پشاور۔ :خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع سے متعلق سروے رپورٹ کے مطابق 34ہائیرسیکنڈری، 281 ہائی، 249 مڈل اور 331 پرائمری ا سکولز کی کمی ہے ۔سروے رپورٹ کے مطابق قبائلی علاقوں کی15 فیصد آبادی سڑکوں اور 30 فیصد آبادی صاف پانی سے محروم ہے۔محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں اسکولوں کی کمی اور بنیادی سہولیات پر کام جاری ہے، ضم شدہ اضلاع میں اسکولز بہت ہیں مگر وہاں سہولیات کی کمی ہے۔ایک عالمی ادارے کی جانب سے نئے ضم شدہ اضلاع میں لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ سابقہ فاٹا یا خیبر پختونخوا میں ضم شدہ نئے اضلاع وہ علاقے ہیں جہاں کے عوام طویل عرصے سے بنیادی حقوق سے محروم چلے آرہے تھے مگر طالبانائزیشن اور دہشت گردی نے اس علاقے کی خواتین اور اقلیتوں کو مزید مشکلات سے دوچار کردیا، ان کو نقل و حرکت، بدسلوکی رسم ورواج اور اظہار رائے سمیت متعدد پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں کی 49 فیصد خواتین آبادی کو اپنے پاؤ ں پر کھڑا کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات کئے جائیں ۔ سروے میں ضم شدہ اضلاع کی کل 17 فیصد لڑکیاں پرائمری سکولوں میں زیر تعلیم ہیں مگر ہائی سکول تک پہنچتے پہنچتے یہ تعداد صرف 5 فیصد رہ جاتی ہے باقی وجوہات کیساتھ ساتھ اس کی ایک بڑی وجہ عسکریت پسندی کے دور میں ایک ہزار ایک سو پچانوے سکولوں کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنا بھی تھی باقی وجوہات میں علاقے میں پچاس فیصد شرح غربت، ہائی سکولوں کی کمی، سکولوں تک آنے جانے کے لئے آمد ورفت کی مشکلات اور پچاس فیصد سکولوں میں پانی بجلی اور ٹائلیٹ کی عدم دستیابی شامل ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نئے ضم شدہ اضلاع کی صورتحال ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے اس لئے مختلف اضلاع کی جغرافیائی معاشی اور معاشرتی صورتحال کو مدنظر رکھ کر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ پشاور اور چارسدہ سے منسلک ضلع مہمند اور خیبر کی صورتحال تیراہ بائزئی اور وزیرستان کی صورتحال سے بالکل مختلف ہے اس لئے ہر جگہ کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر مقامی سطح پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن قمر نسیم نے بات چیت کرتے ہوئے میڈیاکو بتایا کہ لڑکیوں کا تعلیم سے محروم ہونے کی بھی کئی وجوہات ہیں جیسا ارلی میرج، ٹرانسپورٹ کی سہولت، عدم تحفظ، اساتذہ کی کمی، تعلیمی اداروں کی کمی، تعلیمی شعبے کیلئے کم بجٹ رکھنا ودیگر کئی معاشرتی مجبوریاں ہیں۔قمر نسیم کے مطابق کہ یونیسف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 21 فیصد لڑکیوں کا 18 سال سے کم عمر میں شادیاں ہو جاتی ہیں اسی طرح ہیلتھ اینڈ ڈیموگرافک سروے کی ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں 23 فیصد لڑکیوں کی کم عمری میں شادیاں کیجاتی ہیں۔ ظاہری بات ہے جب لڑکیوں کی شادیاں ہو جاتی ہیں تو آگے وہ نہیں پڑھ سکتی۔ محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم اور حکومت خیبر پختونخوا کیجانب سے ڈبل شفٹ کلاسز و دیگر اقدامات کے باعث تعلیمی شعبے میں بہتری ضرور آئی ہے۔ اسی طرح گزشتہ 4 سال کے دوران صوبے میں تعلیم پر جتنا بجٹ خرچ ہوا ان میں سے 70 فیصد لڑکیوں اور باقی 30 فیصد لڑکوں کی تعلیم پر خرچ ہوا۔لیکن ابھی بھی بہت کام کرنا باقی ہے جیساکہ صوبے میں مجموعی طور پر پندرہ ہزار مزید سکول بنانے کی ضرورت ہے اور وسائل کی کمی کے باعث ان سکولوں کو بنانے میں 50 سال لگیں گے۔قمر نسیم کہتے ہیں کہ پاکستان نے عالمی سطح پر اپنے جی ڈی پی کا چھ فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن پاکستان موجودہ وقت میں اپنی جی ڈی پی کا دو اعشاریہ آٹھ فیصد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے جو کہ ہمسایہ ممالک میں سب سے کم ہے۔ اگر تعلیمی شرح کو بڑھانا ہے تو اسکے لئے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کا فارمولہ ایک بہترین حل ہے جس طرح سندھ حکومت نے کیا ہوا ہے،ساتھ ساتھ حکومت کو خیبر پختونخوا اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے تعلیم میں ماہرین تعلیم کو شامل کرنا چاہئیے۔ یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے دیکھا جائے آج کل جائیدادیں مہنگی ہونے کے باعث عوام حکومتوں کو زمین وقف نہیں کر رہی اسکے لئے حکومتوں نے خود اقدامات لینے ہونگے۔اسی طرح سیاسی جماعتوں اور آنے والی حکومت کو لڑکیوں کی تعلیم اور صنفی برابری کو ترجیحاتی موضوعات کے طور پر سامنے لیکر آنا ہوگا جبکہ حکومت اس حوالے سے قومی اور صوبائی وعدوں کو ترجیحاتی بنیادوں پر حل کرنے کا عہد کرکے عملی اقدامات بھی کریں۔خیبر پختونخوا میں ضم شدہ ضلع شمالی وزیرستان میں سیکڑوں سکولز بند ہوگئے ہیں۔دستاویزات کے مطابق شمالی وزیرستان میں طلبہ اور طالبات کے 949 سرکاری سکول موجود ہیں جن میں لڑکوں کے 462 سکول ہیں جن میں سے 379 پرائمری، 56 مڈل اور 37 ہائی سکول ہیں۔شمالی وزیرستان میں کل 487 گرلز سکول سرکاری ریکارڈ میں موجود ہیں، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر محب داوڑ کے مطابق رواں سال 13 ہزار کے قریب بچے لڑکوں کے سکولوں میں داخلے ہوئے۔سرکاری ریکارڈ کے مطابق شمالی وزیرستان میں 14 بوائز سکول مکمل طور پر بند ہیں اور آئی ڈی پیز کی واپسی کے منتظر ہیں جبکہ غیر فعال سکول اس کے علاوہ ہیں۔
0 71 3 minutes read