دنیا

مالدیپ کے بعد بنگلہ دیش میں بھی ” انڈیا آئوٹ” مہم زور پکڑرہی ہے

ڈھاکہ :مالدیپ کے بعد اب بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں بھارت کی مداخلت کے خلاف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی قیادت میں”انڈیا آئوٹ”مہم زورپکڑرہی ہے۔

”انڈیا آئوٹ” مہم نے جسے جنوبی ایشیا پر نظررکھنے والے سیاسی ماہرین تاریخی جذبات اور عصری سیاسی معاملات سے جوڑتے ہیں، زور پکڑلیاہے،جہاں حزب اختلاف بنگلہ دیش کی خودمختاری پر زور دے رہی ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کررہی ہے کہ وہ بھارت کی طرف سے بیرونی مداخلت کے خلاف اس کی جدوجہد کو تسلیم کرے۔1971میں بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے بھارت کی طرف سے پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دینے کے خلاف”انڈیا آئوٹ”تحریک کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔تحریک کا استدلال ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے دوران بھارت نے ایک اسلامی ریاست کے تصور کے خلاف کام کیا، نسلی تفاخر کو فروغ دیا اور پہچان کا بحران پیدا کیا۔ تحریک کے بیانیے کے مطابق اس استحصال کا سلسلہ اب بھی بدستور جاری ہے اور لوگوں میں عدم اطمینان کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔

حزب اختلاف بالخصوص بی این پی کا کہنا ہے کہ بھارت بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ اس کاکہنا ہے کہ بھارت کی حمایت یافتہ حکمران جماعت آمریت اور انتخابی دھاندلی کے ذریعے اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے۔ یہ تحریک بھارت کے دوست اورپاکستان مخالف بنگلہ دیش کی بھارتی خواہش کومستردکرتی ہے کیونکہ یہ لوگوں کی اسلامی ثقافت اور بھائی چارے سے ہم آہنگ ہونے کے فطری رجحان سے متصادم ہے۔ بھارت میں لنچنگ سمیت مسلمانوں پر مظالم اور امتیازی کارروائیاں بھارت مخالف جذبات کو مزید بھڑکاتی ہیں۔امریکہ کی طرف سے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات اور حزب اختلاف کے ساتھ منصفانہ سلوک کے مطالبات کے باوجود حکمران جماعت بظاہر بھارت کی حمایت سے بنگلہ دیش پر اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے۔”انڈیا آئوٹ”تحریک بیرونی مداخلت کے خلاف بنگلہ دیش کی جدوجہدکو عالمی سطح پر تسلیم کرانا چاہتی ہے۔سیاسی ماہرین کہنا ہے کہ”انڈیا آئوٹ”تحریک نے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ بھارت اپنے چھوٹے پڑوسیوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے، چاہے مالدیپ ہو یا بنگلہ دیش ہو۔جیسے جیسے تحریک زور پکڑرہی ہے یہ بنگلہ دیش کے سماجی سیاسی منظر نامے کی پیچیدگی اور تاریخ میں جڑی گہری دشمنیوں کو واضح کرتی ہے۔ عالمی برادری ”انڈیا آئوٹ” تحریک کے حوالے سے نئی پیش رفتوں کو قریب سے دیکھ رہی ہے جو ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب ہوسکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button