فرزندِ راولپنڈی شیخ رشید احمد ایک مرتبہ پھر گرفتار ہو گے ہیں۔ اس سے پہلے انہیں خفیہ طور پر گرفتار کر کے چِلہ کشی پر روانہ کر دیا گیا تھا۔ چِلہ ہمیشہ کسی نہ کسی غرض یا مقصد کے لے کاٹا جاتا ہے۔ کسی کا مقصد محبوب کو قدموں میں لانا ہوتا ہے تو کوی حالات بہتر بنانے کے لے چلہ کشی کرتا ہے۔ اکثر لوگ اپنی عاقبت سنوارنے اور دین سیکھنے کے لے تبلیغی جماعت کے ساتھ چلہ لگاتے ہیں۔ کچھ لوگ جادو سیکھنے کے لے چلہ کھنچتے ہیں تو بعض لوگ کسی جن، ہمزاد یا مکل کو قابو کرنے کے لے چلہ کشی کرتے ہیں۔ شیخ رشید کا چلہ اس لحاظ سے منفرد تھا کہ انہیں مکلوں نے قابو کر کے نہ صرف چلہ کشی پر مجبور کر دیا تھا بلکہ اس چلے کے صلے میں مکل اور عامل ایک دوسرے کے عہد و پیماں سے آزاد ہو گے تھے۔ البتہ عامل پر یہ پابندی ضرور عاد کر دی گی تھی کہ وہ اپنے سابق مکلین کے خلاف حرفِ طعن زبان پر نہیں لاے گا۔ یہی وجہ ہے کہ چلے سے آزادی کے بعد شیخ رشید بدستور انہی کی وفا کا دم بھرتے رہے ہیں۔گزشتہ چند سالوں سے شیخ رشید یہ بات تسلسل سے کہتے آ رہے تھے کہ وہ اپنی سیاست کی آخری اننگز کھیل رہے ہیں مگر اس کا کیا کیا جاے کہچھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوی۔شیخ رشید جیسا Seasoned سیاستدان سیاسی میدان سے باہر رہ ہی نہیں سکتا۔ اپنی گرفتاری کا انہیں شاید پہلے ہی سے پتا چل گیا تھا۔ گرفتاری سے ایک دن پہلے انہوں نے اپنے پیغام میں ووٹروں سے کہا تھا کہ وہ جیل میں بیٹھ کر یہ الیکشن لڑیں گے۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا، انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ الیکشن لڑنا آج کل لاکھوں کا نہیں بلکہ کروڑوں کا کھیل بن چکا ہے۔ شیخ رشید بہت سیانے بھی ہیں اور اوپر سے روایتی شیخ بھی۔ سیاست میں انہوں نے بہت کچھ بنایا ہے، خرچ کبھی نہیں کیا۔ وہ چلے سے واپسی کے بعد عمران خان کو مسلسل یقین دلاتے رہے کہ بہتی ندی میں ڈبکی لگانے کے باوجود وہ خشک کپڑوں کے ساتھ ندی سے باہر نکلے ہیں مگر عمران خان نے ان کی بات پر یقین نہیں کیا۔ انہوں نے تو ڈاکٹر شہباز گِل المعروف جٹاں دے منڈے کی چلہ کشی کے بعد اسے اپنے آپ سے دور کر دیا تھا جو خان کا چیف آف سٹاف رہ چکا تھا، شیخ صاحب تو پھر بھی ان کے صرف سیاسی حلیف تھے۔ عمران خان نے شیخ رشید اور ان کے بھتیجے شیخ راشد کے خلاف اپنے امیدوار میدان میں لا کر شیخ رشید کی تمام امیدوں اور کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ شیخ صاحب نے جواب میں وہی کچھ کیا جس کی ان سے توقع کی جا سکتی تھی۔ لال حویلی پی ٹی آی کے پرچم اور عمران خان کی تصویر سے محروم ہو گی۔ شیخ صاحب نے عمران خان سے شکوہ کیا کہ چلے کے دوران انہوں نے عمران خان کے خلاف کوی مخبری نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسروں کی طرح پریس کانفرنس کی اور نا ہی خان پر الزامات لگاے۔ شیخ رشید نے خان کی جانب سے ناقدری کا شکوہ بھی کیا۔ اس کے ساتھ ہی شیخ صاحب کو اپنی اور شیخ راشد کی شکست بھی دیوار پر لکھی ہوی نظر آنے لگی۔ انہیں پی ٹی آی کی ٹکٹ ملنے کی صورت میں پبلسٹی، ووٹ، سپورٹ اور فنڈز کی صورت میں جو مدد ملنے والی تھی اس سے محروم ہو گے تو وہ سمجھ گے کہ اب الیکشن پر اخراجات کرنا گھاٹے کا سودا ہے۔ ایسی صورت میں انہیں جیل ہی وارا کھاتی تھی۔ انہیں یہ سہولت دے دی گی ہے۔یاد رکھے گا ! اس کیس سے وہ سرخرو ہو جایں گے۔ شیخ رشید گزشتہ کچھ عرصے سے ایک بات تسلسل کے ساتھ دوہراتے چلے آ رہے ہیں اور وہ بات ہے خود کو اصلی اور نسلی قرار دینا۔ اس انترے کے ساتھ استھای کے بول دوہرانا وہ کبھی نہیں بھولتے کہ میں سترہ دفعہ وزیر رہ چکا ہوں۔ انہوں نے 2017 میں سپریم کورٹ میں اپنے بیان میں سات مرتبہ وزیر رہنے کا دعوی کیا تھا جس پر چوہدری نثار نے کہا تھا کہ موصوف دو مرتبہ نواز شریف اور ایک مرتبہ پرویز مشرف کی کابینہ میں وزیر رہے ہیں۔ یعنی وہ صرف تین بار وزیر رہے ہیں۔ اس کے بعد شیخ صاحب ایک بار عمران خان کی کابینہ میں وزیر رہے۔ اگرچہ اس دوران ایک مرتبہ ان کی وزارت تبدیل کی گی مگر ٹینیور ایک ہی تھا۔ بہت حساب لگانے کے بعد بھی ہمیں سترہ مرتبہ وزارت کی سمجھ نہیں آ سکی کہ جب سے وہ پارلیمانی سیاست میں آے ہیں تب سے اب تک دس حکومتیں بنی ہیں جن میں سے نصف میں وہ اپوزیشن میں تھے یا پارلیمنٹ سے باہر تھے۔ تاہم اگر ان کا سترہ مرتبہ وزارت کا دعوی مان بھی لیا جاے تو پھر اصلی اور نسلی والے دعوے پر شک ہونے لگتا ہے۔ کیونکہ اصلی اور نسلی کی تو پہچان ہی وفاداری ہے۔ وہ جان دے کر بھی وفا نبھاتا ہے۔ ہمارے ہاں سترہ مرتبہ کسی پارٹی کی حکومت کب آی ہے؟ سترہ مرتبہ وزارت کے دعوے کا مطلب تو یہی ہے کہ وہ بہت سی پارٹیوں میں شامل رہے اور ان پارٹیوں کی حکومت میں وزرات کے قلمدان سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اگر ایسا ہوا ہے تو پھر ان کے اصلی اور نسلی ہونے کے دعوے کو رد کرتے ہوے ہمیں کہنا پڑے گا کہ وہ اپنے دعوے کے مطابق اصلی اور نسلی تو ہیں مگر عملی طور پر وہ فصلی بھی ثابت ہوے ہیں۔
0 42 4 minutes read