
گزشتہ سال ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں ایک نوجوان کو چار پانچ لوگ زبردستی گھسیٹتے ہوئے لا رہے ہیں۔وہ نوجوان ان کی گرفت سے نکلنے کی پوری کوشش کر رہا ہے مگر کامیاب نہیں ہو پا رہا۔ صاف محسوس ہو رہا ہے کہ وہ لوگ اسے اغواء کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ واقعہ دن کے وقت بھری پری شاہراہ پر پیش آ رہا ہے۔ اس نوجوان کی قمیض بری طرح پھٹ چکی ہے اور چیتھڑوں کی صورت میں اس کے جسم پر لٹک رہی ہے۔ ٹریفک رواں دواں ہے۔ لوگ پیدل بھی پاس سے گزر رہے ہیں۔ وہ اس وقوعے کو دیکھتے ہوئے جا رہے ہیں مگر کوئی بھی نوجوان کی مدد کو آگے نہیں بڑھ رہا۔ میں راہگیروں کی بے حسی پر حیران ہوتا ہوں کہ کوئی ایک فرد بھی اس مظلوم نوجوان کا ساتھ نہیں دے رہا حالانکہ اغواء کاروں میں سے کسی کے ہاتھ میں معمولی سا اسلحہ بھی موجود نہیں ہے۔ شاید لوگ پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑانے سے ڈر رہے ہیں۔ وہ لوگ نوجوان کو دھکیلتے ہوئے ایک سفید رنگ کی کار کے قریب لاتے ہیں۔ ان میں سے ایک آدمی کار کا دائیں طرف کا پچھلا دروازہ کھولتا ہے کہ اس نوجوان کو زبردستی کار میں دھکیلا جائے۔ کار کو دیکھ کار پھٹی قمیض والے نوجوان کی اغواء کاروں کی گرفت سے نکلنے کی جدوجہد میں شدت آ جاتی ہے۔ وہ پارے کی طرح مچلنے لگتا ہے۔ اس کشمکش میں اس کی قمیض مزید چیتھڑوں میں بٹ جاتی ہے مگر وہ ہر بات سے بے نیاز ان لوگوں کے چنگل سے نکلنے کی بھرپور جدوجہد کر رہا ہے جبکہ تین چار راہ گیر بالکل پاس ہی کھڑے ہو کر ”تماشا” دیکھنے میں مصروف ہیں۔ مجھے ان راہگیروں کی بے حسی پر شدید غصہ آ رہا ہے کہ اگر خود اس مظلوم نوجوان کی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم شور تو مچا سکتے ہیں۔ شاید ان کے شور سے ہی دو چار لوگ بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھ آئیں اور وہ نوجوان ان کے ہاتھوں اغواء ہونے سے بچ جائے۔ کوئی راہگیر 15 پر کال ہی کر دے تو پولیس موقع پر پہنچ کر نہ صرف اغواء کی واردات کو ناکام بنا سکتی ہے بلکہ اغواء کار بھی رنگے ہاتھوں گرفتار ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں لاقانونیت اس قدر عام ہو چکی ہے کہ ہر شخص نے لاٹھی ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہے اور جہاں بھینس نظر آتی ہے اس کو ہانکنا شروع کر دیتا ہے۔ اگر مجرموں کو سزا دینے کا رواج ہوتا تو کس کی مجال تھی کہ یوں سرِعام قانون کو ہاتھ میں لیتا، نہ صرف ہاتھ میں لیتا بلکہ اسے لِیر و لِیر کر دیتا۔ میں مٹھیاں بھینچ کر غصے سے پیچ و تاب کھا رہا تھا اور آزاد ہونے کی جدوجہد کرتے نوجوان کے ساتھ تصور میں زور لگا رہا تھا کہ کسی طرح اس کی جان بچ جائے۔ اب اغواء کاروں نے اسے گھیرے میں لے لیا تھا۔ ان کا انداز بالکل ایسا ہی تھا جیسے کسی مرغے کو گھیر کر پکڑا جاتا ہے۔ نوجوان نے بھی ہمت نہیں ہاری تھی۔ جب جان پر بنی ہو تو آدمی میں دس گنا طاقت آ جاتی ہے۔ وہ ان کی گرفت سے نکل نکل جاتا تھا۔ اس دوران اس کے جسم پر موجود قمیض کے چیتھڑے پھٹ کر اغواء کاروں کے ہاتھوں میں رہ جاتے تھے جبکہ وہ نوجوان مچھلی کی طرح ان کی گرفت سے پھسل جاتا تھا۔ اغواء کار بظاہر اناڑی لگ رہے تھے جن سے ایک نوجوان نہیں سنبھل رہا تھا۔ سرِعام اتنی بڑی واردات انجام دینے کی اگر دلیری کر لی تھی تو پستول نکال کر ایک آدھ فائر کر کے اس نوجوان کو ڈرا دھمکا کر مقصد پورا کیا جا سکتا تھا۔ میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ ان لوگوں کا دھیان اس طرف نہ ہی جائے تو اچھا ہے۔ شاید وہ نوجوان ان کے چنگل سے بچ نکلے۔ اچانک اس نوجوان نے جیسے غوطہ لگایا اور ان لوگوں کا گھیرا توڑ کر بھاگ نکلا۔ پکڑنے والے اسے دور جاتا دیکھتے رہے مگر اس کے پیچھے بھاگنے کی کسی نے ہمت نہ کی۔ میں جو سانس روکے یہ ویڈیو دیکھ رہا تھا اس نوجوان کی جان بچ جانے پر خدا کا شکر ادا کرنے لگا۔ واقعی اس بہادر جوان نے جان ہتھیلی پر رکھ کر اور بے پناہ جرأت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا تھا۔ اچانک میری نظر اس ویڈیو کے نیچے لکھی ہوئی تحریر پر پڑی تو ساری کہانی ہی بدل گئی۔ لکھا تھا کہ عبدالمجید عمرانی نام کا وہ نوجوان نوشہرو فیروز جیل میں منشیات کے مقدمہ میں دفعہ نائن سی کے تحت قید تھا جہاں سزا پوری ہونے کے بعد اسے رہائی ملی تو اس نے جیل سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ جب اسے زبردستی جیل سے باہر نکالا گیا تو اس نے دوبارہ جیل کے اندر گھسنے کی کوشش کی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس مہنگائی کے دور میں گھر جا کر کیا کرے گا۔ بے روزگاری کی وجہ سے بھوکوں ہی مرے گا اس لیے بہتر ہے کہ وہ جیل میں رہے جہاں کھانا تو ملتا ہے۔ جب جیل انتظامیہ اسے جیل کے دروازے سے ہٹانے میں ناکام رہی تو اس نے عبدالمجید کے ورثاء سے رابطہ کیا اور اسے ان کے حوالے کر دیا مگر وہ بھی اسے گھر لے جانے کی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ ویڈیو نہیں بلکہ 76 سال سے ملکی وسائل پر قابض اشرافیہ کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے کہ خود غرض اور حریص اشرافیہ نے عام لوگوں سے روزگار اور دو وقت کا نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ ملک کو معاشی طور پر بدحال کر کے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے۔ عوام ٹیکس دے دے کر کنگال ہو گئے ہیں مگر مراعات یافتہ طبقے کے پیٹ بھرنے میں ہی نہیں آ رہے۔ ہر دورِ حکومت میں وزیروں مشیروں کی فوج اور افسر شاہی کی مراعات نے عوام کو وینٹی لیٹر پر پہنچا دیا ہے۔ عبدالمجید کی ویڈیو دیکھنے کے بعد مجھے ڈر تھا کہ بے روزگار نوجوانوں کو کہیں یہ راہ نہ سجھائی دے جائے کہ چھوٹا موٹا جرم کر کے سال چھ مہینے کے لیے سرکار کے ”مہمان” بن جائیں اور باہر آنے کے بعد دوبارہ کوئی جرم کر کے سرکاری مہمان بن جائیں۔ ہمارے حکمرانوں کو سوچنا ہو گا کہ قربانی دیتے دیتے عوام کی بس ہو گئی ہے۔ اب اس مراعات یافتہ طبقے کو قربانی دینا ہو گی۔ اپنے پاس سے کچھ نہ دیں۔ صرف اتنا احسان کر دیں کہ عوام کے ٹیکس سے سرکاری سانڈ بن کر پلنا بند کر دیں۔ کوئی سیاستدان بھی غریب نہیں ہے۔ وزرائ۔ مشیران، ممبران پارلیمنٹ تمام سرکاری سہولتیں اور مراعات لینا بند کر دیں۔ عوام کی طرح اپنی نیک کمائی سے رزقِ حلال کھانا شروع کر دیں۔ بجلی ٹیلی فون، گیس اور پٹرول کے بل اپنی جیب سے ادا کریں۔ افسران سے لگژری گاڑیاں واپس لے کر عام گاڑیاں دی جائیں۔ انہیں محل نما گھروں سے نکال کر پانچ مرلے کے گھروں میں منتقل کیا جائے۔ سرکاری خزانے کو لوٹ کا مال نہیں بلکہ امانت سمجھا جائے۔ اللّٰہ ہمارے حکمرانوں اور باقی تمام سیاستدانوں کو ملک اور عوام پر رحم کرنے کی ہمت اور ہدایت عطا فرمائے۔ آمین۔ اگر حکمران یہ سب نہیں کر سکتے تو کم از کم اتنا ہی کر دیں کہ تمام بے روزگار نوجوانوں کو جیلوں میں ڈال دیں تاکہ انہیں دو وقت کا کھانا تو وہاں میسر آ سکے۔