
ضمنی الیکشن اپریل 2024 کے نتائج نے عام انتخابات کے نتائج کو بھی جسٹیفائی کر دیا ہے۔ عمران نیازی کی واپسی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ وہ جن غیر تربیت یافتہ کارکنوں پر تکیہ کیے ہوئے تھا وہ ریس کے گھوڑے تھے ہیں نہیں بلکہ شاید تانگے میں جوتنے کے قابل بھی نہیں تھے۔ اِس ضمنی الیکشن نے ماضی میں باجوہ اور فیض کی سرپرستی میں ہونے والے ضمنی الیکشن کی ہنڈیا بھی بیچ چوراہے میں پھوڑ دی ہے۔ میں نے بہت پہلے یہ لکھ دیا تھا کہ وہ اپنا اصل کام کر چکا ہے یعنی اداروں کو مشکوک بنانا اور اِس کیلئے اس نے ہر وہ حرکت کی ہے جس سے پاکستان کو نقصان پہنچ سکے۔ کشمیر ہمارے ہاتھوں سے تا حال نکلا ہوا ہے، سعودی فرمانروا کی ناراضی الگ سے مول لی، ساڑھے تین سال سی پیک بند رکھ کر بد ترین ملک دشمنی کا ثبوت دیا، اقتدار سے نکلتے ہی پہلے پاکستان کی سلامتی کے اداروں کے خلاف بدترین پروپیگنڈا کیا، امریکہ پر رجیم چینج کا الزام اور بعد ازاں اس سے انحراف، زمان پارک کو علاقہ غیر بنا دیا جہاں ریاستی اداروں کو بھی داخلے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی، پختون نوجوانوں سے پولیس اور رینجر پر حملے کرائے اور آخر میں 9 مئی جس نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ عمران نیازی اپنی گرفتاری سے پہلے اپنی الیکشن کمپین مکمل کر چکا تھا، جس میں اس نے بیک وقت اسلامی ٹچ، امریکی مخالفت اور اسٹیبلشمنٹ مخالف تینوں بکنے والے بیانیے استعمال کیے جب کہ بطور وزیر اعظم وہ اسٹیلبشمنٹ کی اجازت کے بغیر سانس بھی نہیں لیتا تھا۔ جنرل الیکشن کے بعد عمران نیازی کے جھوٹ کا پول کھلنا ہی تھا اور اب ضمنی الیکشن کے نتائج اِس کا زندہ ثبوت ہیں۔ جس نسل کو اس نے پاگل بنایا تھا اس کی یادداشت واپس آنا شروع ہو گئی ہے۔21 اپریل کے ضمنی انتخاب سے پہلے برادرم عبد العلیم خان نے اپنے پارٹی آفس لاہور میں استحکام پاکستان پارٹی کے ورکروں، یونین کونسلز کے نمائندوں اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایک بڑی میٹنگ کی۔ عبد العلیم خان کے بارے میں، میں نے ہمیشہ لکھا ہے کہ وہ غصے میں بھی ہو تو ان کا چہرے مسکراتا رہتا ہے۔ اللہ نے اسے ایسا ہی بنایا ہے، عبد العلیم خان کی اس دن کی تقریر میں ایک افسوس تھا، ایسا افسوس جو باپ کو بیٹے پر ہوتا ہے، وہ کسی سے ووٹ نہیں مانگ رہا تھا بلکہ پیار کے بدلے میں احترام کا طلب گار تھا، اس کی پر اثر تقریر انتہائی کارگر ثابت ہوئی اور وہ دوست اخباب جو اس سے پہلے سستی کا مظاہرہ کر رہے تھے، یک دم نئے جذبے کے ساتھ میدان عمل میں کود پڑے۔رمضان کے آخری عشرے میں برادرم شعیب صدیقی کی جانب سے دی گئی دعوتِ افطار میں ان سے ملاقات ہوئی۔ افطار سے پہلے الیکشن پی پی 149 کے حوالے سے گفتگو ہوئی تو میں نے بالکل صاف شفاف انداز میں کہا کہ پی ٹی آئی کا ورکر اِس بار الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنے اس انداز سے نہیں نکلے گا جس طرح فروری کے الیکشن میں نکلا تھا اور اس کی دو سائنٹیفک وجوہات ہیں۔ اول تربیت یافتہ سیاسی ورکر کبھی مایوس نہیں ہوتا وہ نیا رستہ نکالتا ہے جب کہ غیر تربیت یافتہ سپورٹر جلد مایوس ہو جاتا ہے۔ دوئم اس بار آپ کا مخالف امیدوار جیل سے باہر ہے اور اسے الیکشن ضروریات پر پیسا خرچ کرنے کی عادت نہیں کہ میاں محمود الرشید جیسے کرپٹ انسان کی شاگردی میں بچہ کیا سیکھ سکتا ہے۔ فروری کے الیکشن میں پاکستان کے ہر حلقہ میں عمران نیازی اپنے پروپیگنڈا کی بدولت خود کھڑا تھا مقامی امیدوار تو عمران نیازی کے الیکشن کی امامت کر رہا تھا۔ عمران نیازی کی اعلی ترین خوبی یہ ہے کہ وہ قریبی ساتھیوں سے جھوٹ بولنے اور وعدہ کر کے مکرنے میں فخر محسوس کرتا ہے اور اِس کیلئے مجھے کسی گواہ کی ضرورت ہے اور نہ کوئی ثبوت درکار ہے کیونکہ اِس حوالے سے میں خود سب سے معتبر شہادتی ہوں۔ شعیب صدیقی نے غیر سرکاری نتائج کے مطابق 47722 ووٹ حاصل کیے جبکہ سنی اتحادکونسل کے امیدوار صرف 26200 ووٹ حاصل کر سکے جو ان کے گزشتہ الیکشن کا تقریبا نصف ہی بنتا ہے اور ایسا صرف پی پی 149 میں نہیں ہوا پاکستان بھر سے ایسے ہی نتائج آئے ہیں۔ لاہور کے بارہ دروازوں سے الیکشن لڑنے والا سیالکوٹ کا رہائشی بھی بدترین شکست کھا گیا۔ شعیب کو اپنے مخالف پر سب سے بڑی برتری یہی تھی کہ وہ مقامی تھا جب کہ اس کے مخالف امیدوار کا تعلق سمن آباد سے تھا اور وہ لوگوں کو یہی کہتا پھر رہا تھا کہ اس بار میرے مقابلے پر عبد العلیم خان نہیں، میں یہ الیکشن آسانی سے جیت لوں گا لیکن اسے یہ علم نہیں تھا کہ شعیب صدیقی ایک بہترین منتظم اور انتہائی محنتی سیاسی ورکر ہے۔ وہ مختلف گروپس کے ماڈل بنانے میں ایکسپرٹ ہے جس سے کسی سے بھی ناراضی کا خطرہ نہیں رہتا لیکن ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ جمہوری سیاست میں سو فیصد لوگ ہمارے ساتھ ہوں گے۔ تمام تر وسائل کے باوجود شعیب صدیقی کی محنت اور انتھک جدو جہد نے اسے یہ الیکشن جتوا دیا۔ جب اس کے مخالفین گھروں میں سو رہے ہوتے تھے وہ اس وقت بھی اپنے حلقے میں کسی نہ کسی کے دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے۔ شعیب صدیقی کا اِس حلقہ میں اثر و رسوخ ہے کیونکہ عبد العلیم خان کے ہر الیکشن کی کمپین بھی وہی مینج کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ عبد العلیم خان فائونڈیشن کے پلیٹ فارم سے کیا گیا سارا کام بھی انہیں کے کھاتے میں پڑا۔ کمپین میں عبد العلیم خان کے فرزند پیش پیش رہے جنہوں نے اپنے والد کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔یہ الیکشن عام آدمی کی جیت ہے، اب یہ حلقہ لاوارث نہیں ہو گا اور سنی اتحاد کونسل کا امیدوار اگلے پانچ سال تو یہاں نظر نہیں آتا اور مرکز میں بیٹھے سنی اتحاد کے جیتے ہوئے امیدوار تو عمران نیازی کی موجودگی میں کسی کا کام نہیں کرتے تھے اب تو وہ خود اپوزیشن میں ہیں، ایک ایسی اپوزیشن جو عمران نیازی کی حماقتوں کو بڑھاوا دے رہی ہے اور اہم بات یہ ہے کہ یہ تعداد میں دو چار نہیں بیسیوں ہیں۔ میں اِس سلسلہ میں پی ٹی آئی کے ان دوستوں کا شکر گزار ہوں جنہوںنے یا تو اپنا ووٹ شعیب صدیقی کے حق میں کاسٹ کیا یا پھر ووٹ کاسٹ ہی نہیں کیا۔ ساہواڑی سے حاجی پرویز، گھوڑے شاہ سے ندیم خان، بہادرا، واسیع بھورا، ندیم مغل، عثمان کاہلوں برادران اور اِن دوستوں کی وساطت سے ملنے والے بہت سے دوست۔ اب الیکشن ختم ہو چکا ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ شعیب صدیقی اِس حلقہ میں دن رات ایک کرے گا تاکہ آئندہ کسی آئوٹ سائیڈر کو کسی کے کہنے پر جعلی خدمت کا لیبل لگا کر میدان میں آنے کی جرات نہ ہو۔ عمران نیازی کی کہانی اختتام کو بڑھ رہی ہے اور ہم اِس عروج و زوال کے چشم دیدگواہ ہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ جیسا سوچا تھا ویسا ہی ہو رہا ہے۔ جیسا عمران نیازی کو بتایا تھا وہ ویسا ہی بھگت رہا ہے اور ابھی مزید بھگتے گا۔ خدا جانتا ہے کہ مجھے عمران نیازی سے کوئی بغض یا عداوت نہیں، صرف اس کے محسن کش ہونے پر اعتراض ہے اور یہ اعتراض کسی بھی شخص کو ریجیکٹ کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ عبد العلیم خان سے احترام کا رشتہ ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ شاید یہ اچھے لوگوں کی آخری نسل ہے اِس کے بعد آنے والی نسل ہمارے گھروں میں پل رہی ہے اور وہ کتنی مادیت پرست ہے ابھی سے دیکھ کر خوف آ رہا ہے۔ بروز جمعہ شعیب صدیقی کی ریلی کے اختتام پر مجھے بدترین ڈی ہائی ڈپریشن ہو گئی اور میں گھر سے سیدھا ہسپتال پہنچ گیا۔ تاحال زیر علاج ہوں لیکن شعیب صدیقی کی فتح کے جشن میں شامل نہ ہونے کا افسوس عمر بھر رہے گا۔