کالم

اخلاقی پستی کی شکار نئی نسل

قارئین!مذہب اور روایات کے مطابق زمانے کو برا بھلا کہنا ممنوع ہے،لیکن دل پر جب Catharsisہو تو ایک حساس آدمی جب تک اس کو باہر نہ نکال دے ،لیکن زمانے کو دوش نہ دے تو یہ معاشرے کی بہتری کے لئے اکثر اوقات اچھا ثابت ہوتا ہے۔میں بھی زمانے سے شکوے نہیں کرتا مجھے اقبال کے شاہینوں اور اپنے نوجونواں سے کچھ شکوے ہیں ،جو مجھے ذہنی اذیت میں مبتلا کئے ہوئے ہیں کہ میں ان کو قلم و قرطاس پر تحریر کروں اور اگر میں نے ایسا نہ کیا تو میرے اندر کی گھٹن ختم نہیں ہو پائے گی۔ اس لئے میرے نوجوان ساتھی میری تحریر کو مثبت پہلو سے پڑھیں اسے قطعی منفی انداز میں نہ لیں اور آخر میں نتیجہ اخذ کریں کہ کیا میری باتوں میں سچائی کا عنصر موجود ہے یا نہیں۔دوستو! ایک زمانہ ہوا کرتا تھا جب بچے بڑے باادب اور بااِخلاق ہوا کرتے تھے ۔والدین کااحترام فرضِ عین سمجھ کر کرتے تھے۔اساتذہ ء کرام کے سامنے کلمہ گوئی سے کتراتے تھے۔بڑے اور بزرگوں کے سامنے نئی نویلی دُلہن کی طرح شرما شرما کر باتیں کرتے تھے۔ کھانے پینے کے معاملے میں سادہ ترین اور ذودہضم غذائیں استعمال کرتے تھے۔ نماز اور روزہ کے پابند اور احکام خداوندی کو بجا لانا اپنے ایمان کا حصہسمجھتے تھے۔ قارئین محترم ! آ پ سوچ رہے ہوں گے میں بڑے دقیانوسی اور فنڈا مینٹلیسٹ(بنیاد پرست) (Fundamentalist) خیالات کا مالک ہوں ۔میں پرانے جذبات ، خیالات اور نقشِ کہن کا پیرو ہوں ۔ میرے اندر بوڑھی روح حلول کر چکی ہے۔ لیکن محترم ایسی کوئی بات نہیں میں بھی آج کل کے نوجوانوں کی طرح ہر اُس کام کو باعث ِ فخر و اعزاز سمجھتا ہوں جو چاہے قابلِ شرم وقابل مزمت ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے کھانے پینے میں فاسٹ فوڈ پسند ہے میرے دادا اور پردادا مکئی کی روٹی، لسی،اچاراور چٹنی کے ساتھ بڑے مزے سے ڈنر اور لنچ کیا کرتے تھے۔ناشتہ اُن کی پہنچ سے باہر تھا۔ دیسی گھی اور چکی کے آٹیکو روٹی کو بڑے شغف سے کھاتے تھے۔ اسی سال کی عمر میں صحت کی بہترین حالت میں تھے۔ قوت حافظہ بلا کا تھا۔ اُن کا نظام انہضام آج کی ملاوٹ شدہ غذائوں اور فاسٹ فوڈز کے نام پر بِکنے والے گند بلا کی وجہ سے کبھی بھی خراب نہیں ہوا۔ وہ کبھی بھی کسی سخت بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے ۔ اُن کو نہ ہی گولڈ لیف اچھا لگتا تھااورنہ ہی وہ ملبرو اور بینسن سے شغف فرماتے تھے۔ ہاں کبھی کبھار حقے کے فلڑ شدہ چند کش بطور نشہ نہیں بلکہ بطور فیشن استعمال کر لیتے تھے۔ میں آج بھی اپنے ماضی پر نظر دوڑاتا ہوں تو اپنے ا سلاف کے کارہائے نمایاںکو دیکھتا ہوں تو میں حیران ہوجاتا ہوں کہ ہم اُنہی کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں یا ہمارے اندر مغربیت کی بدبو زدہ اور باسی ہوا کیوں تحلیل ہو گئی ہے؟آج کانوجوان رات گئے تک جاگتا ہے میوزک، فلمیں، ڈرامے اور تھیٹراسکا دل پسند مشغلہ ہے ،فیس بک ،ویٹس ایپ ،ٹک ٹاک اور انٹر نیٹ پر جب سے چارجی سروسز کا آغاذ ہوا تو دنیا تو اسے بڑے بڑے اور مثبت کاموںکے لئے استعمال کر رہی ہے لیکن بدقسمتی سے مجھ سمیت اس ملک کے سبھی جوان رات گئے تک وہ وہ کچھ دیکھتے ہیں جو اگر میں تفصیل سے لکھوں تو یقینا اس پر ایڈیٹر صاحب سنسر لگا دیں گے۔ روڈز کے اوپر موٹربائیکز پر (wheeling)کرنا ان کا فیشن ہے ۔ سکن ٹائیٹ اور مغرب زدہ لباس ہی نہیں بلکہ مغرب کی گندی سوچ ہم سب کی ذہینیت کا حصہ بن چکی ہے۔ ہمیں مغرب کی ہوا اچھی لگتی ہے۔ ہمیں مغرب کافیشن اچھا لگتا ہے۔ ہمیں مغرب کے کھانے اچھے لگتے ہیں ۔ ہمیں مغرب کی تہذیب اچھی لگتی ہے۔ ہمیں مغرب کی سیلن زدہ اور آلودہ تہذیب نے یو ں اپنی لپیپٹ میں لے لیا ہے کہ ہم کسی قسم کی تخلیق کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ صبح دیر سے اُٹھنا ، صوم وصلوٰة کی پرواہ نہ کرنا ، سگریٹ بطور مشغلہ پینا اور حتیٰ کے ڈرگ کا استعمال کرنا بھی ہمارے نوجوانوں کی "خاصیت”ہے۔ قارئین محترم ! مجھے مغرب سے کوئی شکوہ نہیں مجھے اپنے اُن شاہینوں سے شکایت ہے جو کہ مشرق کی پاک وصاف فضا کو چھوڑ کر مغرب کی گٹرزدہ ہوائوں کو پسند کرتے ہیں۔ مجھے اپنے اُن عقابوںسے شکایت ہے جو کہ آسمان کی بلندیوں پہ اُڑنے کے بجائے زمین پر رینگ رہے ہیں ۔ مجھے اُن شیروں سے شکوہ ہے جو اپنا شکار خود کرنے کے بجائے مردار پر گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔ قارئین ! ایسی کیاوجہ ہے کہ ہم میں وہ کوئی خوبی نہیں جس کی وجہ سے ہم دُنیامیں قابل احترام گردانے جائیں ۔ جس کی وجہ سے دُنیا کی نظروں میں ہم کو باعث فخر سمجھا جائے ۔ ہم میں و ہ خوبیاں کیوں مفقود ہورہی ہیں جو ہماری وراثت میں تھی ۔قارئین !میں اپنے مستقبل کے نوجوان سے معذرت کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ بہت مایوس ہوں ۔ اگرچہ ہم چاہیں تو ہم ہروہ چیز حاصل کرسکتے ہیں جو ہماری عزت وحرمت کے لیے باعث عقیدتاوراحترام ہو۔ ہمارے مزاج اتنے بدل چُکے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ خدانخواستہ ہم کُچھ حاصل کرنے کے بجائے سب کُچھ کھو نہ دیں ۔ قارئین ! دُکھ اس بات کا ہے کہ ہماری روایات میں قرآن وسنت کی روشنی میں اپنی نئی نسل کی تربیت پر زور دینا شامل تھا۔ لیکن ہماری زندگیوں سے یہ چیزیں حرفِ غلط کی طرح مٹ چکی ہیں۔ہم قرآن کو نہ اپنا شعار بناتے ہیںاور نہ سنت کو اپنا عقیدہ ۔ اس صورت حال میں کیا ہماری کامیابی کے کوئی امکانات ہیں؟ ہم صرف اور صرف اُس ماحول کے شیدائی ہیں جس سے اہل ِ مغرب خود بھی خائف ہیں۔ قرآن پاک اگر ہم پڑھیں بھی تو یا مردوں کو بخشوانے کے لئے یا پھر ثواب کی نیت سے پڑھتے ہیں۔یہ بھی کوئی قابل اعتراض بات نہیں لیکن ڈاکٹر اسرار احمد کے بقول اگر ہم ماسٹرز یا پی ایچ ڈی بھی کر لیں اور قرآن پاک کو اس کے اصل مقصد سے ہٹ کر صرف ناظرہ پڑھیں اور اس کا ترجمہ نہ سمجھیں تو یہ گناہ کے ضمرے میں آتا ہے، ویسے بھی قرآن انسان کی راہنمائی کے لئے خدا نی نبی اطہرۖ پر نازل کیا جب کہ ہم نجانے کس اصول کے تحت یٰسین صبح پڑھتے ہیں تا کہ دن اچھا گزرے،سورہ واقع مغرب کو اس لئے پڑھتے ہیں کی رزق میں ااضافہ ہو،سرہ ملک اس لئے پڑھتے ہیں کہ قبر میں اندھیرا نہ ہو۔ حیرت ہے کہ یہ سب کس کی تعلیمات ہیں؟نہ صحابہ کرام کی نہ محمد عربیۖ ک پھر ہم کس کی سنت دہرا رہے ہیں۔ قرآن پڑھنے سے ثواب سے میں انکار نہیں کرتا لیکن اگر ثواب کے کام ہی کرنے ہیں تو کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیں،کسی سفید پوش کو کپڑے خرید کر دے دیں،کسی ٹھنڈ لگنے والے جسم کو گرم کپڑے مہیا کر دیں،کسی مریض کا علاج کروا دیں،کسی غریب طالب علم کی فیس یا کتابیں خرید دیں۔قارئین محترم! مغرب میں جب والدین بوڑے ہو جائیں تو بوجھ بن جاتے ہیں اُنہیں اُولڈ ہائوسز میں رکھ دیا جاتا ہے جب کہ حدیث شریف ہے کہ” ہلاکت ہو ایسے شخص پر جس کے ماں اور باپ دونوں یا کوئی ایک بڑھاپے کی عمر میں ہوں اور وہ اُن کی خدمت کے عوض جنت نہ حاصل نہ کرسکیں” قرآن میں ماں کی فضیلت میں یہ بھی لکھا ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔قارئین! مغرب میں 70فیصد آبادی کا پتہ ہی نہیں کہ وہ کس کی اولاد ہے؟اُن کے باپ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے (D N A )ٹسٹ کروائے جاتے ہیں۔ کیا ہمارا معاشرہ اچھا ہے یا مغرب کا مجھے اپنی رائے سے آگاہ کیجئے گا۔ خدا ہمیں مغرب کے تعفن سے ، گھٹن زدہ معاشرہ سے اور بدبو دار معاشرے سے محفوظ رکھے۔امین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button