
اسلام آباد: ٹرائل کورٹ میں زیر سماعت سائفر کیس میں اپنی گواہی میں سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے عمران خان کابینہ سے کہا تھا کہ سائفر کی رازداری ختم کرنے سے نہ صرف غیر ملکی سفارت کاروں سے تبادلوں کو نقصان ہوگا بلکہ امریکا اور کچھ دیگر ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے ساتھ کثیر الجہتی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات بھی پیچیدہ ہو جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے عمران خان حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ امریکا کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں اور عوامی سطح پر تلخی سے گریز کریں۔
اس کے مطابق، سہیل محمود کا کہنا تھا کہ ’’اس مشورے کا مقصد پاکستان کے ایک اہم ملک کے ساتھ تعلقات کو بچانا اور ایک خفیہ دستاویز کے حوالے سے عوامی اور سیاسی نوعیت کے مباحثے سے گریز کرنا تھا۔‘‘ سابق سیکرٹری خارجہ نے کابینہ اجلاس کی تفصیلات بھی شیئر کیں، یہ اجلاس ’’سائفر ٹیلی گرام کی رازداری ختم کرنے‘‘ کے معاملے پر بحث کیلئے بلایا گیا تھا اور ایک علیحدہ اجلاس اُس وقت کے وزیراعظم کی بنی گالا میں رہائش گاہ پر منعقد ہوا تھا۔
سہیل محمود کا کہنا تھا کہ 8؍ اپریل کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں انہوں نے اس بات پر ضرور دیا کہ سائفر ٹیلی گرام کی رازداری ختم کرنا ممکن ہے اور نہ ایسا کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے کیونکہ سائفر کے ساتھ سیکورٹی گائیڈ لائنز جڑی ہیں اور ساتھ ہی قانونی معاملات اور خاجہ پالیسی کے مضمرات بھی ہوں گے۔