کالم

سندھ میں پہلی بار ایم کیو ایم کے بڑے رہنمائوں کی پی پی پی میں شمولیت

پاکستان میں سیاست کا دنگل لگ چکا ہے لیکن پاکستان میں غیر یقینی کی کیفیت پیدا کرنے کے لئے چند دن قبل سینیٹ (ایوان مقننہ ) نے انتخابات کو ملتوی کرنے کی قرارداد منظور کرلی۔ جسکے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست بھی لگ گئی ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ مرد آہن کی وجہ سے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں ن لیگ کو پی پی پی ، استحکام پاکستان پارٹی ، پی ٹی آئی ، ق لیگ، جماعت اسلامی، جے یو آئی، کا سامنا ہے۔ اسی مقابلے میں تحریک لبیک پاکستان سمیت مختلف پارٹیاں بھی نبرد آزما ہیں ۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی parlimientarian ، عوامی نیشنل پارٹی ، پی ٹی آئی ، جے یو آئی ، ن لیگ ، پی پی پی، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں نبرد آزما ہیں ۔ بلوچستان میں جے یو آئی، باپ ، ن لیگ ، پی پی پی ، جماعت اسلامی ، پی ٹی آئی ، بلوچستان کی علاقائی پارٹیاں نبردآزما ہیں ۔ سندھ میں دو طرح کی سیاست ہوتی ہے دیہی اور شہری سیاست اس بار شہری سیاست میں زبردست تبدیلی آئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بلدیاتی الیکشن میں ایم کیو ایم کے روایتی علاقوں کراچی ، حیدر آباد، میرپور خاص، نواب شاہ ، سکھر ، ٹنڈوالہ یار، کے علاقوں میں میئر شپ اور چیئرمین شپ حاصل کرکے ایم کیو ایم کو واش آئوٹ کردیا ہے۔ ان علاقوں میں ہمیشہ ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کا خلاء جماعت اسلامی پر کرتی تھی۔ لیکن اس بار پیپلز پارٹی نے میدان مار کر پانسہ پلٹ دیا ہے۔ سندھ میں کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کا مقابلہ پی پی پی ،پی ٹی آئی ، استحکام پارٹی ، مہاجر قومی موومنٹ، مہاجر اتحاد تحریک، جماعت اسلامی سے ہے جبکہ جی ڈی اے ، جے یو آئی ، مسلم لیگ فنکشنل، ن لیگ ، کے ساتھ کہیں ایڈجسٹمنٹ اور کہیں اتحاد کی صورت میں ہے۔ پیپلز پارٹی کا پلڑا سب جگہ بھاری ہے۔ تاہم مصطفی کمال اور انیس قائم خانی اور ڈاکٹر فاروق ستار کی واپسی سے ایم کیو ایم کی نشستیں تمام تر کوششوں کے باوجود دگنی ہوسکتی ہیں۔ حیدرآباد سے وہ اپنی روایتی نشستوں سے کامیاب ہوگی جبکہ حیدرآباد رورول سے پی پی پی روایتی نشستیں پہلے کی طرح نکالے گی۔ حیدرآباد ابتک ایم کیو ایم کی گرفت سے نہیں گیا۔ تاہم میرپورخاص مکمل طور پر انکے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ یہاں کی طاقتور شخصیات فاروق جمیل درانی ، طاہر جمیل درانی ، انیس ایڈووکیٹ پی پی پی کا حصہ بن چکے ہیں۔ فاروق جمیل درانی تین مرتبہ بلدیہ میرپورخاص کے میئر رہے ہیں ۔ انیس ایڈووکیٹ 1988میں ایم کیو ایم کے پہلے رکن قومی اسمبلی تھے۔ جبکہ لندن رابطہ کمیٹی ، پی ایس پی ، ایم مکیو ایم پاکستان کے اہم عہدوں پر رہے۔ میرپورخاص کے اہم خاندان میں درانی فیملی ، انیس ایڈووکیٹ خاص طور پر شامل ہیں ۔ گو یہاں سے فقیر میمن سابق ایم پی اے ، محمد حسین ایم پی اے ، اے پی ایم ایس او کے سابق چیئرمین رفیق عیسانی کا تعلق بھی یہیں سے رہا ہے جبکہ شبیر قائم خانی کا تعلق بھی جیمس آباد میرپور خاص سے ہے۔ اسکے باوجود ایم کیو ایم کمزور ترین پوزیشن پر آگئی ہے ۔ سندھ کے بلدیاتی الیکشن میں دو مرحلوں میں ایم کیو ایم نے حصہ لیا تھا لیکن کہیں سے بھی نشست نہیں ملی۔ ٹنڈو آدم بھی ہاتھ سے نکل گیا۔جسکے بعد بائیکاٹ کرکے عزت بچائی گئی۔ لیکن فاروق ستار ، مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی واپسی نے ایم کیو ایم پاکستان کو مضبوط جماعت بنادیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے شہری علاقوں کے لئے اپنی سیاسی حکمت عملی بدل کر ایم کیو ایم کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ 2020سے کراچی ہائٹس کی سوچ میں تبدیلی آئی۔ کراچی کے صدر سعید غنی کا اس میں بڑاا ہاتھ ہے۔ 2016کے بعد سب سے پہلے ہیر سوہو ایم پی اے پی پی پی میں شامل ہوئیں ۔ اسکے بعد وقار شاہ ساتھیوں سمیت، ایم کیو ایم آفاق کے وائس چیئرمین شمشاد غوری، بزنس کمیونٹی کے اور تنظیم عزاداری پاکستان کے صدر ایس ایم نقی ، سوشل میڈیا کی انچارج اور سی آئی سی رکن سیدہ تحسین عابدی ، ایم پی اے سمیتا افضل سید، ایم کیو ایم کے ابتدائی دور کے رہنما APMSOکے جامعہ کراچی کے آرگنائزر، سیکریٹری اطلاعات، پولیٹیکل سیکریٹری ، پریس سیکریٹری، شعبہ اطلاعات نیوز کے انچارج اور کلیدی عہدوں پر فائز رضوان احمد فکری، سینیٹرز مولانا تنویر الحق تھانوی، کرنل طاہر مشہدی، ایم پی اے سلیم بندھانی ، شیراز وحید، مزمل قریشی ، وسیم قریشی ، سیف یار خان ، سابق وزیر رضا ہارون ، انیس ایڈووکیٹ سمیت متعدد کی شمولیت نے نقشہ ہی بدل کر رکھ
دیا ہے۔ شہنیلہ خانزادہ جو حیدرآباد اور ٹنڈوالہ یار سے پی پی پی میں متحرک تھیں وہ کراچی میں متحرک ہوئیں اور متعدد افراد شامل کرائے۔ آل پاکستان مسلم لیگ پرویز مشرف کی سندھ کی سیکریٹری اطلاعات عائشہ خان ، ایم کیو ایم کے یونٹ انچارجز عادل خان ، محمد علی ، APMSOکے عہدیداران ، عمار خان ، محمد علی ، توصیف ، علاقائی عہدیداران اور ورکرز کی بڑی تعداد، پی ایس پی ، حقیقی، پی ٹی آئی ، فنکشنل اور مختلف جماعتوں کے افراد پی پی پی کا حصہ بن چکے ہیں۔ آصف علی زرداری نے میمن کمیونٹی اور تاجر برادری کو بھی پی پی پی میں شامل کرادیا۔ رضوان عرفان کو ایم پی اے کا ٹکٹ بھی دے دیا گیا ہے۔ اسی طرح بزنس مین اور معروف بلڈرر اور اثرو رسوخ رکھنے والے ایس ایم نقی کو ٹکٹ دیا گیا ہے جس سے آباد بھی پی پی پی کی جانب ہوگئی ہے۔ یہ بڑا جھٹکا ہے۔ جبکہ انیس ایڈووکیٹ اور رضا ہارون کی شمولیت نے بھی جمود طاری کردیا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے لئے میدان آسان نہیں ۔ دوسری جانب سنی تحریک اور تحریک لبیک پاکستان اور جے یو پی ایک پلیٹ فارم پر آگئے ہیں ۔ یہ بھی ایک ٹف معاملہ ہوگا۔ ایم کیو ایم کا اصل مقابلہ پی پی پی اور جماعت اسلامی سے ہوگا۔ پی ٹی آئی کو خاموش ووٹ مل سکتا ہے لیکن اسکی کوئی بڑی پوزیشن نہیں ۔ پی پی پی کی روایتی نشستوں پر بھی کانٹے کا مقابلہ ہوسکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button