
چور پارلیمنٹ ہائوس بھی پہنچ گئے ویسے تو ہمارے ملک میں اتنے چور نہیں ہیں جتنے منشیات استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد ہے اگر دیکھا جائے تو چور اور نشئی کا آپس میںچولی دامن کا ساتھ ہوتاہے اور ان دونوں قسم کے وارداتیوں کی ہمارے ملک میں تعداد بھی تقریبا برابر برابر ہیں ویسے تو اس وقت ہمارے سبھی ادارے وارداتوں میں ملوث ہیں کوئی چھپ کر اپنی واردات ڈال رہا ہے تو کوئی ببانگ دہل لوٹ مار میں مصروف ہے کسی ادارے کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ انہوں نے کرنا کیا ہے ہماری پولیس کا تو اللہ ہی حافظ ہے جو مظلوموں پرتو ایسے چڑھ دوڑتی ہے جیسے ملک کا کباڑہ ہی ان لوگوں نے کیا ہولاہور سمیت بہت سے مقامات پر اتوار کو ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں اور الیکشن کمیشن کو اتنا بھی خیال نہیں کہ وہ ملازمین بلخصوص خواتین ٹیچرز کی ڈیوٹی انکے گھروں کے قریب لگاتے ابھی پچھلے جنرل الیکشن میں میں نے بہت سی خواتین ٹیچرز کو الیکشن ڈیوٹی کے بعدرات گئے گائوں میں رہائشی لوگوں کے گھروں کے کنڈے کھڑکاتے دیکھا اس رات موبائل سروس بھی بند تھی اور الیکشن ڈیوٹی والی خواتین اپنے گھر والوں سے رابطے میں بھی نہ آسکی الیکشن والی رات وہ خواتین ملازمین سکون سے گذار سکی نہ ہی انکے گھر والے اپنے گھروں میں سو سکے اور اس بار بھی الیکشن کمیشن نے بے سرے انداز میں خواتین ٹیچرز کی ڈیوٹیاں لاہور کی ایک نکر سے دوسری نکر میں لگا دی جو بپلک ٹرانسپورٹ پر کافی کھجل خواری کے بعد اپنے پولنگ اسٹیشن پہنچتی ہیں اور اوپر سے ان ٹیچرز کی عرصہ 15سال سے ترقی بھی نہیں ہورہی جو جس سکیل میں بھرتی ہوئی وہ اپنی آدھی سروس گذارنے کے باوجود ایک سکیل ترقی بھی نہ حاصل کرسکی اور رہی سہی کسر الیکشن کمیشن سمیت دوسرے ادارے پوری کررہے ہیں ہماری پولیس معصوم اور سادہ لوح شہریوں پر تشدد کرنے ان پر مقدمے درج کرنے اور پھرجیلوں میں بند کرنے سمیت چلتی ٹرین سے بھی دھکا دیکر مارسکتی ہماری جیلوں میں اس وقت آدھے سے زیادہ قیدی اور حوالاتی منشیات کے کیس میں بند ہیں ان سے کم تعداد میں چوری والے ملزمان اور سب سے کم لڑائی جھگڑے میںملوث ملزمان کی ہے ہماری بہادر پولیس کو جب کوئی نہیں مل رہا ہوتا تو وہ منشیات استعمال کرنے والوںپر بھاری مقدار میں چرس ،شراب اور افیون ڈال کر انہیں جیل پہنچا آتی ہے جہاں کئی کئی ماہ انکی ضمانت ہی نہیں لگتی جبکہ چوری والے لوگوں کو جیلوں میں آنا جانا لگا رہتا رہی جیلوں کے اندر کی صورتحال وہ بہت ہی خوفناک اور خطرناک ہے بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب سے زیادہ ظلم اور کرپشن جیلوں میں ہی ہے اسکی تفصیل پھر کبھی سہی کیونکہ جب سے مریم پر تشدد کے بعد اسے ٹرین سے دھکا دیکر قتل کیا گیا تب سے ہماری ریلوے پولیس سب ظالموں کو پیچھے چھوڑ گئی "مریم ہلاکت کا معاملہ”تھانہ چنی گوٹھ میں قتل عصمت دری اور لوٹ مار کی دفعات کے تحت پولیس کانسٹیبل سمیت 2 نامعلوم ریلوے ملازمین کیخلاف مقدمہ درج ہوا ہے پوسٹمارٹم رپورٹ میں ہڈیاں ٹوٹنے اور جسم پر زخموں کے نشانات کی تصدیق بھی ہوگئی ہے اس کیس کے مدعی جڑانوالہ کے نواحی گائوں چک نمبر 648 گ ب کے رہائشی افضل نے تھانہ چنی گوٹھ ضلع بہاولپور پولیس کو درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سائل کی والدہ اور ہمشیرہ 29سالہ مریم بی بی کراچی کے شہر قیوم آباد میں رہائش پذیر اور بیوٹی پارلر کا کام کرتی تھی عید کرنے کیلئے 7 مارچ 2024 کو بھیجتے اور بھیجتی کے ہمراہ ملت ایکسپریس میں کراچی سے واپس فیصل آباد آ رہی تھی کہ انہیں اطلاع موصول ہوئی کہ تحصیل احمد پور شرقیہ تھانہ چنی کوٹ کی حدود میں ایک خاتون کی لاش پڑی ہوئی ہے جس پر سائل ہمراہ گواہان وہاں گیا اور پوسٹمارٹم کے بعد لاش کو لیکر جڑانوالہ آ گیا ورثا کا کہنا ہے کہ 29 سالہ مریم بی بی کی تدفین کے بعد سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوئی جس پر علم ہوا کہ ملت ایکسپریس میں ڈیوٹی پر مامور ریلوے کانسٹیبل میر حسن مریم بی بی کو تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے اور ٹرین کے گیٹ کی جانب لیکر جا رہا ہے مدعی نے الزام لگایا کہ کانسٹبیل نے اپنے 2 نامعلوم ریلوے ملازمین ملت ایکسپریس کے ہمراہ مریم بی بی کو دھکا دیکر قتل کیا ہے پولیس چنی گوٹھ نے مریم بی بی کے بھائی افضل کی مدعیت میں قتل عصمت دری اور لوٹ کی دفعات کے تحت کانسٹبیل میر حسن اور 2 کس نامعلوم کیخلاف مقدمہ درج کر لیا ہے پوسٹمارٹم رپورٹ میں مریم بی بی کے جسم پر زخموں کے نشانات اور سر پر چوٹ ظاہر کی گی ہے رپورٹ کے مطابق سر پر چوٹ لگنے کیوجہ زیادہ خون بہہ جانے سے مریم بی بی کی ہلاکت ہوئی ہے رپورٹ میں مریم بی بی کی موت خود کشی قرار دی گی ہے جسے ورثا نے مسترد کر دیا ہے حیرت اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سارے گندے کام ہماری پولیس کی قسمت میں لکھے ہوئے ہیں ریلوے پولیس کے پہلے بھی بہت سے ایسے کارنامے ہیں کہ وہ اکیلی سفر کرنے والی خواتین کو ڈرا دھمکاکریا سیٹ کا لالچ دیکر کسی نہ کسی بزنس کلاس میں قبضہ کیے ہوئے اپارٹمنٹ میںلے جاکر اجتماعی زیادتی کرتے ہیں جو مریم کے ساتھ کیا گیا ہماری پولیس جہاں کی بھی ہو وہ اپنا کام ضرور دکھاتی ہے شائد انکے خمیر میں ہی ایسا لکھ دیا گیا ایک چھوٹا ملازم اپنے افسر کی گالیاں سنتا ہے اور پھر وہ غصہ عام لوگوں پر اتارتا ہے جبکہ انکے افسران اپنی نوکری پکی اور بچانے کے لیے ہر غیر قانونی کام قانونی سمجھ کر عمل کرواتے ہیں اور تو اور تھانوں ،پولیس لائینوں اور بارکوں میں پولیس والے اپنے ہی پیٹی بھائیوں کا سامان چوری کرلتے ہیں اب تو ہر ملازم نے اپنے بکسے کو لوہے کا تالا لگانے کے ساتھ ساتھ موٹا سنگل بھی باندھ رکھا ہوتا ہے لیکن اسکے باوجود بھی یہ کاریگر چور کسی نہ کسی طرح دوسرے ملازم کا صندوق خالی کرنا عین ثواب سمجھتے ہیں اور سب سے اوپر میں نے پارلیمنٹ میں چوروں کا ذکر کیا جنہوں نے گذشتہ روز جمعہ کے دن واردات ڈال دی ویسے تو اس سے پہلے بھی پارلیمنٹ لاجز میں چوری کی متعدد وارداتیں ہو چکی ہیں لیکن اس انوکھی واردات میںچور پارلیمنٹ ہائوس کی مسجد سے کئی نمازیوں کے جوتے چوری کرکے لے گئے جن میں معزز اراکین اورا علی افسران کے جوتے شامل تھے اس سے قبل بھی گئی صحافیوں، ارکان اسمبلی اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے افسران کے جوتے غائب ہوتے رہے ہیںلیکن اس بار تو چوروں نے کمال کرتے ہوئے 20سے زائد نمازیوں کے جوتے اکھٹے چوری کرلیے کچھ اسی طرح کی وارداتیں پنجاب اسمبلی میں بھی وقوع پذیر ہوتی رہی ہیں اس بات پر ایک قصہ یاد آگیا کہ ہماری تبلیغی جماعت رشیا میں سارا دن تبلیغ کے بعد جب وہاں کے لوگوں کو شام کے وقت مسجد لیکر آئے تو سبھی تبلیغی جماعت کے اراکین نے اپنی جوتیاں مسجد کے باہر اتار کر ہاتھوں میں پکڑ لیں اور جب وہ جوتیاں مجسد کے اندر لے جانے لگے تو وہاں کے مقامی نومسلم لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ اپنی جوتیاں اٹھا کر اندر کیوں لیکر جارہے ہیں تو جس پر امیر صاحب نے بتایا کہیں جوتی چوری نہ ہو جائے رشیا کے نومسلم لوگوں نے حیرت سے پوچھا کہ کیا پاکستان میں مسجد سے جوتیاں چوری ہوجاتی ہیں تو امیر صاحب نے کہا جی ہمارے ہاں تو مسجد کی ٹوٹنٹیاں ،لوٹے ،پنکھے اور جوتیاں چوری ایک معمول کی بات ہے وہاں پر تو پانی پینے والے گلاس کو بھی سنگل لگانا پڑتا ہے جس پر تبلیغی جماعت کی دعوت پر آنے والے نمازیوں نے انہیں کہا کہ آپ فورا واپس پاکستان جائیں ہم سے زیادہ انہیں تبلیغ کی ضرورت ہے