کالم

زرداری صاحب میاں صاحب

قارئین!سیاست بھی عجب تماشہ ہے ،وہی جو کبھی ایک دوسرے سے علیک سلیک بھی نہیں کر رہے ہوتے ،ذاتی مفادات کی خاطر آگ اور پانی کے مثل صدرمملکت اور وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان بن چکے ہیں۔اس سے یہ تو صاف ظاہر ہے کہ اقتدار کی کرسی کی خاطر ہمارے نیک نیت اور عوام دوست حکمران اگر نریندر مودی سے بھی اتحاد کر لیں تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہ ہو گی۔پاکستان میں تقریبا ہر الیکشن میں دھاندلی،نا جائز ذرائع اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے کوئی انکار نہیں کر سکتا،لیکن اس دفعہ کے الیکشن میں اس بے وقوفانہ انداز میں دھاندلی کی گئی کہ عام آدمی تک کو علم ہو گیا کہ یہاں حکومتیں بنانے اور گرانے میں مرکزی حیثیت کس کو حاصل ہے۔ 2018ء میں قوم کے ایک ہیرو کو جو کہ سیاست کی الف ،ب سے بھی واقف نہیں تھے ،لیکن اپنے دور کے عظیم کھلاڑی تھے ،ان کو زبردستی وزارت عظمیٰ کی کرسی جھگے میں عطا کی گئی،لیکن ممی ڈیڈی لوگوں کی اکثریت کی وجہ سے وہ عوام میں اتنے مقبول ہو گئے کہ جیل کے اندر رہتے ہوئے اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی کے باوجود نہ صرف ساری کی ساری سیاسی جماعتوں کو دن میں تارے دکھا گئے اور King Makersکو بھی اندازہ نہ ہو سکا کہ جو لوگ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی باریوں سے تنگ ہیں وہ اس کا Responseاتنا شدید دے سکتے ہیں۔یوں تو صدر مملکت جناب آصف علی زرداری اور وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے حسب سابق اپنی سیاسی بقاء اور اس بڑھاپے کی عمر میں جیل میں سڑنے سے بہتر سمجھا کہ اقتدار کی بندر بانٹ کر لی جائے تو اسی میں عافیت ہے،لیکن ایک مرتبہ پھر غریب عوام کی قسمت کو ایک ایسی جمہوریت کے سپرد کر دیا گیا ہے جس کا نبھائو مشکل ہی نظر آ رہا ہے۔قارئین! آپ سب ماشاء اللہ اب اتنے معاملات سے تو آگاہ ہیں کہ جناب صدر مملکت کی ترجیحات اور محترم وزیر اعظم پاکستان کی Prefrencesکبھی بھی میچ نہیں کر سکتی۔صدر مملکت تو الیکشن کے فوری بعد اڈیالہ جیل میں کپتان سے ملاقات کے لئے بھی پہنچ گئے تھے ،وہ ویسے بھی ڈرائنگ روم کی سیاست اپنے نا معلوم دوستوں کی شہ پر کرنے کے ماہر ہیں،جب کہ دوسری جانب وزیر اعظم صاحب بھی سیاسی شطرنج کے ماہر کھلاڑی ہیں،لیکن میرے اپنے اندازے کے مطابق ایک صوبے کا حکمران ہونا اور وہ بھی ایسی صورتحال میں جب بڑا بھائی وزیر اعظم ہو تو اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوتا جبکہ پورے پاکستان کی حکمرانی جناب سابق وزیر اعظم عمران خان،سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی کی اور ان کے انجام سے بھی اگر میاں شہباز شریف صاحب خوف زدہ نہیں ہوئے تو یقیننا اس بات کی داد دینا تو بنتی ہے کہ وہ دلیر اور بہادر انسان ہیں۔ پھر بھی میرے تجزیے کے مطابق اگر میاں صاحب صدر مملکت کے وار سے بچ گئے(جو نا ممکن لگتا ہے) تو ان کا نجام خاکم بدہن سابق وزرائے اعظم کی طرح کا ہو سکتا ہے۔یہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ وطن عزیز کے حکمران طبقے میں ابھی کوئی بھی ایسا نہیں جو ذاتی مفاد پر وطن اور عوامی مفادات کو ترجیح دے۔ادھر بڑے میاں صاحب جو لندن سے ویسٹ کوٹ سلوا کر لائے تھے کہ وزارت عظمیٰ چوتھی بار ان کی گود میں آ کر گرے گی لیکن جب ایسا نہ ہوا تو,, بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی ،،کے مترادف انہوں نے محترمہ مریم نواز صاحبہ کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا قلمدان سونپے جانے کی خواہش کا اظہار کیا جسے سب سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات نے اس لئے خوشی خوشی قبول کر لیا کہ گزشتہ پندرہ سالوں سے وہ بڑے میاں صاحب کا گول مٹول چہرہ دیکھ دیکھ کر اکتا گئے تھے،اب کیا مخالفین اور کیا حامی سب جب محترمہ مریم نواز صاحبہ کا تر و تازہ چہرہ دیکھیں گے تو تعمیر و ترقی اگر ستہتر سالوں میں نہیں ہوئی تو کیا ہوا ،کچھ لمحوں کے لئے مریم نواز صاحبہ کا چہرہ غریب اور سسکتی ہوئی عوام کے لئے مرہم کا کام تو سر انجام دے گا۔اس لئے محترمہ مریم نواز کے لئے مفت مشورہ یہ ہے کہ وہ بھی حسب روایت پرانے سیاستدانوں کی طرح تعمیر و ترقی،شرح خواندگی اور ملک کی معاشی اور اقتصادی صورتحال کے لئے پریشان نہ ہوں بس صبح ،دوپہر اور شام استحصال شدہ عوام کو مسکراتے ہوئے تسلی دے دیا کریں،یہی ان کے لئے کافی ہو گا۔جہاں تک صدرمملکت کا تعلق ہے وہ انتہاء درجے کے منجھے ہوئے سیاست کے کھلاڑی ہیں ہاں یہ الگ بات ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے انہیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا ،لیکن اللہ بی بی کی روح کو اعلٰی علیین میں جگہ دے ان کی شائد یہ سب سے بڑی غلطی تھی کہ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے قومی اسمبلی کا ٹکٹ زرداری صاحب کو نہ دے کر خود کو غلط ثابت کیا ،کیونکہ اگر وہ ٹکٹ کے اہل نہیں تھے تو دوسری مرتبہ صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کیسے بنے؟اب بھی صدر مملکت نے وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف صاحب کو مانیٹر کرنے کے لئے خورد بینی جائزے کا انتظام کر رکھا ہے۔وہ اس بات کے انتظار میں ہیں کہ کب میاں صاحب غلطی کریں گے اور یاد رکھیں میاں شہباز شریف غلطی لازمی کریں گے کیونکہ ان کی فطرت کا لا ابالی پن ان سے غلطی کروائے گا۔۔۔پھر جو صدر مملکت نے اپنی شست(اسمبلی کی نہیں) بلکہ وار کرنے کی ،جس میں انہوں نے شہباز شریف صاحب کو عین نشانے پر تاک کر رکھا ہوا ہے ،اپنے کاری وار سے اسمبلیاں دھڑام کر دیں گے۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے جن صاحبان کو اعتراض ہے تو جمہوریت کے اس دور میں جب پیپلز پارٹی کے صدر مملکت اور مسلم لیگ ن کے وزیر اعظم پاکستان ہیں ۔۔تو میں کیا بلا ہوں جو کہ با لکل درست تجزیہ کر سکوں،ہر ایک کو حق ہے کہ وہ اپنی اپنی رائے موجودہ غیر فطری اتحاد پر قائم ہونے والی حکومت پر لب کشائی کرے۔قارئین! چونکہ صدر مملکت کی چار آنکھیں اور چار کان ہیں ،اس لئے میاں شہباز شریف صاحب کو ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہو گا ورنہ شاید دو چار سال میں,, بلاول بھٹو زرداری،،اس قابل ہو سکتے ہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا عنان اقتدار سنبھال پائیں۔ میرے تحریر کرنے کا یہ مقصد قطعی نہیں کہ ,,بلاول بھٹو زرداری،، آج اس قابل نہیں کہ وزیر اعظم نہ بن سکیں ۔لیکن دو تین سال بعد ان میں مزید پختگی آ جائے گی اور ویسے بھی ان کی والدہ ماجدہ,,محترمہ بی بی،، اور ان کے نا نا محترم,,چئیرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو،،اعلیٰ درجے کی سیاسی بصیرت رکھتے تھے،اس حساب سے بلاول بھٹو صاحب میں بھی Geneticallyسیاسی جراثیم موجود ہیں،جو انہیں وزارت عظمیٰ کی کرسی دلوا سکتے ہیں۔ لیکن اس بات سے چھوٹے میاں صاحب اور وزیر اعظم پاکستان قطعی مت گھبرائیں،کیونکہ پیپلز پارٹی کے چئیر مین تو آج بھی بلاول صاحب ہی ہیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button