کالم

خرافات وفضول روایات میں کھو امت مسلمہ اوراس کی بیداری

امت مسلمہ پر کڑاوقت ہے۔کشمیرکے مسلمان اذیت کی چکی میں پس رہے ہیں۔فلسطین میں مسلمانوں پرآگ اور بارود کی بارش ہو رہی ہے۔افغانستان اورعراق ابھی تک نہیں سنبھل سکے بلکہ جنگی حالت میں ہیں۔تمام اسلامی ممالک میں مسلمان پس رہے ہیں۔مسلمان اپنی بقا کے لییسخت جدوجہد کر رہے ہیں۔بظاہرجہاں جنگ نہیں ہورہی،وہاں دہشت گردی کا بازارگرم ہے۔اس امت کے وہ افراد جنہوں نے دنیا کی امامت کرنی تھی،وہ رنگ رنگ رلیوں میں کھو چکے ہیں۔ایک وقت تھا امت مسلمہ کے مجاہدین جہاد کو پسند کرتے تھے اور مجاہدانہ زندگی گزارناان کا مقصد حیات تھا۔ظلم جہاں بھی دیکھتیتو ظلم کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد شروع کر دیتے۔اسلام کا وہ کتنا سنہری دور تھا،جب مسلمان دن کو گھوڑوں کی پشت پرسوار ہو کر جہاد کرتے اور رات کواللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے۔اب ان مجاہدین کی نسلیں فضول روایات میں کھو چکی ہیں۔اغیاران پرحکمرانی کر رہے ہیں۔آج کل کیمسلمانوں کا مقصد حیات،دنیاوی عیش و عشرت بن چکا ہے۔عشرت کدے تیار کیے جا رہے ہیں اورمکاتب ویران کیے جا رہے ہیں۔تحقیق کا میدان خالی ہو چکا ہے۔کھیل تماشہ حکمرانوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔قرآن کو سینے سے لگانے اوراس پرعمل کرنے کی بجائے دوسروں سے مقاصد زندگی سیکھیجا رہے ہیں۔قرآن کو پرانی کتاب کہہ کرجدیدت اور روشن خیالی کے نام پرعجیب قسم کی تعلیمات کو اپنے اوپر لاگو کیا جا رہا ہے۔قرآنی حکم کے مطابق اسلحہ اکٹھا کرنا تھا،مگرکلب اورجوئے خانے تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ امت مسلمہ نااتفاقی کا شکار ہو چکی ہے۔اسلام نے ایک عظیم رشتے میں امت مسلمہ کو پرویاتھا،مگر اب نااتفاقی نے دوریاں پیدا کر دی ہیں۔قرآن کے پارہ نمبر 26،آیت نمبر 10 میں ہے،مسلمان مسلمان بھائی ہیںاسلام نے پیارا رشتہ دے کراخوت کا رشتہ پیدا کر دیا تھا۔تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی صورت عطا کی تھی مگراب صورتحال یہ ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے۔وہ مسلمان جو ظلم برداشت ہی نہیں کر سکتاتھا،اب دوسرے مسلمان پر خود ظلم کر رہا ہے یا ظالموں کا ساتھ دے رہا ہے۔تاریخ میں شایداتنا تلخ وقت مسلمانوں پر نہ گزرا ہوجتنا اب گزر رہا ہے۔ماضی میں اگر کہیں کسی جگہ مسلمانوں پر ظلم ہوتا توعالم اسلام سیاس کیلیے مددپہنچ جاتی۔دنیا دیکھ رہی ہے کہ فلسطین میں ظلم ہو رہا ہے۔ایک تہذیب مٹائی جا رہی ہے۔فلسطینی مسلمانوں کونسل کشی کاسامناہے۔ظالم ان کے معصوم بچوں کو بھی صفحہ ہستی سے مٹا رہے ہیں۔کشمیر بھی سلگ رہا ہے۔کشمیری مسلمانوں کو بنیادی حقوق نہیں مل رہے بلکہ وہ قیدیوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔کشمیر ان کے لیے ایک جیل بن چکا ہے۔مدد تو چھوڑیے،ان کے لیےآواز تک نہیں اٹھائی جاتی۔
جن علاقوں میں جنگی صورتحال ہے،وہاں تو ظلم و جبرہو رہا ہیمگر ان ریاستوں میں بھی ظلم وجبر ہو رہا ہے جو بظاہرآزاد ہیں۔ظاہری دعوی توآزاد ہونے کا ہے،مگر وہاں بھی غلامی بڑی قوت سے موجود ہے۔امت مسلمہ کے لیے معاشی پالان دوسرے بناتے ہیں۔تیل سے لے کر گیس تک،سونا سے لے کرتمام قیمتی دھاتوں کے علاوہ بہت سے خزانے تو اسلامی علاقوں میں پائے جاتے ہیں لیکن ان سے فائدہ دوسرے اٹھاتے ہیں۔مسلمانوں کے وسائل انہی پراستعمال نہیں ہوتے بلکہ دوسرے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔امت مسلمہ کوتعلیم اور تحقیق سے دور رکھا جا رہا ہے۔غور و فکر کی بجائے خرافات میں الجھایا جا رہا ہے۔کہیں فرقوں کے نام پردہشت گردی کروائی جا رہی ہے،کہیں رنگ کی بنیاد پرمسلمانوں کوآپس میں برسر پیکار کیا جا رہا ہے،کہیں علاقائی حدود کی وجہ سے نفرت کا بیج بویا جا رہا ہے،کہیں لسانی تعصب کا زور ہے اور کہیں اعلی وادنی کا راگ الاپاجارہا ہے۔تحقیقی ادارے قائم کرنا تو دور کی بات ہے،بنیادی تعلیم بھی سے بھی محرومی پائی جاتی ہے۔مسلمان ممالک میں تعلیم کی کمی نے غربت میں اضافہ کیا ہے۔صرف پاکستان میں کروڑوں بچیتعلیم سے دور ہیں۔کچھ بچے اگرتعلیم شروع بھی کردیں توپرائمری لیول تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔تعلیم جو مسلمانوں کا ورثہ تھی،اب بیکار چیز سمجھ کر اس سے منہ موڑاجارہا ہے۔توہم پرستی کو ترجیح دی جا رہی ہے اور قران و حدیث کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔
امت مسلمہ کوبیدار ہونا ہوگا۔ماضی کی طرح پھر عروج حاصل ہو سکتا ہے۔نام نہاد ترانوں اور گانوں کی بجائے قرآن و سنت کے دل بہارنغمے سنانے ہوں گے۔قرآن کی پیروی کرنی ہوگی۔جو مسلمان قوت رکھتے ہیں،فوری طور پر مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے اٹھیں۔امت مسلمہ کواپنی خامیوں کا ادراک کرنا ہوگا اور اپنی خودی کو پہچاننا ہوگا۔خرافات اور فضول روایات امت مسلمہ کو نقصان پہنچا رہی ہیں لہذا ان سیاجتناب ضروری ہے۔فضول قسم کی روایات میں کھو کرامت مسلمہ زوال کا شکار ہو چکی ہے۔کلب بنانے کی بجائے اسلحہ اکٹھا کرناضروری ہے۔ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ دوسروں پرچڑھائی کر دی جائے،بلکہ حقیقی ظالموں کا ہاتھ پکڑنا ہوگا۔فلسطین اور کشمیری مسلمان مدد کے لیے امت مسلمہ کے حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں،ان کو مایوس نہیں کرنا چاہیے بلکہ آگے بڑھ کر ان کا ساتھ دینا ضروری ہے۔امت مسلمہ کے وسائل مسلمانوں اور انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کرنے چاہیے۔امت مسلمہ جتنی جلدی بیدار ہو سکتی ہے اتنا ہی فائدہ مند ہے۔ٹیکنالوجی،اسلحہ اورتحقیقی ادارے بنانے کے ساتھ مضبوط فوج بھی ضروری ہے۔دوسروں کا فلسفہ اپنانے سے اسلام کا نظام بہتررہنمائی کر سکتاہے۔
خرافات وروایات میں پھنسی ہوئی امت مسلمہ کو بیدار ہونا ہوگا۔اللہ تعالی کا بھی اصول ہے کہ کوئی قوم اگر اپنے حالات نہ بدلنا چاہے تو اللہ تعالی بھی نہیں بدلتا۔قرآن حکیم میں ہے،بے شک اللہ تعالی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا،جب تک وہ اپنےآپ کو نہ بدلے(سور۔رعد.11)امت مسلمہ کی پسماندگی کی یہی وجہ ہے کہ اس کو خیال نہیں آتا کہ اپنی حالت بدلنے کی کوشش کرے۔جدوجہدکرنی ہوگی۔امت مسلمہ کا اتفاق اس کو بلندیوں تک پہنچا سکتا ہے۔مسلمانوں کا اتفاق دنیا میں ایک عظیم معاشرہ قائم کر سکتا ہے۔نا اتفاقی نے امت مسلمہ کوغلامی کی زندگی عطا کر رکھی ہے۔یہ نہیں کہ کوئی غیر مسلم دنیا میں نہ رہے بلکہ اپنے عقیدے اور مرضی کے مطابق رہ سکتا ہے۔اسلام انسانیت کی فلاح کا درس دیتا ہے۔اسلام جتنا حق مسلمان کواپنی زندگی گزارنے کا دیتا ہے اتنا حق اسلام نے غیر مسلموں کو بھی دیا ہے۔قران حکیم کی آیت ہیدین میں جبرنہیں(البقرہ۔256)کسی کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا جا سکتا،غیر مسلم بھی اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزار سکتا ہے۔مسلمانوں کی زندگیوں کو اجیرن کرنے والوں کومنہ توڑ جواب دینا چاہیے۔امت مسلمہ کی بیداری ضروری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button