کالم

عمران خان کاآئی ایم ایف کو خط لکھنے کافیصلہ درست یا غلط۔؟

تاریخی اعتبار سے آئی ایم ایف کا قیام 1944 میں ہوا تھا جبکہ پاکستان 11 جولائی 1950 میں آئی ایم ایف کا رکن بنا تھا،وہ دن ہے اور آج کا دن پاکستان آج تک اس مالیاتی ادارے کے سامنے جھولی پھیلائے کھڑا ہے خاص طورپر اس ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے ادوارمیں خوب قرضہ لیااور ملک کا بال بال قرضے میں جکڑدیاہے پاکستان میں حال ہی میں عام انتخابات مکمل ہوئے ہیں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان حکومت سازی کے لیے بات چیت کا عمل بھی مکمل ہوچکاہے یعنی ایک بارپھرسے پی ڈی ایم پارٹ ٹوحکومت بننے جارہی ہے۔ ایسے میں جوں ہی وفاق میں حکومت کی تشکیل مکمل ہو گی، نئی وفاقی حکومت کو نئے مالی معاہدے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا، یہ ہی وجہ ہیکہ پاکستان کے لیے اقتصادی بحران کا خطرہ بدستور موجود اور ہروقت سرپرمنڈلاتارہتاہے۔ دیکھاجائے تو پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر اس وقت تقریباً 8 ارب ڈالر ہیں جو اس کی بمشکل دو ماہ کی درآمدی ضروریات پوری کر سکتے ہیں، یہ صورت حال ایک سال پہلے کے مقابلے میں بہتر ہے یا غلط یہ ایک الگ بات یے مگرایک سال قبل پاکستان کے پاس لگ بھگ 3 ارب ڈالر تھے،پاکستان کو دو ماہ میں ایک ارب ڈالر کے بانڈز کی ادائیگی کرنی ہے جس سے اس کے زرمبادلہ کے ذخائر مزید کم ہو جائیں گے،پاکستان پر قرضوں کا بوجھ اس کی مجموعی قومی پیدوار کے 70 فی صد سے زیادہ ہے، آئی ایم ایف اور کریڈٹ ریٹنگ اداروں کا تخمینہ ہے کہ پاکستان کو اپنی آمدنی کا 50 سے 60 فی صد حصہ قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ کرنا ہو گا یعنی پاکستان اس لحاظ سے ہرقرض پچھلاقرض اتارنے اورحکمران زاتی عیاشیوں کی نظرکردیتے ہیں۔سود کی یہ ادائیگی دنیا کی کسی بھی بڑی معیشت کے لیے بدترین شرح ہے،پاکستان پر قرضوں کا بوجھ ٹیکسوں اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں زبردست کمی کے ساتھ افراط زر کی شکل میں متاثر کر رہا ہے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے ملنے والے قرضے حکمرانوں کی عیاشیوں پر خرچ ہو رہے ہیں اور ان قرضوں کی وجہ سے ملک میں آنے والا مہنگائی کا عذاب غریب، مزدور طبقہ کو برداشت کرنا پڑرہا ہے اور یہاں پیداہونے والا بچہ بھی لاکھوں روپے کامقروض ہوتاہے۔ ابھی حال ہی میں حکومت نے ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے رکشہ ڈرائیوروں اورمزدوروں کا معاشی قتل کیا ہے اوراس پر جان لیوا مہنگائی نے غریب عوام کا بھر کس پہلے سے ہی نکال رکھا ہے۔ عوامی مسائل اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ غریب اور عام آدمی نہ جی سکتا ہے اور نہ مر سکتا ہے پاکستان کی حکومت آئی ایم ایف سے ایک بار قرض لے لیتی ہیں وہ سود کو ختم کرنے کے لیئے دوبارہ قرض لیتی ہیں جبکہ اصل قرض وہیں کا وہیں ہوتا ہے اور یہ سود واپس کرنے کے لیئے قرضے لیتی رہتی ہیں جس سے ان پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا رہتا ہے، پھر رفتہ رفتہ آئی ایم ایف اپنی شرائط عائد کرنا شروع کردیتا ہے اور سخت سے سخت شرائط پر قرضہ دیتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ ریاست کے اندرونی معاملات میں بھی مداخلت شروع کردیتا ہے۔ آئی ایم ایف حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے اور ریاستوں کے اندر اپنی مرضی کی قانون سازی کروانے کی کوشش کرتا ہے، جس سے غریب ریاست کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے یہ ہی وجہ پاکستان ہمیشہ سے ہی اپنی سلامتی اور خودمختاری کارونا روتارہتاہے جس کی زمہ داری سراسرنااہل حکومتوں اور ان کے سربراہوں پرعائد ہوتی ہے جن کے پاس قرض کی ادائیگی کاکوئی فارمولہ نہیں ہوتا اورنہ ہی کوئی ایسامنصوبہ جس کی مددسے پاکستان اپنے پیروں پرکھڑاہوکریہ ساراقرض اتارسکے۔ اسے بھیانک منظرنامے کو دیکھتے ہوئے کوئی انکوروکے توکہاجاتاہے کہ وہ شخص ملک کاغدار ہے حال ہی میں سابق وزیراعظم عمران خان جو کہ جیل میں ہیں ان کو یہ فکرلاحق ہوگئی کہ یہ قرضہ لے تو لینگے مگریہ قرض اتاریں گے کس طرح اسی وجہ سے عمران خان نے آئی ایم کو خط لکھنے کافیصلہ کیا اور ساتھ ہی انتخابی دھاندلی کازکر بھی کیا۔ دوسری طرف پی ڈی ایم پارٹ ٹو کی حکومت ہمیشہ کی طرح آئی ایم ایف کے سامنے سر جھکا کر اس کی تمام شرائط ماننے پر پہلے سے ہی مجبور ہے۔ ملک کا یہ حال ہے کہ ایک غریب شخص جو پندرہ سے بیس ہزار روپے تنخواہ لے کر اپنی جیب سے اپنے گھر کا کرایہ بھی دیتا ہے، پٹرول کے اخراجات بھی پورے کرتا ہے، اسے کوئی ٹی اے ڈی اے نہیں ملتا، سرکاری ملازم ہوں یا پرائیویٹ لیکن انہیں آنے جانے کے اخراجات نہیں دیے جاتے۔ یہ تو موٹے موٹے اخراجات ہیں، اس کے علاوہ جو کچھ انہیں ملتا ہے عام شہری ان کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ پاکستان بھی انہی ممالک میں سے ایک ہے جو آئی ایم ایف سے قرض لے کر اپنی آزادی، خودمختاری اور سلامتی داؤ پر لگا چکا ہے ہمیں بھی آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے اور معاشی مضبوطی کے لیے کام کرنا ہوگا قرضوں کے اس بوجھ نے ہمارے ملک کو ان ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے، جنہیں حالیہ کچھ عرصے کے دوران اپنے واجبات کی ادائیگی کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر سری لنکا، ارجنٹائن اور کئی افریکی ممالک شامل ہیں۔ اس بحران سے نکلنے کے لیئے قومی سطح پر بچت ضروری ہے اور ساتھ پلاننگ کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ ہر بار ملک قرضوں سے نہیں چلے گا۔ یہ حکمران جو بے چین ہو کر آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں، ان کے گھروں اور زاتی اکاونٹس کی تلاشی لی جائے تو اربوں ڈالرز ان کے گھروں سے ہی برآمد ہوجائیں گے، ان کے بینک لاکرز کی تلاشی لی جائے تو وہاں سے بہت کچھ ملے گا، پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے واضح کیا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو خط لکھنے سے پاکستان کے قومی مفادات کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ یہ ملک کے مفاد میں ہو گا۔ عمران خان نے آئی ایم ایف کو خط لکھے جانے کی تصدیق کی ہے اور اڈیالا جیل کے کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا آئی ایم ایف کو خط لکھ دیا ہے، آج خط چلا گیا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسے حالات میں ملک کو قرضہ ملا تو قرضے کو واپس کون کرے گا، اس قرض سے غربت بڑھے گی، جب تک سرمایہ کاری نہ ہو قرض بڑھتا چلا جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے اور گزشتہ روز پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر علی ظفر نے کہا تھا کہ عمران خان آئی ایم ایف کو خط میں لکھیں گے کہ اگر آئی ایم ایف نے پاکستان سے کوئی بات چیت کرنی ہے تو پہلے وہ یہ شرط واضح کر دے کہ جن حلقوں میں دھاندلی ہوئی، ان میں آڈٹ ہو۔ کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چھٹہ نے عام انتخابات 2024 میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ عام انتخابات 2024 میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں اور انہوں نے اپنے بیان میں خوفناک انکشافات بھی کیئے ہیں یہ اوربات ہے کہ لتر پریڈ کے بعد وہ اپنابیان بدلنے پرمجبورہوگئے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button