کالم

اقتدار اور انتشارایک ساتھ نہیں چل سکتے

عام انتخابات کا انعقاد اب چند دنوں کی دوری پر ہے، 8فروری کو بارھویں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔تاہم یہ انتخابات انعقاد سے قبل ہی کافی متنازع ہوچکے ہیں۔آئین پاکستان کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل یا مدت پوری ہونے کیبعد 90روز میں انتخابات کا انعقاد ضروری ہے لیکن اس پر عمل نہ ہوا۔کے پی کے اور پنجاب میں تو نگران سیٹ اپ طویل ہی ہوگیا۔ پی ٹی آئی کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ملکی سیاست میں بہت کچھ نیا ہوا۔سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پرانتخابات کے لیے 8فروری کی تاریخ مقرر ہوئی، چیف جسٹس آف پاکستان نے انتخابات کے حوالہ سے بے یقینی کو ختم کرنے کے لیے انتخابات کے فیصلہ کو پتھر پر لکیرکہا۔ایک طرف سینٹ میں انتخابات کے التوا کی قرار داد آئی، مسلم لیگ(ن) کی طرف سے انتخابی مہم کا شروع نہ ہونا اور پی ٹی آئی کی طرف سے سیاسی سرگرمیوں کے حوالہ سے اجازت نہ ملنے کی شکایت پر سیاست میں انتخابی رنگ نمایاں نہ ہوسکا۔پی ٹی آئی عدالتوں کے چکروں میں رہی۔سب سے بڑی خبر یہ کہ پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان بلا سے محروم ہوگئی۔ پی ٹی آئی الیکشن کمیشن پر مکمل عدم اعتماد کرچکی ہے۔امیدواران کی گرفتاریاں، کاغذات جمع کروانے سے لیکر منظوری تک اپیلیں اور لیگل پریکٹیس ہی نظر آئی۔بالآخر پی ٹی آئی کے تمام امیدوار مختلف نشانات پر بطور آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔پنجاب سے پی پی پی نے بھی شکایت کی کہ ہمارے ساتھی امیدواران کو انتخابی نشان نہیں دیا گیا۔الیکشن کمیشن کی کارکردگی سیصرف مسلم لیگ (ن) ہی مکمل مطمئن ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی نے ”بلا” نشان کو بیلٹ پیپر سے ہٹائے جانے کودرست قرار نہیں دیا۔ جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتیں بھی پی ٹی آئی کے انتخابی عمل میں اپنے نشان سے شریک رہنے کے حق میں تھی۔ قانونی معاملات سے ہٹ کر یہ سیاسی خواہش ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن سیاسی لحاظ سے مسلم لیگ(ن)کے رہنما بلا نشان کی موجودگی پر کسی طور پر تیار نہ تھی۔ مریم نواز نے اوکاڑہ میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان تو کیا عبرت کا نشان ہونا چاہیے۔مسلم لیگ (ن) کے رہنماوں کا لہجہ نہ صرف تلخ ہے بلکہ وہ پی ٹی آئی کو سیاسی گروانڈ میں دیکھنا بھی نہیں چاہتے۔بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سیاسی مخالفین کو پچ سے آوٹ دیکھنا چاہتی ہے۔جماعت اسلامی کامطالبہ ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) سے بھی انتخابی نشان واپس لئیے جائیں۔ان بیانات کو پڑھیں تو ایسا گمان ہوتا ہے سیاسی قیادت انتخابی عمل میں شرکت سے پہلے مقابلے کے لئے اپنی پسند کی پچ چاہتی ہیں۔مخالف ٹیم کون ہو اسکا فیصلہ بھی سیاسی جماعت خود کرنا چاہتی ہے۔انتخابی مہم میں تلخی ضرور ہوتی ہے۔ سیاسی بیان بازی لیکن مقابلہ سے پہلے خواہشات کا احترام اور شرائط کا پورا ہونا کچھ مختلف ہے۔اس سیاسی ماحول کے اثرات آئندہ سیاست پر بھی ہونگے۔مسلم لیگ(ن) نے بہت تاخیر سے ”بلا”نشان کے ختم ہونے کے بعد اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔مسلم لیگ(ن)کی انتخابی مہم 15 جنوری کو اوکاڑہ میں مریم نواز شریف کے جلسہ سے شروع ہوئی۔قائد مسلم لیگ (ن) میاں نوازشریف بھی میدان عمل میں ہونگے۔وطن واپسی کے بعد 21اکتوبر سے تاحال وہ ڈرائینگ روم اور کانفرنس روم میں اپنے پارٹی رہنماوں کے ساتھ ہی مصروف رہے۔انتخابی مہم کا آغاز ہوا لیکن منشور ابھی تک جاری نہیں ہوا۔ چلیں اوکاڑہ سے انتخابی مہم کا آغاز تو ہوا۔بلاول بھٹو زرداری نے اس دوران اپنی انتخابی مہم جاری رکھی اور چاروں صوبوں میں عوامی اجتماعات سے خطاب کرچکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اوکاڑہ کا انتخاب کیا اوکاڑہ میں مسلم لیگ(ن) کے پاس ریاض الحق جج، راو اجمل، ندیم عباس ربیرہ اور میاں منیر کی صورت میں مضبوط امیدوار ہیں۔2018کے انتخابات میں ضلع اوکاڑہ ہی نہیں ساہیوال ڈوِیژن کے دوسرے دونوں اضلاع پاکپتن اور ساہیوال میں بھی مسلم لیگ (ن)نے کلین سویپ کیا تھا۔اوکاڑہ میں ریاض الحق جج مسلم لیگ(ن)کا پلس پوائنٹ ہے۔انتخابی مہم ہو یا کوئی دوسرا ایونٹ ریاض الحق جج، فیاض ظفر اور انکی ٹیم بہت بہتر انداز میں اہتمام کرنا جانتے ہیں۔اگر یہ دیکھا جائے کہ مریم نواز شریف نے اوکاڑہ کا انتخاب کیا تو اسکا پس منظر یہی ہے جو راقم الحروف نے سطور بالا میں بیان کیا۔اوکاڑہ میں خطاب کیدوران پی ٹی آئی کے بارے مریم نواز شریف کا لہجہ تلخ اور غصہ واضح محسوس ہوا۔انہوں نے پی ٹی آئی کے حوالہ سے کہاتم کہو تو الیکشن کمیشن سے کہہ کر تمیں ڈنڈا ہی انتخابی نشان لے دیتے ہیں۔اس جماعت کو پٹرول بم کا نشان ملنا چاہیے، چوری شدہ گھڑی کا نشان ملنا چاہیے۔انہوں نے پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت سے دہشتگرد جماعت قرار دیا۔اس خطاب میں پاکستان کے مسائل اور انکا حل بنیادی نقطہ نہیں تھے۔ پی ٹی آئی اور اسکے سہولت کار ہی مریم نوازشریف کا موضوع رہے۔مریم نوازشریف کے استقبالی فلیکس پر سیاہی پھینکی گئی اور پوسٹرز بھی پھاڑے گئے۔یہ قابل شرم روایت قائم ہوئی۔دوسری طرف بلاول بھٹو روزانہ کی بنیاد پر مختلف شہروں میں سیاسی مخالفین پر تنقید کے ساتھ تقسیم اور نفرت کی سیاست کے خاتمہ کی بات کرتے آرہے ہیں۔قارِئین کرام! پی ٹی آئی کے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ اور جائز شکایات تمام تر سیاسی جماعتوں کے سیاسی کردار پر سوالیہ نشان ہیں۔ان حالات تک پی ٹی آئی کو پہنچانے میں بانی پی ٹی آئی کے فیصلوں، طرزعمل اور نفرت انگیز شعلہ بیانی کاعمل دخل ہے۔لیکن سیاست آگے بڑھنے کا نام ہے انتقام اور مخالف کے انجام پر خوش ہونے کا نام نہیں۔8فروری کو انتخابات تو ہونے جارہے ہیں لیکن انتخابات کے نتائج پر ابھی سے سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔پی ٹی آئی ٹیکنیکل بنیاد پر بلا سے محروم ہوئی لیکن مظلومیت کاقائم تاثر مزید گہرا ہوتا جارہا ہے۔یہ حالات جمہوری نظام پر ضرب کاری ہونے کے ساتھ لمحہ فکریہ ہیں کیونکہ یہ امر مسلمہ ہے کہ جمہوری ممالک میں باہمی افہام و تہفیم اور ایک دوسرے کے موقف پر توجہ دینے سے ہی جمہوری تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ضد، ہٹ دھرمی اور مختلف مسائل کو اناء کا مسئلہ بنانے سے جمہوری نظام میں شنوائی اورمفاہمت کے پہلو مفقود ہو کر رہ جاتے ہیں۔اس طرح حالات میں بہتری نہیں بگاڑ میں اضافہ ہوتا ہے۔حالات کا جائزہ لینے سے یہی نظر آتا ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد تقسیم ہی مقدر ہے۔بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے۔شیخ حسینہ واجد نے انتخابات کے ساتھ اپنی آمرانہ گرفت مضبوط کرنے میں کامیاب تو ہوگئیں مگرانتخابات سے پہلے شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے اپنے کئی ہزار سیاسی حریفوں اور حامیوں کو گرفتار کیا تھا۔ اس عمل کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اسے انتخابات سے پہلے اپوزیشن کو مفلوج کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔اب اس صورتحال کو خطرہ قرار دیا جارہا ہے ۔سیاسی تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ بنگہ دیش کا آمریت کی طرف جانا اس کے لیے سب سے بڑے خطروں میں سے ایک ہے جبکہ کچھ سالوں پہلے تک خبروں میں بنگلہ دیش کو ایک ‘معاشی معجزہ’ قرار دیا جاتا تھا۔گزشتہ برسوں میں بنگلہ دیش نے مضبوط اقتصادی ترقی دیکھی تھی۔آج دنیا نے بنگلہ دیش کے انتخابات کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اسی طرح اگر پاکستان بھی متنازعہ انتخابات کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتا ہے تو یہ کسی کے لیے بھی بہتر نہیں۔ہمارے مسائل بنگلہ دیش سے زیادہ ہیں اس لیے ہمیں ایسی صورتحال سے بچنا چاہیے۔8 فروری کو ہونے والے انتخابات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اقتصادی بہتری سیاسی استحکام سے جڑی ہے۔جتنی جلدی ہوسکے سیاسی قیادت کو ان حالات کا ادراک کرنا چاہیے اور نفرت اور تقسیم کو ختم کرنا چاہیے۔ یہ بات واضح ہے کہ اقتدار اور انتشار کو ایک ساتھ لیکر چلانہیں جاسکتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button