
ایک سوال جو عوام کے ذہنوں میں اٹھتا ہے کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کی کوشش قائد اعظم محمد علی جناح نے کی تھی؟اس پاکستان کے لیے لاکھوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے؟عورتوں کی کثیر تعداد نے اپنی عزتیں گنوائیں اور چھوٹے چھوٹے معصوم بچے،جو ہزاروں کی تعداد میں تھے،نیزوں میں پروئے گئے۔اتنی قربانیوں کے باوجود حاصل ہونے والا ملک پاکستان لاقانونیت کا شکار ہے۔قائداعظم نے ایک دفعہ کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔وہ کھوٹے سکے اپنے مطلب کے لئے قائداعظم کا ساتھ دے رہے تھے۔اس وقت تو کھوٹے سکوں کی تعداد کم تھی،لیکن موجودہ پاکستان میں کھوٹے سکوں کی تعداد بہت ہی بڑھ گئی ہے۔قاداعظم ایسا پاکستان بنانا چاہتے تھے،جہاں تمام رہنے والوں کو مساوی حقوق ملیں۔کوئی کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرسکے۔کوئی قوم یا زبان کی بنا پر اپنے آپ کو برتر نہ سمجھے۔تمام کام میرٹ پر ہوں۔قائد اعظم چاہتے تھیکہ یہاں کا قانون اسلامی ہو۔کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اسلام ہی مکمل ضابطہ حیات ہے۔وہ ذات پات,فرقوں یا رنگ و نسل کی تقسیم کے خلاف تھے۔انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے ایک علیحدہ مملکت حاصل کرلی۔مگر موجودہ پاکستان کس راستے پر چل رہا ہے؟کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال اور قائد اعظم سمیت لاکھوں انسانوں نے دیکھا تھا؟مہنگائی سے پستی عوام سوچ رہی ہے کہ ایسا پاکستان تو قائداعظم نے نہیں بنایا تھا۔ہر روز کہیں نہ کہیں بم دھماکے ہو رہے ہیں،چوریاں ہو رہی ہیں،قتل و غارت کا بازار گرم ہے اور عدل و انصاف کی دھجیاں اڑا جارہی ہیں۔پاکستان میں شاید کوئی ایسا ادارہ نہیں بچاجہاں رشوت کے بغیر کام ہوتا ہو۔سیاستدان اور بیورو کریٹ ملک پر قابض ہو چکے ہیں۔ان کی مرضی کے بغیر ملک کا چلنا محال ہو چکا ہے۔ایسے حالات میں عام آدمی جینے کے لیے ترس رہا ہے،،لیکن حکمران ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔عام آدمی کو ادویات دستیاب نہیں،دو لقموں کے لئے ترس رہا ہے،بے روزگاری بڑھ چکی ہے۔قرضوں کا پہاڑ دن بدن بڑھ رہاہے۔قیمتی اثاثہ جات بیچے جارہے ہیں۔اب دشمنوں نے پاکستان کے قیمتی اثاثہ ایٹمی توانا پر آنکھیں گاڑ رکھی ہیں۔ کوئی بھی مہذب ریاست اپنے شہریوں کی فلاح کا خیال رکھتی ہے۔لیکن پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جہاں دوسرے ممالک کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔پاکستان میں جو طاقتور ہے,اس کو من مانی کرنے کی اجازت ہے۔پاکستان کی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔اس ملک کواللہ تعالی نے سمندر کا وسیع خزانہ بھی عطا کیا ہے ،کوئلہ جیسی قیمتی معدنیات بھی عطا کی ہیں۔نمک کیکافی ذخایرہیں۔زرخیز زمینیں ہیں۔اتنے قیمتی خزانے رکھنے کے باوجود پاکستان ہمیشہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا رہتا ہے۔زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کو گندم اور دوسرے اناج میں خود کفیل ہونا چاہیے تھا،لیکن پاکستان دوسرے ممالک سے گندم جیسی بنیادی ضرورت بھی خریدنے پر مجبور ہے۔مختلف مسائل کیشکار پاکستانی عوام مختلف قسم کے ذہنی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔راقم نیایک دفعہ ایک رپورٹ پڑھی تھی کہ پاکستان میں ذہنی امراض کی شرح 34 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔مسائل کے شکار کی پاکستانی خود کشیاں کر رہے ہیں۔ایک ریاست جو شہری کوحقوق دینے کی ذمہ دار ہوتی ہے،اب حقوق دینے سے قاصر نظر آتی ہے،اہم عہدوں پر فازافرادکا ذکر ہی کیا،عام افراد بھی دھوکہ دہی کو برا نہیں سمجھ رہے۔ایک عام فرد بھی معمولی سے فائدے کے لئے کسی دوسرے کو کروڑوں کا نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتا۔ علامہ اقبال نے ایک بہترین ریاست کا خواب دیکھا تھا،اس خواب کو پایہ تکمیل تک قائد اعظم نے اپنی انتھک محنت سے پہنچایا۔قائداعظم کے ساتھ لاکھوں مسلمانوں نے عظیم جدوجہد کی۔اس جدوجہد کے نتیجے میں ملک پاکستان وجود میں آیا۔قیام پاکستان کے وقت ک قسم کی مشکلات پیش آ رہی تھی۔قائداعظم کی رحلت کے بعد ایسا خلا پیدا ہو گیاتھاجو ابھی تک نہیں بھراجا سکا۔قائداعظم رح سے جب پوچھا گیا تھا کہ اب پاکستان کا آئین کس طرح بنائیں گے؟انہوں نے جواب دیا تھا کہ ہمارے پاس چودہ سوسال پہلے سے ہی آین موجود ہے۔انہوں نے ایک ایسے پاکستان کے لیے جدوجہد کی تھی جہاں عام آدمی بھی حقوق حاصل کر سکے۔گیارہ ستمبر کی تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ ہر فرد آزاد ہے۔اگر کوئی مسجد جانا چاہیے یا مندر،چرچ جانا چاہیے جا گردوارہ،ہرکسی کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ایسا نظام اسلام نیچودہ سو سال پہلے ہی دے دیا تھا۔قرآن کریم میں ارشاد ہے۔دین میں جبر نہیںسور الکافرون میں ہے کہ تمہارے لئے تمہارا دین اور ہمارے لئے ہمارا دینقرآنی تعلیمات سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ہر کسی کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔اسلام کسی کو زبردستی دین میں داخل نہیں کرتا۔قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ بھی ایسی ریاست بناناچاہتے تھے،جہاں ہر کسی کو زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہو۔پاکستان کی بدقسمتی کہ اس کو اچھی قیادت نصیب نہیں ہوئی۔پاکستانی عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔پاکستان میں ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ یہاں حق کی بات بلند کرنا جرم قرار دیا گیا ہے۔ایسا پاکستان جو قائداعظم چاہتے تھے کہ اسلامی اصولوں کے مطابق چلے،اس کے لیے عوام کو جدوجہد کرنی ہوگی۔عوام کو شعوری بیداری کی ضرورت ہے۔جب تک عوام بیدار نہیں ہوگی اس وقت تک ہم عظیم پاکستان کی طرف سفر نہیں کر سکتے۔ایسے پاکستان کے لیے ہمیں قربانیاں بھی دینی ہوگی۔قربانی اورجدوجہد سے ہی ہم ایسا پاکستانی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں،جس کا خواب پاکستان بنانے والوں نے دیکھا تھا۔ہمیں وراثت میں جوپاکستان دیا گیا تھا اس کو بھی اکہتر میں دو ٹکڑے کر دیا گیا ہے۔بچاکھچا پاکستان کو ہم عظیم سلطنت بنا سکتے ہیں۔عظیم سلطنت تب بنے گی جب ہمیں آگاہی حاصل ہوگی۔بحیثیت قوم ہمیں ماضی کا بھی جازہ لینا ہو گا کہ ہم سے کون سی غلطیاں سرزد ہوگئی ہیں کہ آگے بڑھنے کی بجائے ہم پیچھے کی طرف سفر کر رہے ہیں۔پاکستان نے بدتر سے بدترین کی طرف سفر کیاہے۔اب ہمیں بدترین سے بہترکی طرف سفر کرنا ہوگا۔ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔اب بھی وقت ہے کہ پاکستان ایک عظیم سلطنت کے طور پر ابھر سکتا ہے۔یہ ایک ایسا خواب ہے جس سے ہم آنے والی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔سب سے بڑی بات جو ہمیں نقصان پہنچا رہی ہے وہ آپس کی نااتفاقی ہے۔ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی عادت نے ہمیں دنیا میں رسوا کر دیا ہے۔ہم متحدہو کر ملک پاکستان کو ایسی عظیم سلطنت بنا سکتے ہیں جودنیا کو لیڈ کرے۔