کالم

ماں کی آواز

تقریبََا ہر گھر میں صبح ہوتے ہی جو پہلی آواز کانوں میں پڑتی ہے وہ ماں کی آواز ہوتی ہے۔ جو ساری رات خواب و خرگوش کے مزے لیتی اپنی اولاد کو غفلت کی اس نیند سے جگا دیتی ہے۔ اور اولاد کو بھی اپنے خوابوں کے ٹوٹ جانے کی فکر تک نہیں رہتی۔ اور بچہ جاگتے ہی ایک مداری کے بندر کی طرح اپنی ماں کے بتائے ہوئے صبح کے کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ وقتََا فوقتََا اس بچہ کو ماں کی مدد اور اصلاح درکار ہوتی ہے پر جیسے ماں سکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی بچہ بھی سیکھنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا، غرض اس سیکھنے سکھانے میں یہ روز مرہ کے کام اولاد کی فطرت اور عادت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ اٹھو منہ دھو لو، اچھے سے برش کر لو، نہانے کا صابن ضائع نہ کرو کپڑے سیدھے پہنو، جوتے میں پہلے سیدھا پاؤں رکھو یہاں تک کہ دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں مسائل خود ہل کر لینے کا confidenceبچہ کے حساس ذہن میں سرائیت کر جاتا ہے، اور ہازاروں کا کام چٹکی بجاتے کر لینے کا ہنر ماں سے بچے میں منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ ماں کی آواز بھی کمال شہ ہے کان میں پڑتی رہتی ہے اور حیوان عاقل کو انسان بناتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کے ایک چھوٹا سا روتا بلکتا بچہ ایک مظبوط شخصیت کا مالک بن جاتا ہے۔ اس آواز کو کام میں لا کر جو کچھ کیا جا سکتا اس کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس پر توکئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں مگر جس بات کا ذکر یہاں کیا جا راہا ہے وہ اس فہرست میں سر فہرست ہے۔ ماں کی تمام تر مصروفیات میں سب سے اہم مصروفیت اسکا اپنی اولادکو تاکید اور تلقین پر وقت صرف کرنا ہے۔ بہر حال! اب آپ یہ پوچھیں گے کہ یہ آواز تو پہلے ہی اتنے سارے کام انجام دے رہی ہے اب اور کتنا اس کو کام میں لایا جائے؟ تو اس کے جواب میں اتنا ہی کہوں گی کہ کیا آپکو اپنی ماں کی قابلیت پر کوئی شک ہے؟ماں صرف محبت، ہمدردی، اور بیش بہا قربانیوں کا نام ہی نہیں بلکہ یہ ایک مدرسہ ہے جہاں ایک معلم کئی مضمون ایک ساتھ پڑھاتا ہے اور طالب علم کو ماہر مضامین دیکھنا بھی چاہتا ہے خاص الخاص یہ کہ اس کو نا کسی اجرت کی فکر ہے نہ کسی تعریف کی۔ ماں پہلے ہی اپنی اولاد کو زندگی کے کئی اسباق پڑھا رہی ہے مگر فی زمانہ یہ عمل سست روی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ اور اس کی کمی کو آج کی نئی نسل میں محسوس بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تمام تر قصور ماں ہی کا ہے۔ کسی بھی تبدیلی کا زمہ اس زمانہ کے کئی بدلتے عوامل ہیں ایک یا دو شخصیات نہیں ۔ بہر حال! سوال یہ ہے کہ کیسے ماں کی آواز کو مزید موسر بنایا جائے وہ کون سے گُرہیں جن کو شامل کر کہ مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ انتہائی آسان ہے اور پہلے زمانوں میں رائج بھی تھا جو وقت کے ساتھ معدوم ہوتا چلا گیا مگر اب ضرورت ہے کہ اس امر کی ہے کہ کیسے اُس روائتی طریقہ کار کو پھر سے رائج کیا جائے۔ جیسے کہ، سوتے ہوئے بچے کو جگانے کے لیے پکارا جائے تو اس میں اللہ کی حمد شامل کی جائے اٹھ جاؤ بیٹا دیکھو آج کیا پیاری صبح ہے سورج کیوں آج اتنا خوش ہے اور اتنا روشن”ماشاء اللّہ”کیا آپ نے آسمان کو صبح کے وقت notice کیا ہے کبھی؟ وہ زیادہ حسین نظر آتا ہے یہ رات کیا سب کو ہی تر و تازہ کر دیتی ہے؟ ان سوالوں اور جوابوں میں کئی کہانیاں ہیں جو اس کے ذہن میں خود ساختہ بننے والی کہانیوں سے مل کر نئی کہانیاں بنائیں گی اور وہ مزید جاننے کے لئے سوال کریگا اپنے رب کے بارے میں سوال اپنے رب کی نعمتوں کے بارے میں سوال۔ ماں مزید کہے گی! منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کی میز پر آکر بیٹھ جائیں دیکھیں آج تو میں نے پانی بھی گرم کر دیا ہے”شکر کریں اللہ کا”گرم پانی بھی بنایا ہے ورنہ اتنی سردی میں ہم کیسے نہاتے؟ بتائیں زرا یہ چڑیاں باہر کیا کہ رہی ہیں کہیں اللہ سے سردی کی شکایت تو نہیں کر رہیں۔ غرضیکہ صبح سے ہی گھر کے گردو نواح میں اللہ کی حمد و ثنا کا احتمام ہو جائے شکر گزاری کا انبار لگ جائے کھانے کی میز پر کل کی روٹی اور سالن بھی ہو تو اس طرح شان سے بچوں کے سامنے اس کو کھائیں اور کھلائیں جیسے سارے جہاں کا ذائقہ اسی میں ہے اور پھر شکر کریں اور سکھائیں کہ اسی طرح پاس میں بھوک کا ہونا کھانا کا میسر ہونیسے لے کر ہر چیز چھوٹی سے بری جو بھی میسر ہے وہ کس قدر قیمتی ہے۔ اور کیا کمال قدرت سے اللہ نے ہمیں عطا کی ہے۔ماں کی آواز سے شرو ع ہوئی اس منتقلی کے محاز پر جیت ہمیشہ ماں کی ہوتی ہے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوے ایسا لگتا ہے کہ اس محاظ پر قابل فخر جنگیں لڑی جا سکتی ہیں جیسا کہ شخصیت سازی کی جنگ،اعلی اخلاق کی سر بلندی کی جنگ، نیک اور بد میں نیکی کی اہمیت کی جنگ اور برابری اور روا داری،بھائی چارہ کی اہمیت اور اس کو رائج کرنے کے احتمام کی جنگ غرض ہزاروں جنگیں جن کا سامنا عموماً ہر انسان کو زندگی کے ہر موڑ پر ہوتا ہے۔محسوس کریں! جب ماں کہتی ہے منہ ہاتھ دھو کر صاف کر لو اور ناشتہ کی میز پر آ جاؤ بچہ سمجھ جاتا ہے کہ مجھے خُد کو دھو کر صاف کرنے کی ضرورت ہے اور پھر صحت کو برقرار رکھنے ک لیے ناشتہ بھی کرنا ہے اگر اس ایک جملے کو تھوڑا سا elaborate کر دیا جائے جیسے کہ”منہ ہاتھ دھو لو۔ صفائی نصف ایمان ہے اللہ کو بہت پسند بھی ہے ویسے تو یہ ظاہری صفائی کافی نہیں لیکن فل الوقت اتنا کرو اور ساتھ اللہ سے شکر بھی کر وکہ اتنی حسین دنیا میں ایسی پیاری صبح میں پھر سے ایک دن اللہ نے آپکو دیا، کیا خیال ہے؟ آج سے اچھے بچے بن جاؤ اللہ سے توبہ کر لیتے ہیں آئو باقی باتیں ناشتہ کی میز پر کرتے ہیں۔ یقین کریں آپکا بچہ بہت سارے سوالوں کے ساتھ جلد کھانے کی میز پر ہو گا اپ کی کہی ہوئی ساری باتیں منہ ہاتھ دھونے کے دوران اس کے چھوٹے سے ذہن میں process ہو چکی ہوں گی اور وہ یہ ضرور پوچھے گا کہ امی جان آپ نے ایسا کیوں کہا کہ ظاہری صفائی کافی نہیں اسکا کیا مطلب؟ اب آپ کے پاس پورا ground ہے اس جنگ کو لڑنے کا کہ ظاہر اور باطن کی صفائی کیا ہے اور کیوں ضروری ہے۔ اسی طرح کئی چھوٹی چھوٹی باتیں جو معمول کی زندگی میں کہیں گم ہوتی چلی جا رہی ہیں بچہ کے لاشعور میں جمع ہوتی چلی جائیں گی اور بعد ازاں اس کی شخصیت سازی میں ایک اہم کردار ادا کریں گی۔اسی طرح کسی خواہش کے اظہار کا طریقہ کار، کسی کام سے انکار کا صحیح وقت اور اسکا انداز، ناپسندیدگی کی وجہ کا صحیح طور بیان کیا جانا، غصہ میں خود پر قابو رکھنے کی تاکید، گفتگو کے دوران اچھے اور خوبصورت لفظو ں کے استعمال کی تلقین اور اہتمام، غرض اعلٰی اخلاق کی صحیح تعلیم یہ ساری کی ساری تعلیم بچپن سے زندگی کا حصہ بنا دی جائیں۔ یقین کریں! یہ کردار سازی بچہ کی زندگی میں اسکے مذہب کی جگہ خود بنا لے گی اور نیکی اور بدی کی تشریح بھی ہوتی چلی جائے گی پھر اللہ سے محبت میں سرشاری اور جن کاموں سے اللہ نا خوش ہو جاتے ہیں ان کو ترک کر دینے کی خواہش خود بچہ کے دل میں جنم لینے لگے گی۔ صبح سے شام تک ماں کی اس آواز کا کانوں میں پڑتے رہنا اللہ کی حمد سے شروع کیے گئے دن کا اللہ کی شکر گزاری سے اختتام کرنے میں مدد کرتے ہوئے ایک بہترین دن کو بچہ کی یادداشتوں میں محفوظ کر دیگا۔ اور بہ وقت ضرورت وہ اس یاداشت کے صندوق سے جو چاہے نکال کر استعمال کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دین میں ماں کو ایک اعلی مقام عطا گیا ہے اور ماں کی بچہ سے محبت کو اللہ سے بندے کی محبت کا حوالہ بھی بنایا گیا ہے
ماں کی آواز کا گھر میں بلند رہنا اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ آنے والی نسل کی جسمانی اور ذہنی نشونما ماں کی قربانیوں کی محتاج ہے ـ
حمیرا طلحہ۔ ہارون آباد۔۔03039125234—26-01-2024

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button