یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پہلے الیکشن ہیںکہ جس کی ساکھ ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتی جارہی ہے، الیکشن کے پہلے ہی مرحلہ میں جو صورتحال سامنے آرہی ہے، اس سے شفاف الیکشن کی رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ رہی ہیں، ایک طرف تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی بڑی تعداد میں مسترد کئے گئے ہیںتو دوسری جانب پارٹی نشان چھین کر پارٹی کو ہی انتخابی عمل سے باہر کیا جارہا ہے،یہ طرز عمل اور ایسے فیصلے کسی کے لئے بھی سودمند نہیں،اِن کے لئے بھی نہیں کہ جن کی جیت کے امکانات ایسے فیصلوں سے پیدا کئے جارہے ہیں، عوامی حمایت کے بغیر کسی بھی سیاسی جماعت کی جیت، در اصل اس کی سیاسی ہار ہوتی ہے،یہ بنیادی رمز سیاسی جماعتوں کو سمجھنی چاہیئے، اگر ا ج کسی سیاسی جماعت کے لئے مشکلات پیدا کی جارہی ہیں تو کل یہ صورتحال کسی دوسری جماعت کو بھی در پیش ہو سکتی ہے۔
در اصل پاکستان کے اہل سیاست نے اپنے ماضی سے کچھ نہ سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے ،اس لیے بار بار اپنی پرانی روایت ہی دہرائے جارہے ہیں ،اس بار بھی ویساہی کچھ ہورہا ہے ،جو کہ اس سے قبل ہو تا رہا ہے ، ایک پارٹی کو نشانہ بنایا جارہا ہے تو دوسری کو اقتدار میںلایا جارہا ہے ، لیکن اس اندر باہر کے کھیل میں انتخابی عمل کی ساکھ بالکل ختم ہو کررہ گئی ہے ،افن اور ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان نے بھی قومی انتخابات کے شفاف ہونے کے بارے میں سوالات اٹھا دیے ہیں، فافن نے انتخابات میں کاغذات مسترد کرنے کے فیصلے پبلک کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ ہیومن رائٹس کی جانب سے سیاسی شخصیات کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے اور کالعدم تنظیموں کے امیدواروں کے کاغذات درست قرار دینے کا بھی ذکر کیا جارہاہے۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ ملک میںابھی انتخابات ہوئے ہی نہیں ہیں اور دو اہم تنظیموں نے بڑے ہی اہم نکات اٹھادیے ہیں، انتخابات سے قبل ہی ایسا عموماً نہیں ہوتا ہے، بلکہ انتخابات کے بعد ایسی باتیں سامنے لائی جاتی ہیں،تاہم اس بار بہت کچھ ایسا ہورہا ہے ،جوکہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوا ہے ، اس اعتبار سے فافن کا مطالبہ درست ہے کہ کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کی وجوہات سامنے لائی جائیں،اس کے سامنے آنے سے انتخابات کو شفاف بنانے میں مدد ملے گی، اس کاالیکشن کمیشن کو فوری جواب دینا چاہیے، کیو نکہ الیکشن کمیشن کو خود مختار تصور کیا جارہا ہے، اگر وہ واقعی خود مختار ہے تو اسے ان باتوں کا نہ صرف فوری نوٹس لینا چاہیے، بلکہ ان فیصلو ں پر نظر ثانی بھی کرنی چاہئے،اس جانب فافن نے توجہ بھی دلائی ہے کہ الیکشن کمیشن ضابطے کے خلاف کاغذات مسترد کرنے کے فیصلے کو مسترد کرنے کا حق بھی رکھتا ہے۔
یہ بات الیکشن کمیشن کو مد نظر رکھنی چاہئے کہ اس الیکشن پر دنیابھر کی نظر یں لگی ہوئی ہیں اور وہ الیکشن کمیشن کی ساری کار گزاری کو برے قریب سے نہ صرف دیکھ رہے ہیں ،بلکہ گزشتہ اور موجودہ ریکارڈ کا موازنہ کرتے ہوئے باور بھی کروارہے ہیں کہ اس کا کردار جانبدارانہ ہے ، فافن نے بھی گزشتہ انتخابات میں کاغذات مسترد ہونے کی شرح کا موازنہ کیا ہے، اس کے مطابق 2018 ء شرح دس اعشاریہ چار اور2013 میں یہ شرح چودہ اعشاریہ چھ تھی ,جبکہ رواں الیکشن میں یہ بارہ اعشاریہ چار فیصد ہے ،اس اعتبار سے2013 اور 2024 کے انتخابات میں یہ شرح زیادہ رہی ہے،2013 میں مسلم لیگ( ن) کو لایا گیا تھا اور2024 میں بھی مسلم لیگ( ن) کو ہی سلیکٹڈ پلس کا خطاب دیا جارہا ہے ،ایک طرف اپنے لاڈلے کو لایا جارہا ہے تو دوسری جانب عوام کے لاڈلے کو نکلاجارہا ہے ، اس کے بعد کہا جارہا ہے کہ ان انتخابات کو شفاف منصفانہ مانا جائے، لیکن یہ بات عوام کبھی نہیں مانیں گے۔
اگر دیکھاجائے تو انتخابات ایک ایسی سرگرمی کا نام ہے کہ جس میں پوری قوم ہی شریک ہوتی ہے، یہ ایسا عمل نہیں ہے کہ جسے متنازع بنا یاجائے ، اگر انتخابات کو متنازع بنایا جائے گا اورمنصفانہ شفاف نہیں بنایا جائے گا تو اس کے نتیجے میں پوری جمہوریت ہی ڈی ریل ہونے کا خطرہ ہے ،اس لیے ملک و قوم کے مفاد میں ہے کہ انتخابات شفافیت اور غیر جانبداری کے ساتھ ہی منعقد کیے جائیں، یہ شائبہ تک کسی کے ذہن میں نہیں آنا چاہئے کہ کوئی ریاستی ادارہ کسی خاص جماعت کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے ، اس کی وجہ سے انتخابی نتائج متنازعہ ہو سکتے ہیں،، قوم پرجوش ہے کہ اس بار اُسے آزادانہ اپنی رائے کے اظہار کا موقع دیا جا رہا ہے ،ضرورت اِس امر کی ہے کہ قوم کی امیدوں کو مایوسی کی طرف نہ دھکیلا جائے، لیکن ایک ایجنڈے کے تحت قوم کو مایوسی کی جانب ہی دھکیلا جارہا ہے ،اس کے نتائج کسی کیلئے بھی اچھے نہیں نکلیں گے۔
0 56 3 minutes read