اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ مارشل لا انفرادی فیصلہ ہے اور فوج بطور ادارہ نافذ نہیں کرتی۔
سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ ریفرنس کی سماعت کر رہا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کی سماعت کے موقع پر چیئرمین پیپلز پارٹی اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سپریم کورٹ پہنچ گئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہماری اصل توجہ آئینی پہلو پر ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تمیزالدین خان کیس میں موقف اختیار کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی کارروائی میں عمل کی درست طریقے سے پیروی کی گئی یا نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہمارا دائرہ اختیار بالکل واضح ہے۔ دو بار نظر ثانی نہیں کی جا سکتی۔ اس معاملے میں ہم لکیر کیسے کھینچیں گے؟ کیا اس معاملے میں تعصب کا سوال ہے یا غلط کام کا اعتراف؟ اس موقع پر عدالتی معاون نے کہا کہ ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ وہ دبا ؤمیں تھا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ میں تعصب کا شکار تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دبا ؤبرداشت نہیں کرسکتا تو بنچ چھوڑ دینا چاہیے۔ ایک شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ کوئی متعصب کا شکار ہے، دوسرا یہ رائے نہیں رکھتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ اب ہم کیسے دروازہ کھول سکتے ہیں، کیا اب ہم آرٹیکل 186 کے تحت فیصلہ کرسکتے ہیں کہ یہ عمل غلط تھا، اس کیس میں ثبوت کیسے ریکارڈ کر سکتے ہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اب ہم انکوائری کر سکتے ہیں؟ جسٹس جمال نے کہا کہ یہ کیس فائنل ہو چکا ہے، کیا ہمیں یہ سوال کسی اپیل میں طے نہیں کرنا چاہیے ؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا ہم اس پہلو کو نظر انداز کر سکتے ہیں کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ درج ہوا تو ملک میں مارشل لا تھا، مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا اپنا مفاد تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس وقت ججز نے بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھایاتھا، عدالتی معاون نے حمایت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ سے آئینی پہلو پر مزید سننا چاہتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا اس کیس میں اختلاف کرنے والوں کو بعد میں ملک نہیں چھوڑنا پڑا؟ جسٹس صفدر شاہ کو ملک چھوڑنا پڑا، کیا پھانسی کے فیصلے سے اختلاف کرنے والوں کا کوئی انٹرویو یا کتاب ہے؟
مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی وی میں جسٹس دراب پٹیل کا انٹرویو ہے، وہ انٹرویو یوٹیوب پر نہیں بلکہ پی ٹی وی کا ہے۔ انہوں نے سہیل وڑائچ کی کتاب کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ اس کتاب میں مختلف ججز کے انٹرویوز جمع کیے گئے ہیں۔ نسیم حسن شاہ نے جسٹس مشتاق اور بھٹو کے درمیان اختلافات پر بات کی۔ وہ سینئر ججز کو نظر انداز کرکے جسٹس اسلم ریاض کو چیف جسٹس بنانے پر ناخوش تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وہ دوسرے ججز کی بات کر رہے ہیں، کوئی ایسی بات بتائیں جس میں انہوں نے بات کی ہو، افتخار احمد کے انٹرویو میں نسیم حسن شاہ نے کیا کہا؟ یہ بات کہاں کہی کہ مجھ پر فیصلے کیلئے دباؤ تھا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ وہ مجموعی تناظر میں اس کیس سے مخصوص نہیں، نسیم حسن شاہ نے کہا کہ مشتاق صاحب کو اس بنچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے تھا، نسیم حسن شاہ نے یہ بھی کہا کہ شک کا فائدہ دیا جا سکتا تھا لیکن ہماری کچھ کمزوری تھی کچھ یحیی بختیار نے ہمیں ناراض کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل پر مدعا ڈالا جا سکتا ہے ۔ اگر ناراض تھے تو کیس کی سماعت روک دیتے یا انصاف کرتے، ہمیں بھی کئی بار ناراض ہو جاتے ہیں، لیکن فیصلہ نہیں پلٹا، وکیل کے طرز عمل کی سزا موکل کو نہیں ملنی چاہیے، کیا یہ واحد کیس ہے جس میں براہ راست ہائی عدالت نے قتل کیس کی سماعت کی۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ رپورٹ ہونے والے کیسز میں ایسا کوئی اور کیس نہیں ہے، ٹھیک ہے، دراب پٹیل نے انٹرویو میں کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دراب پٹیل اس بنچ کا حصہ تھے جس نے بدقسمتی سے متفقہ طور پر نظرثانی کو خارج کردیا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ذوالفقار بھٹو کے وکیل نے سزا میں کمی کے لیے دلائل نہیں دیے اور ججز کو ناراض کیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کیا کوئی جج فوجداری کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر وکیل کو سرزنش کرسکتا ہے؟ بھٹو کے وکلا نے سزا معطلی کی بجائے سزا میں کمی کی استدعا کیوں کی؟
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کیا اپیل میں سزا کم کرنے کی درخواست تھی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل میں سزا کم کرنے کی درخواست بھی ہو تو جج کو انصاف کی فراہمی کو دیکھنا ہوتا ہے۔ کیا پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا کیس تھا جس میں ٹرائل ہائی کورٹ نے اپیل کا حق چھین لیا؟ کیا سزائے موت چار سے تین کے تناسب سے دی جا سکتی ہے؟ میرا خیال ہے کہ ہمیں کیس کے حقائق کو دیکھنا چاہیے، مخدوم صاحب، آپ مارشل لا کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتے، آپ ہمیں صرف جوڈیشل کے بارے میں بتاتے ہیں۔
0 43 4 minutes read