کالم

"بجلی کیبل”

بجلی کی بل دیکھ کر عام آدمی کی جان نکل جاتی ہے۔عام آدمی جوکئی قسم کی پریشانیوں میں جکڑا ہوا ہے،مہنگی بجلی اورگیس نے اس کوپریشانیوں کی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔آئی۔ایم۔ایف کو خوش کرنے کے لییہر قسم کی اشیا پر بے تحاشہ ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔تیل کی مصنوعات بھی روز بروزمہنگی ہوتی جا رہی ہیں اور بجلی کی قیمتوں میں بیحساب اضافہ عوام کی تکالیف میں اضافہ کر رہا ہے۔موجودہ حکمرانوں نے دعوے کیے تھے کہ 200 سے لے کر 300 یونٹ بجلی فری دی جائے گی،فری دینے کی بجائیبجلی سے محروم کرنے کا عمل جاری ہے۔یہ بات درست ہے کہ 200 سے 300 یونٹ بجلی فری دینے کا اعلان کسی نے سنجیدگی سے لیا ہی نہ تھا،فری دے کربھی انہوں نے کون سا اپنی جیب سے ادا کرنا تھابلکہ عوام کا اپنا ہی پیسہ ہوتا۔اب بجلی مہنگی کر کے یہ پیغام دیا جا رہا ہیکہ وہ ہمارے سیاسی اعلانات تھے۔کم از کم اتنا تو کرنا چاہیے تھا کہ ان سیاسی اعلانات کی کچھ تو لاج رکھی جاتی،بجلی کو مہنگا کرنے کے لییکچھ عرصہ صبر کر لیا جاتا مگرفوری طور پر اضافہ کر لیا گیا۔یہ اضافہ رکنے والا بھی نہیں بلکہ مزیدجاری رہیگا۔ایک عام آدمی جو بڑی مشکل سیگزر بسر کر رہا ہے،ایک بھاری امانٹ کا بل اس کے چھکے چھڑانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ایک دفعہ رقم شو ہونے کے بعدادائیگی لازمی ہو جاتی ہے،بصورت دیگر بجلی کا کنکشن کاٹ کر میٹر بھی اتار لیا جاتا ہے۔عام آدمی اسی پریشانی کے پیش نظربل ادا کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔بعض اوقات قرض لے کر ادائیگی کرنا پڑتی ہیاور کہیں یہ بھی سننے میں آجاتا ہے کہ زیورات اور گھر کی چیزیں بیچ کر بل کی ادائیگی کی گئی ہے۔ایک کرائے کے گھر میں رہنے والا فردبجلی کا بل ادا کرنے سیاس لیے بھی قاصر ہوتا ہے کہ اس کی آمدنی اتنی نہیں ہوتی کہ بل کی ادائیگی کر کے اپنی گزر بسر کر سکے۔فرض کریں ایک عام آدمی کی تنخواہ 20 ہزار سے لے کر 25 ہزار تک ہے،مکان کا کرایہ 8 ہزار کے قریب ہے،اس خاندان میں دو بچے بھی ہیں،اب اگر اس کا بل اٹھارہ ہزار سیبیس ہزار تک آجائیتو وہ اب کیسے گزارا کرے گا؟بچوں کی فیسیں اور دیگر ضروریات کیسے پوری ہوں گی؟اب اس شخص کا اندازہ لگایا جائے جو دیہاڑی دار ہیاور بڑی مشکل سے پانچ سات سو روپیروزانہ کماتا ہینیز کبھی اس کو روزگار ملتا ہے اور کبھی نہیں ملتا،ان حالات میں وہ دس ہزار روپیکابل بھی ادا کرنے سیقاصر ہوگا۔یہ وجوہات عام آدمی کو مجبور کر رہی ہیں کہ وہ سڑکوں پر نکلیاور بلوں کی ادائیگی سیانکار کر دے۔
پاکستانی قوم کو بتایا جاتا ہیکہ آئیایمایف مجبور کر رہا ہے کہ مہنگائی میں اضافہ کیا جائے۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ تمام تر مہنگائی کا بوجھ عام عوام کو اٹھانا پڑتا ہیاورحکمران طبقہ اپنی مراعات اور الاونسز میں کمی کیوں نہیں کرتا؟اراکین اسمبلی کوفی کلومیٹر کے حساب سے ٹیاے/ڈیاے دیا جاتا ہے،دیگر مراعات سے بھی بے تحاشہ نوازا جاتا ہے۔اس کے علاوہ کئی دوسرے افراد ہیں جو ملکی خزانے پر بوجھ ہیں،مگر ان کی مراعات میں کوئی کٹوتی نہیں کی جاتی اور سارا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔طبقہ امرا کو لاکھوں یونٹ فری دے کرغریب عوام سیرقم وصول کر لی جاتی ہے۔لائین لاسزاور چوری شدہ بجلی کی ادائیگی بھی پاکستانی عوام کو کرنا پڑتی ہے،اس کے علاوہ قسم،قسم کے ٹیکسز لگا کربجلی کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔بجلی کی قیمتیں ٹیکسٹائلزپر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں بلکہ تمام صنعتیں متاثر ہو رہی ہیں،جس کی وجہ سیروزگار کے مواقع کم یا ختم ہو رہے ہیں۔انڈسٹریز کی بندش سیبیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔پہلے بھی غربت زیادہ ہے اور بے روزگاری مزید غربت کا سبب بنے گی۔اے۔سی کمروں اوردفاترمیں بیٹھ کربجٹ اور معاشی پالیسیاں بنانے والے کس طرح جان سکتے ہیں کہ ایک عام آدمی کی مشکلات کیا ہیں اور کس طرح اپنی زندگی کاسلسلہ برقرار رکھے ہوئے ہے؟ماہ جون میں آنے والے بجلی کیبل زیادہ لگ رہے ہیں لیکن اگلے ماہ زیادہ آئیں گے،کیونکہ گرمی کی شدت مجبور کرتی ہے کہ پنکھے چلائیجائیں۔اس کے علاوہ یونٹوں کی سلیبز میں تقسیم مزیدظالمانہ اقدام ہے۔سلیبز کی تقسیم کی وجہ سے ایک یونٹ بھی مقررہ حد سے بڑھ جائے تو ہزاروں روپے کا بل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔سلیبزکی تقسیم کی بجائے یونٹ کا حساب لگایا جائیاورفی یونٹ ریٹ لگائے جائیں تاکہ عام آدمی بھی آسانی سے بل ادا کر سکے۔بجلی مہنگی کرنے کی بجائے اراکین اسمبلی کے الانسز اور تنخواہوں میں کٹوتی کی جائیاورخصوصی مراعات جو ناجائز طور پر دی جا رہی ہیں،ان ناجائز مراعات کا خاتمہ کیا جائے چاہے کوئی بھی ان سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
بجلی کی مہنگائی صرف صنعتی شعبہ کوہٹ نہیں کر رہی بلکہ زراعت بھی اس کے نشانے پر ہے۔بجلی کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے احتجاج بھی ہو رہے ہیں،مگر ان احتجاجوں اور مظاہروں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔مہنگی بجلی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ مہنگے فیول سے بجلی بنائی جاتی ہے۔حکومت متبادل سستے ذرائع استعمال کیوں نہیں کرتی جس سیسستی بجلی حاصل ہو۔فوری طور پرعام آدمی کی پریشانی کوحکومت سمجھے۔ایک عام آدمی اس بات سے سخت پریشان ہے کہ آنے والے مہینوں میں بجلی کے بل کی ادائیگی کیسے کرے گا؟آئی۔ایم.ایف کا بہانہ بنا کرجان نہ چھڑائی جائیبلکہ بجلی سمیت تمام اشیا کنٹرولڈریٹ پر دستیاب ہونی چاہیے۔بجلی کا بل ایک ایسا دشمن بن چکا ہے،جس سے کروڑوں افرادخوفزدہ ہیں۔پاکستانی عوام کو بھی زندگی گزارنے کا موقع ملنا چاہیے۔حکومت کی طرف سے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ مہنگائی کنٹرول ہو چکی ہے،مگرحقائق کچھ اور ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان بھی سو موٹو ایکشن لے سکتی ہے۔سپریم کورٹ سو موٹو ایکشن لے کرحکومت اوربجلی بنانیوالی کمپنیوں کو پابند کرے کہ ناجائز ٹیکسز ختم کر دیے جائیں۔ایک رپورٹ کے مطابق 10 جولائی سیقبل آئی۔ایم۔ایف نیمزید ٹیکسز کا مطالبہ کیا ہے۔بات 10 جولائی تک نہیں رکے گی بلکہ مزید کا حکم دیا جائے گا۔یہ بات واضح ہے کہ آئی۔ایم۔ ایف نہیں چاہے گا کہ پاکستان معاشی لحاظ سے استحکام پکڑے۔مستحکم پاکستان آئی۔ایم۔ایف کیمفاد میں نہیں ہے۔اس بات کی ہر ممکن کوشش کی جائے کہ بجلی کی قیمتیں کم ہوں۔بجلی کیجان لیوا بل عام آدمی کی پریشانی میں اضافہ کر رہے ہیں۔بجلی کے بلوں کے ادائیگی مشکل ہوچکی ہے،فوری طور پرکم از کم اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button