سعودی عرب کے فرمانرواہ اوراتحاد امت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والے شاہ فیصل خادم الحرمین 1906ء میں ریاض میں پیدا ہوئے۔ 1975ء میں ایک قاتلانہ حملے میں شہید ہوئے۔ قاتل کا سر قلم کر دیا گیا۔شاہ فیصل کوبچپن سے ہی اچھے اُستاد میسر آئے تھے۔ شاہ فیصل کے نا نا الشیخ عبداللہ بن عبدا لطیف وقت کے بہت بڑے عالم تھے۔اُنہوں نے شاہ فیصل کی تعلیم کا خاص اہتمام کیا۔ دینی ماحول نے اُن کے اندر، اسلام کے لیے بے پناہ عقیدت و احترام پیدا کیا اور وہ شعوری طور پر اسلامی تہذیب وتمدن کی وسعتوں اور حقیقتوں تک پہنچ گئے۔ اُن کی پوری زندگی میں اسلام کا شعور جیتا جاگتا نظر آتا ہے۔ شاہ فیصل کی زندگی میںنے اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کی جلک نظر آتی ہے۔ اُنہوں نے اپنے والد شاہ عبدالعزیز کی صحبت میں رہ کر عسکری تربیت اور سیاسی صلاحیت حاصل کی۔1921ء میں سعودی مملکت میں بغاوت کاسلسلہ چل نکلا اور اُس وقت منطقہ عسیر شورشوں کا مرکز تھا۔ شاہ عبدالعزیز نے الفیصل کو باغیوں کی سرکوبی کے لیے بھیجا ۔ اس معرکہ میں ہر محاذ پر اُن کوفتح نصیب ہوئی۔ اس کے بعد عسیر منطقے کے کمانڈر ان چیف بنا دیے گئے۔ اُن کی بے مثال جرأت اور موثر حکمت ِ عملی سے قبائل کی آتش بغاوت سرد پڑ گئی۔الفیصل ملک کے اندرونی حالات کا گہرا ادراک حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بین القوامی معاملات میں بھی اپنے والد شاہ عبدالعزیز کا ہاتھ بٹاتے رہے۔ اقوام متحدہ کے قیام کے سلسلے میں جو اجلاس سان فرانسسکو میں منعقد ہوا تھا اُس میں سعودی عرب کی نمائندگی الفیصل نے کی تھی۔1925ء میں حجاز کے والئسرائے بنائے گئے۔ اس کے پانچ سال بعد امور خارجہ کا قلم دان بھی ان ہی کو سونپا گیا۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے اُنہوں نے عرب ممالک کے مسائل میں غیر معمولی دلچسپی لی۔ عالمی کانفرنسوں میں بڑی جرأت سے اسلامی افکار کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیا۔1945ء میں مجلس شوریٰ کے سربراہ نامزد ہوئے۔ حکومت کا ڈھانچہ جدید بنیادوں پر تعمیر کرنے میں شبانہ روز کام کرتے رہے۔1953ء میں الفیصل ولی عہد اور وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔ اُنہوں نے دس برس ایسی جانفشانی، تدبر اور حکمتِ عملی سے نے کام کیا کہ ملک کی انتہائی محبوب شخصیت بن گئے۔1963ء میں علما ،مقتدر زُعما اور عوام الناس نے ابن سعود سے مطالبہ کہ کہ الفیصل کو تمام اختیارات سونپ دیں۔ چنانچہ شاہ عبدالعزیز نے ایسا ہی کیا اور تمام اختیارات الفیسل کے ہاتھ میں آ گئے۔ 1964ء میں پورے سعودی عرب کی حمایت کے ساتھ علمانے ایک فتویٰ جاری کیا جس کی رو سے الفیصل مملکت سعودی عرب کے بادشاہ مقرر ہوئے۔ وہ بڑی بردباری اور دانش مندی سے بین القوامی سیاست میں ایک خاموش، مگر انتہائی موثر کرادار ادا کرتے رہے۔الطاف حسین قریشی ، ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ لاہور کے ایڈیٹر نے رہنمائے ملت کے ساتھ ملاقاتوں پر مبنی کتا ب” ملاقاتیں کیا کیا” میں ذکر کیا کہ اُنہوں نے دو سو کے لگ بھگ مشاہیر ملت سے انٹرویوز لیے ہیں۔ شاہ فیصل کے انٹرویو کے دوران مشاہدہ بیان کرتے ہیں ،میں شاہ فیصل کا انٹرویو لینے اُس وقت کے سعودی عرب کے شاہی محل گیا۔مجھے شاہی محل کی عمارت میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔لان بھی کچھ زیادہ واسیع نہیں تھا۔ البتہ سبزے کی فراوانی تھی۔ ہمارے دائیں ہاتھ شاہ فیصل کی پرانی کار کھڑی تھی۔ میں نے سوچا شاہی محل اندر سے خوبصورت ہو گا۔ میں ایک کمرے سے ہوتاہوا ایک دوسرے کمرے میں آیا۔ پھر وہ بڑا کمرہ دیکھا جس میں شاہ فیصل عصر کے نماز کے بعد عام لوگوں سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ اور شکائتیں سن کر موقعہ پر ان کے حل کرنے کے احکامات جاری کرتے تھے۔ اس وسیع کمرے میں سادے صوفے رکھے ہوئے تھے۔ پھر انتظار گاہ پہنچا۔ ہلکے سبز رنگ کے پردوں نے کمرہ کا ماحول سکون بنایا ہوا تھا۔ترجمان نے بات شروع کی تو میں نے شاہ فیصل سے مخاطب ہو کر عرض کیا کہ اہل پاکستان کی تاریخ، ان کی تہذیب بنیادی اور ان کے معاشرتی رجحانات عرب کی سرزمین سے وابستہ ہیں۔پاکستان پوری اسلامی تاریخ کے تسلسل سے عبارت ہے۔ ہماری تاریخ کے عظیم کردار وہی ہیں جو اسلامی تاریخ کے کردار ہیں۔ہمارے جذباتی رشتے، روحانی سوتے، ہمارے فکرپیمانے عرب کی تاریخ سے اُبھرتے آئے ہیں۔ شاہ فیصل نے جواب میں کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ اسلامی رشتے میں منسلک ہیں۔ ہم ا للہ تعالیٰ کو اپنا رب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی، قرآن ہم سب کی مشترکہ کتاب اسلام ہمارا دین اور دینی و روحانی رشتے، مادی رشتوں سے زیادہ مضبوط ہیںجو کبھی نہیں ٹوٹتے۔ الطاف قریشی نے 1965ء میں سعودی عرب کی مادی اور اخلاقی مدد کاشکریہ ادا کیا تو شاہ فیصل نے کہا کہ ہم نے صرف فرض ادا کیا تھا۔ ہم دعا کرتے ہیں اللہ ہمیں فرض ادا کرنے کی توفیق عطا کرتارہے۔ الطاف قریشی نے پاکستان سعودی عرب کے آپس میں تعاون کی بات کی تو شاہ فصیل نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے دونوں طرف سے غیرسگالی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔الطاف قریشی نے کہاآ پ دور حکومت میں سعودی عرب نے ترقی کی منازلیں طے کی ہیں۔ میں اس پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔ شاہ فیصل نے کہا
شکریہ ۔ یہ سب اللہ کی مدد سے ممکن ہوا۔ الطاف قریشی نے کہا کہ عالم اسلام ایک مضبوط قیادت کا تقاضا کر رہاہے۔ کیا آپ نے یہ منصب سنبھالنے کا کبھی سوچا۔ شاہ فیصل نے جواب دیا۔ قیادت کا کبھی خیال نہیں آیا۔اللہ نے ہمیں حرمین شریفیں کی خدمت کا موقع عطا کر رکھا ہے۔ میں تواسلام کا ایک ادنیٰ ساسپاہی ہوں۔الطاف قریشی نے اُردو ڈائجسٹ کاستمبر1967ء کا شمارہ پیش کیاجس میں عرب اسرائیل جنگ کا تذکرہ تھا۔ شاہ فیصل نے پسند کیا اوراشاعت معلوم کرنے پر میں نے کہا کہ ایک لاکھ ہے۔ الطاف قریشی نے سوال کیا عالم اسلام کا اس وقت سب سے بڑا کون سا خطرہ ہے۔ جواب ملا کہ افتراق و انتشار۔کہیں اشترکی نظریات ہیں، کہیں قوم پرستی ہے اور کہیں تہذیب کے نام پر بے دینی سر اُٹھا رہی ہے۔صحیح اسلام ذہن رکھنے والے ذہین اور با صلاحیت افراد ڈٹ کر غیر اسلامی نظریات کا مقابلہ کریں اور اسلامی زندگی کو تمام گوشوں میں ایسے دل نشین انداز میں پیش کریں کہ جدید ذہن متاثر ہوتے جائیں۔ فکری اور علمی تحریک منظم ہونا بہت ضروری ہے۔اسلام محبت، اخوت، امن سلامتی، قوت و صلابت اور ترقی و فضیلت کا مذہب ہے۔ جسے اسلام اور نصرت و عزت عزیز ہو اس کے لیے راستہ واضع ہے۔ جو تحریف کرنا او اسلام سے وی چیزیں منسوب کرنا چاہتے ہیں جن سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ، تو وہ مسلمان خدا کے منکر ہیں”الطاف قریشی نے سوال کیا اسلامی سوشلزم کیا مسائل کا حل ہے۔ شاہ فیصل نے کہا سوشلزم کی پیوندکاری درست نہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ مسلمانوں کی دولت مشترکہ بنانی چاہیے۔ ہم مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی کوششیں کر رہے ہیں۔اسرائیل جارحیت کے سوال پر کہا کہ ہمیں اپنے مسائل خود حل کرنے چاہییں۔الطاف
قریشی نے سوال کیا مغربی دانشور کہتے ہیں کہ اسلامی نظام پرانے وقت کی بات ہے۔شاہ فیصل نے جواب دیا یہ گمراہ کن نظریہ ہے۔ اسلام ہر دور کے لیے ہے۔ اقتصادیات پر قابو پانے کے لیے شاہ فیصل نے سرکاری اخراجات میں تخفیف کی
۔ وسائل کو اسلامی وحدت اور فلسطینیوں کے حالت بہتر بنانے پر خرچ کیے۔ اسلام آباد میں شاہ فیصل مسجد، شاہ فیصل فائنڈیشن قائم کیں۔شاہ فیصل کی کوشش سے خرطوم میں1967ء میں اسلامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ شاہ فیصل نے نظام عدل کے لیے اسلامی اصولوں سے مدد لی۔ سپریم علما کونسل قائم کی۔ ان کے دور میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔1963ء میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے پہلا ٹیلی ویژن قائم کیا۔1962ء میں رابطہ عالم اسلامی کی بنیاد رکھی۔مدینہ یونیورسٹی قائم ہوئی۔شاہ فیصل کے یہ الفاظ تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھے جائیں گے” کہا میرے بھائیوں میں تم سے التجا کرتا ہوں کہ مجھے اپنا بھائی اور اپنا خادم سمجھو۔ بادشاہت صرف اللہ تعالی کو زیب دیتے ہیں”۔ شاہ فیصل کی محنت سے1969ء میں رباط میں اسلامی ملکوں کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد 1974ء لاہور میں اسلامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ شاہ فیصل نے1973ء عرب اسرائیل جنگ میں تیل کی سپلائی بند کی۔ اس بہادری پر ہفت روزہ ٹائمز نے انہیں ”مین آف دی ایئر قرار دیا تھا”۔آج غزہ میں فلسطینی ایک لاکھ کے قریب ہلاک، زخمی، لا پتہ اور ملبے تلے دبے ہوئے ہیں مگر سعودی عرب اور ایک دوسرے عرب ملک نے تیل کی سپلائی بند نہیں کی بلکہ اس کا بیان ہے کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو جائے تو سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔۔آج مشکل کی اس گھڑی میں مسلم اتحاد کے پیغمبر شاہ فیصل کو مسلمان یاد کرتے ہیں۔
0 56 6 minutes read