بتایا ہے اور اگر باپ اور شوہر نے بتایا تو کیا جرم کر دیا جناب خلیل الرحمن قمر کے شہرہ افاق پاکستانی ڈرامے میرے پاس تم کو چند عورتوں نے متنازہ بنانے کی کوشش کی اس کا سبب ناشکر گزار عورت کی سرزش ہے انہوں نے اس ڈرامے میں عورت ہی نہیں مرد کی تربیت کرنے کی کوشش بھی کی ہے پاکستان میں دنیا بدل رہی ہے زمانہ بدل رہا ہے مطالعہ کا دور ختم ہو رہا ہے اب سوشل میڈیا اور ڈراموں کا دور ہے تبلیغ کے انداز بھی بدل رہے ہیں بات سمجھا نے پیغام پہنچانے کے لیے وسائل بھی وہی استعمال کرنے پڑتے جن کا رواج ہو پاکستانی ڈرامے اپنی ایک شناخت رکھتے تھے مگر ٹی وی چینلز کی بھرمار میں ڈراموں کا معیار گرنے لگا اس ماحول میں جناب خلیل الرحمن قمر جیسے لکھاری نے ڈرامے کو ایک نئی سمت دی پاکستان سے زیادہ پردیس میں ڈرامے دیکھے جاتے ہیں بیرون ملک پاکستانی اپنا اپنا دل ڈراموں سے بہلاتے ہیں حقائق پر مبنی ڈرامے مقبول ہوتے ہیں مگر جو مقبولیت حال ہی میں میرے پاس تم ہو کو ملی اس نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ڈرامہ رائٹر ڈائریکٹر شاعر خلیل الرحمن کا ریکارڈ توڑ ڈرامہ دو ٹکے کی لڑکی کی لائن کے سبب متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی اور کچھ ٹی وی اینکرز نے ریٹنگ کی لالچ میں تنازعہ کو فساد کی صورت دینے کی کوشش بھی کی لیکن ایسی تمام اوازیں ڈرامہ کی مقبولیت میں دب کر رہ گئی خلیل صاحب نے درست کہاتھا کہ یہ موم بتی والی چند عورتیں پاکستانی عورت کی نمائندہ ہرگز نہیں بلکہ وہ انہی عورت ماننے کے لیے ہی تیار نہیں خلیل الرحمن قمر نے کہا کہ متعصب شخص نہیں کہ ڈرامہ لکھتے وقت مرد عورت میں تفریق رکھتا خلیل الرحمن صاحب فرماتے ہیں کہ میں ہی تو عورت کی عزت و احترام جانتا اور مانتا ہوں مگر ڈرامہ لکھتے وقت مجھے علم نہیں تھا کہ میں کس قسم کی عورتوں کو چھیڑ بیٹھا ہوں مجھے اس ذمہ داری کا احساس اس دن ہوا جس دن مجھے ملک کے سب سے بڑے رائٹر ناصر ادیب صاحب کا فون ایا انہوں نے کہا کہ اب پیچھے نہ ہٹنا یہ وہ کام ہے جو ہم بھی نہیں کر پائے یار تو چھپڑ میں پتھر پھینک چکا ہے چھپڑ میں پتھر پھینکو تو صرف لہریں نہیں اٹھتی بدبو بھی اٹھتی ہے جناب خلیل الرحمن قمر نے کہا کہ میں ایک گنہگار ادمی ہوں جیسا بھی ہوں لیکن بے حیائی کے ایجنڈے پر کسی کو کام نہیں کرنے دوں گا مجھے خدا کی ذات کے سوا کسی سے ڈر نہیں لگتا اس دن ڈر کی چھٹی تھی شاید جس دن مجھے پیدا کیا گیا
0 70 6 minutes read