اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے تقریبا تین مہینے کے بعد ، 25 ہزار فلسطینیوں کی شہادتوں اور اس سے کہیں زیادہ فلسطینیوں کے زخمی ہو جانے کے بعد امریکہ کو خیال آیا ہے کہ غزہ فلسطینیوں کی سرزمین ہے اور رہے گی اور انہیں ان کی سرزمین سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ چند روز قبل امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے سوال کیا کہ اسرائیلی وزراء تواتر سے فلسطینیوں کو غزہ سے نکل جانے کا کہہ رہے ہیں اور بصورت دیگر سنگین دھمکیاں بھی دے رہے ہیں ۔ جس پر امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیلی وزراء کے فلسطینیوں کو غزہ سے چلے جانے کے دھمکی آمیز بیانات کی مذمت کرتے ہیں ، غزہ فلسطینیوں کی سرزمین ہے اور رہے گی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی وزرا کا فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے کا بیان اشتعال انگیز اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ اس بیان سے بھی امریکہ کی بہت بڑی منافقت کھل کر سامنے آتی ہے ایک تو یہ بیان اس وقت دیا جا رہا ہے جب تک 25 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور ان کے گھر بار سب کچھ تباہ ہو چکا ہے اب انہیں خیال آیا ہے کہ غزہ فلسطینیوں کا ہے اور فلسطینیوں کا رہے گا ، اس سے پہلے انہیں یہ خیال کیوں نہیں آیا ؟جب تین مہینے سے اسرائیل غزہ سے فلسطینیوں کو نکل جانے کا کہہ رہا ہے بصورت دیگر انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہا ہے اور جو فلسطینی غزہ کے جنوبی حصے کی طرف جا رہے ہیں انہیں بھی راستے میں شہید کر دیا جاتا ہے اور کئی ہزاروں فلسطینی اس طرح سے دھوکے کے ساتھ شہید کر دیے گئے لیکن اس وقت امریکہ کو خیال نہیں آیا کہ غزہ تو فلسطینیوں کا ہے اور انہیں وہاں سے نہیں نکالنا چاہیے۔ جب اسرائیل نے مکمل طور پر اپنی کاروائی کر لی اور اپنے دل کی بھڑاس نکال لی تب امریکہ کو یاد آیا کہ غزا تو فلسطینیوں کا ہے۔ جب حما س اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو فورا ہی امریکی صدر نے اسرائیل کا دورہ کیا اور ان کی پیٹھ تھپتھپائی اور انہیں اس جنگ میں اپنے سر الزامات لینے سے بچنے کے لیے مختلف طریقے بتائے اور انہیں اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ جس کی وجہ سے انہوں نے فلسطینیوں پر اس قدر بڑا ظلم ڈھایا جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ امریکہ جو دوسری منافقت کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ غزہ فلسطینیوں کا ہے حالانکہ غزہ فلسطینیوں کا نہیں ہے بلکہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے غزہ تو فلسطین کا ایک چھوٹا سا علاقہ ہے ، باقی تمام علاقے پر اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے جتنا بھی اسرائیل ہے یہ سارا اصل میں فلسطین ہی تھا جس پر قبضہ کرنے کے بعد فلسطین نام کی ریاست کو ہی دنیا کے نقشے سے ختم کر دیا گیا اور اب غزہ کی تنگ سی پٹی فلسطینیوں کو دے کر کہا جاتا ہے کہ یہ فلسطینیوں کے لیے ہے حالانکہ فلسطین کا فی بڑی ریاست تھی تو کم از کم مکمل نہیں تو اس کا بہت سا حصہ فلسطینیوں کو ملنا چاہیے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو جہاں فلسطینی اپنی ایک مکمل ریاست بنا سکیں۔ کچھ عرصہ قبل بھی میں اپنے کالم میں یہ بات لکھ چکا ہوں کہ دنیا کے نقشے سے فلسطین کو ختم کر دیا گیا ہے اپ گوگل میپ پر تلاش کریں تو آپ کو فلسطین نام کی کوئی ریاست نہیں ملے گی کیونکہ یہ کفار اور عالمی طاقتوں کا ایک وطیرہ ہے کہ کسی ریاست کو اگر ختم کرنا چاہتے ہیں تو اسے سب سے پہلے دنیا کے نقشے سے غائب کر دیتے ہیں فلسطین سے پہلے بھی کئی مسلم ریاستوں کا وجود ہی مٹا دیا گیا یہی حال فلسطین کے ساتھ بھی کیا گیا کہ اسے دنیا کے نقشے سے ختم کر دیا گیا ہے اور آہستہ آہستہ اس کا وجود مٹایا جا رہا ہے ۔ ابھی فلسطینیوں کو غزہ تک محدود کر دیا گیا ہے اور رفتہ رفتہ انہیں وہاں سے بھی نکلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے تاکہ مکمل طور پر فلسطینی ریاست کو اسرائیل کے اندر ضم کر دیا جائے جس کا بہت بڑا حصہ تو پہلے ہی اسرائیل ہڑپ کر چکا ہے اب جو تھوڑا بہت بچہ کچا ہے اس پر بھی قبضہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ہمیں اس بات پر ہرگز خوش نہیں ہو جانا چاہیے کہ امریکہ نے کہہ دیا کہ غزہ فلسطینیوں کا ہے تو اب امریکہ ان کا ہمدرد اور حمایتی ہو گیا ہے یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ امریکہ کسی بھی مسلمان کا حمایتی یا ہمدرد ہو بلکہ یہ یہود و نصاری کا گٹھ جوڑ ہے جو ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور آگے بھی چلے گا۔لہذا مسلمانوں کو امریکی وعدوں ، دعووں اور لاروں پر رہنے کی بجائے خود سے کچھ کرنا چاہیے خود سے کوشش کرنی چاہیے اور فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد ریاست کے قیام کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ فلسطینی خود تو ایک طویل عرصہ سے فلسطین کی آزاد ریاست کے لیے کوشش اور جدوجہد کر رہے ہیں جس کے لیے انہوں نے بہت بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں لیکن اگر تمام اسلامی ممالک ان کے ساتھ مل کر یہ جدوجہد کریں تو یہ آسان ہو جائے گی اور جلد پایا تکمیل تک پہنچ جائے گی۔ لیکن اس کے لیے دینی غیرت و حمیت کی انتہائی ضرورت ہے جس کا آج مسلم حکمرانوں میں انتہائی فقدان ہے۔ اسی فقدان کی وجہ سے فلسطینیوں نے انتہائی دکھ دیکھے اور اتنا ظلم و ستم برداشت کیا اور یہ یاد رکھیں کہ یہ فلسطین تک محدود نہیں ہوگا بلکہ اگر امت مسلمہ کے کا یہی رویہ رہا تو یہ دیگر مسلم ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا لہذا مسلمانوں کو جلد بیدار ہونا چاہیے اور امت مسلمہ کے وسیع تر مفاد کے لیے جدوجہد شروع کر دینی چاہیے۔
0 55 4 minutes read