مہنگائی سے تنگ پاکستانی عوام کے لیے ایک اور بری خبر،عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہوئے گیس صارفین کیلئے بل 100سے400روپے تک بڑھانے کی تجویز دے دی۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ذرائع کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ نے تندوروں کیلئے گیس مہنگی کرنے کا مطالبہ کیا ذرائع کے مطابق ڈومیسٹک، فرٹیلائزر، سی این جی اورسیمنٹ سیکٹر کیلئے اگست سے گیس نرخوں میں اضافے کی تیاریاں جاری ہیں۔پروٹیکٹڈ اور نان پروٹیکٹڈ صارفین کیلئے بل سو روپے سے چارسو روپے تک بڑھانیکی تجویز ہے۔عالمی مالیاتی فنڈ کے مشن سے معاشی ٹیم کے گیس سیکٹر کیلئے ٹیرف،گردشی قرضہ اورسیکٹرز کی ریفارمز پر مذاکرات ہوئے، گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ کم کرنے کیلئے تین پلان عالمی مالیاتی فنڈ سے شئیر کیئے ہیں۔مشن کو گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ کم کرنے کیلئے ڈیویڈنڈ اسکیم پر بھی بات چیت کی گئی، ریکوریوں اصلاحات اور ٹیرف سے متعلق ڈیٹا آئی ایم ایف کو بروقت شیئر کرنے پربھی اتفاق ہوا ہے۔اس سے قبل حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف شرائط کے تحت پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ، بجلی کے نرخ بڑھانے، اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے تنخواہ دار طبقے اور انڈسٹری پر ٹیکس کی شرح بڑھانے اور کچھ دوسری شرائط پر عمل کیا۔حکومت نے اس پروگرام کو مکمل کرنے کے لیے بہت کچھ کیا لیکن پاکستان میں جاری معاشی بحران اور مہنگائی کے عام آدمی کی زندگی پر اثرات کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی۔آئی ایم ایف پیکج کے لیے پاکستانی حکام سر تسلیم خم مذاکرات میں مصروف ہیں۔بقول شاعر
مہنگائی کا اب آیا ہے طوفان یقیناً
توڑے ہیں حکمرانوں نے پیمان یقیناً
قارئین کرام!پاکستان کی آئی ایم ایف پروگرام میں شمولیت نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی تک 22 پروگرام ہوئے اور پہلا پروگرام دسمبر 1958 میں طے پایا جس کے تحت پاکستان کو ڈھائی کروڑ ڈالر دینے کا معاہدہ طے پایا۔صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے تین پروگرام ہوئے۔وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی حکومت کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے چار پروگرام ہوئے۔ڈکٹیڑ جنرل ضیاالحق کے دور میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شرکت کی۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور اقتدار میں پاکستان آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شامل ہوا۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پہلی حکومت میں ایک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان نے شمولیت اختیار کی۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے تین پروگراموں میں شامل ہوا تو نواز شریف کی دوسری وزارت عظمیٰ میں پاکستان نے دو آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت اختیار کی۔سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں دو آئی ایم ایف پروگرام ہوئے، پی پی پی کی 2008 سے 2013 میں بننے والی حکومت میں ایک پروگرام، نواز شریف کے تیسرے دور2013 سے 2018 میں حکومت میں ایک پروگرام اور پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ایک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان شامل ہوا جو تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد شہباز شریف کی حکومت نے جاری رکھا۔ آئی ایم ایف کے پاس اس وقت جانے کی ضرورت پیش آتی ہے جب پاکستان کو بیلنس آف پیمنٹ یعنی ادائیگیوں میں عدم توازن کے بحران کا سامنا ہوا۔جب بھی ملکی درآمدات زیادہ ہوئیں بیلنس آف پیمنٹ کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اس کے لیے آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا۔پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جب بھی گیا تو اس پر آئی ایم ایف کو الزا م نہیں دیا جا سکتا کیونکہ بحران کے ذمہ دار ہم تھے۔2008سے 2013تک پاکستان میں برآمدات میں اضافہ ہوا لیکن میاں نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ رہا۔مہنگی بجلی اور بظاہر نمائشی پروجیکٹس پر توجہ رہی۔ڈالر کو منصوعی طریقہ سے مستحکم کرنے کی اسحاق ڈار کی پالیسی نے مشکلات بڑھائیں۔عمران خان برسراقتدار آئے تو آئی ایم اہف جانے پر خود کشی کرنے جیسے جذباتی بیانات سے معیشت کا بیڑا غرق کردیا اور بالآخر آئی ایم ایف ہی جانا پڑا۔اس سیاسی بیان بازی اور اقتدار کی رسہ کشی سے عام آدمی کا وہ حال ہوگیا کہ وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہے۔بروقت اصلاحات نہیں ہوئیں۔ اگراصلاحات کی جاتیں صنعتی شعبے کی ترقی کے ساتھ زراعت میں ترقی پر توجہ دی جاتی اور ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ کرتے جو ہم نے نہیں کیا تو حالات مختلف ہوتے۔آج پاکستان کے اخراجات زیادہ رہے اور اس لحاظ سے ہم آمدن نہ بڑھا سکے۔2013 میں پاکستان کوآئی ایم ایف پروگرام میں جانے کی ضرورت نہ تھی۔ اس وقت ملک کا بیرونی خسارہ 2.50 ارب ڈالر تھا جسے دوسرے ذرائع جیسے کہ بیرونی سرمایہ کاری سے پورا کیا جا سکتا تھا۔ملکی معیشت کے اس نہج پر پہنچنے میں اسحاق ڈار کی پالیسیاں اور مسلم لیگ (ن) کا نمائشی ترقی کابیانیہ اور سیاسی کردار بہت اہم ہے۔اس کے بعد آئی ایم ایف شرائط پوری نہ کرنا اور سیاسی غیر یقینی بھی اہم عوامل کے طور شامل ہیں۔
طویل مدتی آئی ایم ایف پروگرام کا نقصان یہ بھی ہوا کہ ہماری خود مختاری ختم ہو گئی اور ہم معاشی فیصلے کرنے میں خود مختار نہ رہے۔آج آئی ایم ایف کے مطالبات ماننے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں۔آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ مہنگائی ایک لازمی جزو ہے۔آئی ایم ایف پروگرام کا سارا بوجھ عام آدمی پر ہے حکومت اپنے اخراجات کم کرنے پر تیار نہیں۔بہت افسوس کی بات ہے پنجاب میں رمضان راشن بیگ پر میاں نواز شریف کی تصویر لگائی گئی۔اس تشہیر پر سرکاری وسائل استعمال کیے گے یہ بظاہر معمولی بات لگتی ہے لیکن موجودہ حکمرانوں کی سوچ کی مکمل عکاس ہے۔یہ صرف عام آدمی پر بوجھ ڈالیں گے اور خود سیاست میں عوام پر بوجھ بن کر موجود رہیں گے۔ آئی ایم ایف براہ راست عام آدمی پر بوجھ ڈالنے کا نہیں کہتا وہ حکومت سے وسائل میں اضافہ کا مطالبہ کرتا ہے۔حکمران بااختیار ہیں وہ غریب پر بوجھ ڈالنے کا آسان راستہ پسند اورقبول کرتے ہیں۔ڈائریکٹ ٹیکس لگا کر ریونیو اکٹھا کرنا کوئی کمال نہیں ہے۔ اس کے بجائے اگر مختلف شعبوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے اور پیداوار پر ٹیکس لگایا جائے تو ترقی کی رفتار بڑھ سکتی ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہورہا۔براہ راست ٹیکسوں پر ہی زور دیا جا رہا ہے اور جب تک یہ زور دیا جاتا رہے گا’ ظاہر ہے عوام کے ہاتھ میں کچھ نہیں آنے والا۔زراعت واحد شعبہ ہے جہاں مثبت شرح نمود ہے لیکن کسان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔کسان سراپا احتجاج ہیں حکومت اپنی من مانی کرنے میں آزاد ہے۔ملکی معیشت برباد، عام آدمی بد حال ہے حکمران آئی ایم ایف کے مطالبات کی بنیاد پر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے پر شرمسار بھی نہیں۔حکومتی اخراجات میں کمی ہوگی نہ ٹیکس نیٹ ورک بڑھانے کا ہدف حاصل ہوگا۔جب تک عوام سڑکوں پر نہیں آتے حکمران راہ راست پر نہیں آئیں گے۔
0 44 5 minutes read