وطن عزیز پاکستان میں عام انتخابات 2024 کی آمد آمد ہے ہر طرف انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہیں امیدوار اپنی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں ۔ بینر اور جھنڈے لگائے جا رہے ہیں جلسے اور جلوس اگرچہ چھوٹے پیمانے پر ہی سہی لیکن کیے جا رہے ہیں۔ سیاست دان آئے روز عوام کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں اور ووٹ کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ کبھی ملاقاتیں، کبھی دعوتیں اور کبھی عوامی تقریبات میں شرکت روز کا معمول بن چکا ہے۔ سیاست دانوں میں عوامی خدمت کا جذبہ بھی بیدار ہو چکا ہے اور ان کے لیے دلوں میں عوام کا درد بھی انگڑائیاں لینے لگا ہے۔ چند روز قبل ایک دوست نے مجھے کہا کہ فلاں شخص جو ہمارے حلقے سے قومی اسمبلی کے لیے امیدوار ہیں ان سے ملنے کے لیے جا رہا ہوں وہ بہت زیادہ فلاحی کام کرتے ہیں ان کے پانی کے ٹینکرز بھی یہاں پر آتے ہیں جو لوگوں کو مفت پانی مہیا کرتے ہیں ۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ یہ ٹینکرز کب سے آ رہے ہیں؟ کچھ مہینے ہو گئے ہیں یا کئی برس سے آرہے ہیں ؟ اس کا جواب تو ان کے پاس نہیں تھا کیونکہ وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ یہ کب سے آ رہے ہیں لیکن میں نے انہیں کہا کہ ایسے وقت میں جب الیکشن کا اعلان کر دیا گیا ہو اور سیاست دانوں کا ارادہ انتخابات میں حصہ لینے کا ہو تو سبھی فلاحی کام کرتے ہیں سبھی عوام کے لیے دلوں میں درد محسوس کرنے لگتے ہیں۔ سبھی کو عوام کی یاد آ جاتی ہے لیکن جیسے ہی یہ منتخب ہوتے ہیں اس کے بعد انہیں عوام بھول جاتے ہیں۔انہیں عوام تبھی یاد آتے ہیں جب انہیں عوام کا ووٹ درکار ہوتا ہے پھر یہ عوام کے پاس جاتے ہیں ان کی منت سماجت کرتے ہیں ان کی بات سنتے ہیں، ان سے فلاحی کاموں کے وعدے کرتے ہیں اور اپنی ہمدردیاں جتاتے ہیں لیکن جیسے ہی انتخابات میں کامیاب ہو جاتے ہیں اس کے بعد یہ عوام کو پانچ سال تک نظر ہی نہیں آتے ۔جو کامیاب ہو جائیں وہ تو اقتدار کے مزے لوٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور جو ناکام ہو جائیں وہ بھی اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں عوام پھر کسی کو یاد نہیں رہتے ۔ پانچ سال تک عوام ان کی شکل نہیں دیکھتے ، اگر ان کے پاس کسی کام سے چلے بھی جائیں تو پہلے تو وقت لینا پڑتا ، ہے کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے پھر اگر ایم این اے، ایم پی اے صاحب کا جی چاہے کہیں سے اپنے ذاتی کاموں سے فراغت حاصل ہو جائے تو تب تو عوام سے ملاقات کر لیتے ہیں لیکن اگر نہ ہو تو پھر عوام کو کون پوچھتا ہے۔ پہلے ان کے ذاتی کام اور بڑے لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں عوام کا نمبر بہت بعد میں آتا ہے۔وہ عوام جو آج ان کے گن گا رہے ہیں ، ان کی شان میں قصیدے پڑھ رہے ہیں ، شریعت کی حدود پامال کر رہے ہیں انہیں ووٹ دینے کے بعد اگلے پانچ سال تک انہیں وعدے پورے نہ کرنے کی وجہ سے برا بھلا کہتے رہتے ہیں جبکہ آپس میں ایک دوسرے کو بلکہ بسا اوقات خود کو بھی غلط شخص کو ووٹ دینے کی وجہ سے کوستے رہتے ہیں۔ خدا خدا کر کے پانچ سال پورے ہوتے ہیں اور دوبارہ انتخابات کا وقت آتا ہے تو یہ سیاستدان پھر ووٹ مانگنے کے لیے ان لوگوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ ایک بار پھر ان سے وعدے کرتے ہیں اور یقین دہانیاں کراتے ہیں کہ اب ہم کامیاب ہوئے تو فلاں فلاں کام ضرور کریں گے ۔ اکثر عوام پھر ان کے دام فریب میںآجاتے اور انہیں ووٹ دے دیتے ہیں لیکن ان دھوکہ باز سیاستدانوں کی تو وعدہ خلافیوں کی عادت ہوتی ہے اور وہ عوام سے بھی اچھی طرح واقف ہو چکے ہوتے ہیں کہ انہیں ہم اپنی چکنی چپڑی باتوں میں پھنسا سکتے ہیں اس لیے اسمبلیوں میں پہنچنے کے بعد وہ پھر پرانی روش اختیار کر لیتے ہیں اور عوام منہ تکتے رہ جاتے ہیں ۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ حلقے کے عوام جب دیکھتے ہیں کہ ہم نے گزشتہ انتخابات میں نااہل ، جھوٹے اور مفاد پرست شخص کو ووٹ دیے تھے جس نے کوئی وعدہ پورا نہیں کیا اور نہ ہی عوامی مسائل میں کچھ دلچسپی لی لہٰذا اس مرتبہ ہم اسے ووٹ نہیں دیں گے بلکہ کسی دوسرے شخص کو ووٹ دیں گے ۔ اب ہوتا یہ ہے کہ وہ اس شخص کو تو ووٹ نہیں دیتے لیکن کسی دوسرے شخص کے وعدے اور دعوے سن کر اسے ووٹ دے دیتے ہیں جو اسی کی طرح بلکہ بسا اوقات سے بھی بڑا کرپٹ اور وعدہ خلاف ہوتا ہے ۔ اب وہ پھر پانچ سال اپنے کیے پر پچھتاتے رہتے ہیں اور شعور کی کمی کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں یہ سلسلہ یونہی چل رہا ہے۔ لہٰذا ووٹ دینے سے قبل خوب سوچ سمجھ لینا چاہیے کہ کیا یہ سیاستدان جو ووٹ کا مطالبہ کر رہا ہے الیکشن سے قبل بھی حلقے میں کہیں نظر آیا ہے ، کیا اس نے پہلے بھی کوئی عوامی فلاحی کام کیے ہیں ، کیا اس نے پہلے بھی لوگوں سے اسی طرح ملاقاتیں کی ہیں جیسے یہ اب کر رہا ہے یا یہ تمام ملاقاتیںاور ہمدردیاں انتخابات کے ایام میں ہی ہو رہی ہیں ۔ اگر صرف انتخابات کے ایام میں ہی سب کچھ ہو رہا ہے تو سمجھ لیں کہ انتخابات کے بعد پھر اس نے حلقے میں کہیں نظر نہیں آنا اس لیے اسے تو ہرگز ووٹ نہیں دینا چاہیے۔ ووٹ صرف اس شخص کو دینا چاہیے جو انتخابات ہی نہیں اس کے علاوہ بھی عوام میں آتا ہو اور عوام کے مسائل سے آگاہ ہو، فصلی بٹیروں سے دور رہنے میں ہی ہماری خیر ہے۔
0 42 4 minutes read