کالم

کشمیریوں کا وکیل ۔۔۔کمزور دلیلوں کے ساتھ

قارئین! مجھے یہ کہنے میں قطعی کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی کہ من حیث القوم اپنے بڑے بھائی پاکستان کے ساتھ 1947ء سے لے کر آج تک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ چاہے کارگل کا محاذ ہو یا انڈیا کی سرینگر میں G.20کانفرنس،پاکستان کسی بھی اس طرح کے ایشو کو مناسب طریقے سے ڈیل نہیں کر پا رہا اور لگتا یوں ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے بجائے کشمیر کی بندر بانٹ شروع کی جا چکی ہے۔بھارت کے کسی بھی منفی پراپیگنڈے کا جواب پاکستان درست طریقے سے دینے میں کامیاب نہیں ہو رہا۔ بالکہ جان بوجھ کر لیت و لعل سے کام لے کر بھارت کو مزید جواز بنانے کے مواقع دئیے جا رہے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرے۔
قاریٔن محترم بڑے کرب کے ساتھ قلم زنی کر رہا ہوں کہ ہمارا بڑا بھایٔ پاکستان ہر فورم پہ کشمیریوں کو بیک ڈور پالیسی کے تحت ڈیل کر رہا ہے۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمارے زخموں پر مرہم لگانے والا ہمارا پیارا پاکستان اب رفتہ رفتہ کشمیر ایشو سے آنکھیں چرا رہا ہے بلکہ میں تو معزرت کے ساتھ لکھنے پہ مجبور ہوںکہ اب پاکستانی پالیسی میکرز آہستہ آہستہ بھارت کی طرف جھکتے نظر آ رہے ہیں۔ ١٩٤٧ سے لے کر ١٩٨٨ تک کی تحریک میں پاکستان نے جو بھرپور انداز میں کشمیر کا مسٔلہ عالمی فورم پر اجاگر کیا اس کا کویٔ ثانی نہیں۔ لیکن نجانے کس مصلحت کے تحت اب ہمارا بڑا بھایٔ ہمیں عالمی دنیا میں بے یار و مدد گار چھوڑرہا ھے۔ کہیں بھی کشمیر کے ایشو کو فلیش پوانٔٹ نہیں بنایا جا رہا جو کے ساری کشمیری قوم کے لیٔے باعث تشویش ہے۔گلگت بلتستان کو صوبہ بنا کر ہمارے بھایٔ نے ہم سے سوتیلوںوالا سلوک کیا جس پر ھر کشمیری دل برداشتہ ہے۔ ہم کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے قطعی خلاف نہیں لیکن جس طرح شمالی علاقہ جات کے ساتھ پاکستان نے کشمیریوں کی مشاورت کے بغیر اقدام اٹھایا اگر اس طرح کی کوشش آزاد کشمیر کے اندر کی گیٔ تو میں ایک محب وطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے دعوعے کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ پاکستان کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس لیٔے پاکستان کشمیری قوم کی مرضی کے خلاف کویٔ بھی قدم اٹھانے سے پہلے کشمیریوں کو ضرور اعتماد میں لے ورنہ حالات سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔بھارت آے روز کشمیری سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ چاہیے تو یہ کہ ھمارا وکیل اس مسٔلہ کو عالمی برادری تک لے جاے مگر گزشتہ کیٔ برسوںسے ہمارا وکیل سرد مہری کی روش اختیار کیے ھویٔے ہے جو کہ ھم سب کے لیے لمحہ فکریہ ھے۔جب فلسطینی بھایٔ غلیل اور پتھروں سے اپنی جنگ جاری رکھ سکتے ہیں تو میری سمجھ سے یہ بات بالا تر ھے کہ ہمارا وکیل ایٹم بم رکھنے کے باوجود بھیگی بلی کیوں بنا ہوا ہے۔ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کے پاس اعلی درجے کے ہتھیار ہیں۔ نا قابل شکست فوج ہے۔ دنیا کی ذہین ترین ایجنسیز ہیں۔ نجانے کس خوف کے تحت پھر بھی ہمارا وکیل ھمارا مؤقف دنیا کے سامنے لانے سے کترا رہا ہے؟مجھے معذرت کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ھے کہ اگر ہمارے بھایٔ کا مؤقف یہی رہا تو اس پر جانیں نچھاور کرنے والے کشمیری شاید اپنے رویے بھی تبدیل کرنے پہ مجبور ہو جایٔں۔ہم دکھ سکھ کی ہر گھڑی میں پاکستان کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں ۔مگر افسوس صد افسوس پاکستان پہلے والا پاکستان نہیں رھا بلکہ اس کا جھکاؤ ہندوستان کی خوشنودی کی طرف زیادہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا بھایٔ فوری طور پر کشمیر کے مسٔلہ کو اقوام عالم میں لے جاے اور دنیا کو باور کراے کہ بھارت کشمیری عوام کی خواہشات کا نہ صرف قتل عام کر رہا ہے بلکہ ھزاروں سہاگ اجڑ رہے ہیں۔ سینکڑوں بچے یتیم ھو رہے ہیں۔کیٔ ماؤں کے لخت جگر لا پتہ ہیں۔کیا دنیا اتنی بے حس ہے کہ وہ یہ سب کچھ نہیں دیکھ رہی؟آج جب دنیا گلوبل ویلج ہے تو ہم بد قسمت کشمیریوں کو کویٔ پوچھنے والا نہیں؟بھارتی افواج کی لا تعداد نفری کشمیر میں کیا امن قایٔم کر رہی ہے؟ کیا وہاں کی ماؤں بہنوں کے ساتھ جو کچھ ہو رھا ہے وہ انصاف ہے؟اے عالمی طاقتو سن لو کہ ظلم بھی ہو اور امن بھی قایٔم رہے یہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔اگر اس خطے کو بڑی تباہی سے بچانا ہے تو اٹھو اور اپنا کردار ادا کرو۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کرو ورنہ یاد رکھو کہ قرآن عظیم میں بھی غزوہ ہند کا تزکرہ ملتا ہے۔مجھے سو فیصد یقین ہے کہ اب پاکستان جو کہ ھمارا بڑا بھایٔ اور وکیل تھا اب اس مسٔلے سے جان چھڑانا چاھتا ہے۔ اس لیے میں عالمی برادری سے ملتمس ہوں کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کریں۔ اور کشمیریوں کو پیداشٔی خود مختاری کا حق دلوایٔں۔١٩٨٨ سے لے کر افضل گورو کی پھانسی تک بھارت نے جو ظلم وستم کیے ہیں ان کا حساب کشمیریوں کو دیا جاے۔ یاد رہے کہ کشمیر وہ ریاست ہے جب بھارت اور پاکستان کا نام ونشان بھی دنیا کے نقشے میں نہیں تھا۔میں اس کالم کی وساطت سے بھارت،پاکستان اور عالمی برادری کو باور کرانا چاہتا ہوں کہ کشمیر کو تر نوالہ نہ سمجھا جاے بلکہ اس کی اصل حقیقت کو تسلیم کیا جاے ورنہ یاد رکھیے گا کا مؤرخ آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گا۔کشمیر آزاد ہو کر رہے گا۔اور یہ بات بھارت کان کھول کر سن لے کہ اب وہ پرانا زمانہ نہیں رہا کے آپ کے ظلم کی داستانیں ڈھل جیل اور سرینگر تک محدود رہیں ۔اب دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے اور کشمیریوں کی چیخیں اس ویلج کا ہر فرد سن رہا ہے۔ کوئی نہ کوئی ضرور اٹھے گا جو انصاف کی بات کرے گا اور کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق خود ارادیت دلوائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button