کالم

نیا سال،ادھورے خواب

کہنے کو تو 2024 آیا اور 2023 پلک جھپکتے ہی گزر گیا اور نئے نئے وعدوں کے ساتھ جو سال 2024 کی شروعات شروع ہوچکی ہیں ۔ لیکن ساتھ میں ہم نے اب یہ دیکھنا ہے ، کہ 2024 کے لیے ہم نے اپنے لیے کن کن اہداف کو حاصل کرنا ہیں ۔ وہ اہداف جو 2023 میں ہم نے اس کے لیے منصوبہ بندی کی تھی لیکن کسی وجہ سے یا کسی مجبوری کی وجہ سے ہم ان تمام تر اہداف کو ، منصوبوں کو وقت پر مکمل نہیں کر پائیں ۔ تو اب یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے اوپر ایک انعام ہے کہ ہمیں 2024 کی صورت میں ایک ایسا وقت ملنے والا ہے کہ ہم ان تمام تر اہدافوں جو بیچ میں چھوڑے ہوئے تھے ان کو 2024 کے پہلے مہینوں کے اندر اندر ہم ان اہداف کو مکمل کرنے کی کوشش کریں ۔ ایسا نہ ہو کہ 2024 بھی گزر جائے اور جو منصوبہ بندیاں ہم نے کی تھیں ۔ ایسی دری کی دری رہ جائے ۔ اگر ہم تعلیم سیاست ، صحت ، اور نوجوان نسل کی بات کریں ۔ تو سب سے ہماری بڑی توقعات ہیں ۔ اگر تعلیم کی بات کریں ، تو ہم دیکھتے ہیں دنیا میں وہیں قومیں ترقی کرتی ہیں جو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پاکستان میں تعلیم کا وہ معیار نہیں رہا دن بدن بہتر ہورہا ہے ، ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام کو بہتر سے بہتر تعلیم کی سہولیات فراہم کر سکے ۔ لیکن پھر بھی کسی بھی جگہ پر ہم دیکھتے ہیں ۔ تھوڑی سی کمی موجود ہے ۔ تعلیم سب کے لیے ایک طرح، ایک قسم کا ہونا ضروری ہے ، کیونکہ اس وقت اگر ہم دیکھتے ہیں ۔ تو ہمارا تعلیمی نظام وہ کئی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہیں ۔ ایک ہمارے امیر ” الیٹ کلاس ” کے گھرانے ہیں الیٹ کلاس کے طبقے ہیں ۔ جو بہت اعلی و بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو پڑھواتے ہیں ۔ پھر اس کے بعد ایک ” average "طبقہ ہے جو اپنے بچوں کو پرائیوٹ سکول میں بھجواتے ہیں اور ایک جو غریب طبقہ بیچارہ رہ گیا ان کے بچے وہ صرف یہی سرکاری سکولوں میں جاتے ہیں ۔ لیکن سرکاری سکولوں میں اساتذہ تو ہیں لیکن ان کے وسائل اتنے نہیں ہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں سو ڈیڑھ سو بچوں کو پڑھا سکے ۔ تو کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت اس حوالے سے منصوبہ بندی کریں اور سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی جو تعداد ہیں اس کو بڑھاے اور ساتھ میں اسی طرح سے ہائر سیکنڈری لیول پر ہو یا سیکنڈری لیول پر ہو یا اسی طرح آگے ہم جوں جوں جاتے ہیں تو اس حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ بارہویں جماعت تک ہمارے جتنے بھی گورنمنٹ سکولز و کالجز ہیں ان کو اس سلسلے میں جدید جو طریقہ تعلیم ہے اس سے آراستہ کریں۔ سٹاف کو زیادہ کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے وہ متعدد اساتذہ کے ساتھ مل جل کر سیکھنے کے عمل کو جاری رکھ سکے ۔ اور اگر ہم نے اسی تعلیم کے شعبے کو اچھا بنایا اور یکساں نظام تعلیم ہم نے قائم کر لیا تو میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے بہت سے مسائل تعلیم کے ذریعے ختم ہوسکتے ہیں ۔ اس وقت الیکشن آرہے ہیں ظاہری سی بات ہے سیاست کے بغیر یہ تمام تر چیزیں مکمل نہیں ہوگی ۔ ہمارے اس وقت جتنے بھی سیاسی لیڈرز ہیں ، ان لیڈروں کے پاس کوئی منشور ضرور ہیں ۔ میں یہی کہوں گا کہ ان منشوروں کے اندر ہمارے معاشرتی مسائل ہیں ان معاشرتی مسائل پر کوئی بات بھی بات نہیں کرتا آج اگر آپ دیکھ لیں تو ہمارے ہاں جہیز کا جو مسلہ ہے اس کی وجہ سے بہت سی خواتین اپنے گھروں میں ان کی عمریں گزر جاتی ہیں ۔ لیکن صرف ایک جہیز کے ادا نہ ہونے سے بہت سے بہنوں اور بیٹیوں کی عمر ضائع ہو جاتی ہیں ۔ تو حکومت کو چاہیے کہ وہ اس مسلے پر آواز اٹھائے ، لوگوں کو جہیز کی اس لعنت سے پاک کر دیں ۔ بیروزگاری روز بروز بڑھ رہی ہے ۔ تو بیروزگاری کے خاتمے کے لیے کچھ ایسی منصوبہ بندی کی جائیں ۔ یا پلیئنگ کی جائے کہ نوجوانوں کو کم از کم اپنے ہی دیس کے اندر ایسا روزگار مل جائے جس سے اس کو دو وقت کی روٹی فراہم ہو سکیں ۔ پھر اسی کے ساتھ اگر ہم دیکھتے ہیں۔ ہماری جو بنیادی سہولیات ہیں اس میں پانی کا مسئلہ آج کل تھوڑا زیادہ ہے اس کے علاہ ” انرجی کرائسسز ” چل رہے ہیں ۔ یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں ، بنیادی ضروریات ہیں ۔ کہ اس کے بغیر زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہوتا ہے لیکن منشور میں کوئی بھی نہیں ہے منشور میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہم آ کے آپ کے لیے یہ بنیادی مسائل ختم کردینگے ۔ آپ کے صوبے کی جو پیداوار ہے وہ ہم آپ کو کم قیمت پر دینگے ۔ آج کل
بلوچ مسنگ پرسنز کا مسلہ چل رہا ہے لیکن کوئی سیاست دان اس بارے میں دو ٹوک بات نہیں کرتا ۔ کوئی ایسا نہیں ہے کہ وہ واقعی میں عوام کے جو بنیادی مسائل ہیں ان تکالیف کا ازالہ کر سکے ۔ اس کے علاہ اور بھی بہت سے مسائل ہیں اگر ہم دیکھ لیں تو تفریح کے مواقع ہمارے اس وقت بہت مخدوش ہوگئے ہیں ۔ اسی طرح سے جو گرانڈ تھے وہ بڑے بڑے پلازوں میں تبدیل ہوگئے ہیں ۔ ہماری نوجوان نسل ایک ایسے راستے پر چل پڑی ہیں ، جو ان کا کام تھا تعلیم حاصل کرنا ، ان کا کام تھا اصلاح کرنا معاشرے کی وہی جو اصلاح کرنے کا کام تھا ۔ انھوں نے اس چیز سے ہٹ کر کسی اور جانب اپنے آپ کو لگا دیا ہے ۔ اور ان کے اپنے جو مقاصد ہیں ان سے وہ بلکل ہٹ گئے ہیں ۔ کالج اور یونیورسٹی کو جب ہم دیکھتے ہیں زیادہ تر سٹوڈنٹس سارا دن موبائل فون میں لگے ہوتے ہیں ان کی چیٹنگ ہوتی ہے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کے ساتھ بات کر رہے ہوتے ہیں ۔ اور وہ استاد ، جس استاد کو کہا جاتا ہے کہ وہ آپ کو ایک ایسے مقام پر لے کر چلا جاتا ہے جہاں پر لوگ آپ کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ آپ کو ایسے مقام پر لے کر چلا جاتا ہے جہاں پر آپ کی تقدیر بدل جاتی ہے ۔ اور وہ تمام تر خواب جو آپ نے دیکھے ہوتے ہیں۔ اسی ایک استاد کی بدولت پورے ہوجاتے ہیں ۔ لیکن بدقسمتی سے آج کے نوجوانوں کو اگر ہم دیکھتے ہیں ۔ کہ وہ کلاس میں جب جاتے ہیں تو یہی موبائل ان کے ہاتھ میں وہی پر بھی ہوتا ہے ۔ استاد بیچارہ جو اتنی تیاری کر کے آیا ہوا ہوتا ہے وہ ان کو بول رہا ہوتا ہے اپنا علم ان کے ساتھ تقسیم کر رہا ہوتا ہے ، لیکن یہ نوجوان نسل یا ان کا مخصوص طبقہ وہ اپنے مستیوں میں گم ہو رہے ہوتے ہیں ، وہ اپنے ہی مستیوں میں لگے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اور اس استاد کو یہ بلکل فراموش کر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ تو کس طرح سے یہ ملک پھر ترقی کریگا جب ان کے نوجوان اس طرح کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایسی اونچ نیچ حرکات کرینگے ۔ کہ جس فائدہ بھی نہیں اور نقصان بھی نہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج کل نوجوان نسل میں زیادہ تر نوجوان مغرب سے بڑے متاثر ہورہے ہیں مغرب میں اگر کوئی بندہ اس کا پنٹ پٹ گیا ہو تو یہاں پر ہمارے ہاں وہ فیشن بن جاتا ہے ۔ تو ہمارا زیادہ تر نوجوان طبقہ اس قسم کی حرکتیں کرتا ہیں ۔ اور پھر کہتے ہیں ، کہ ہم ماڈرن ہے ، حالانکہ ماڈرنزم یہ نہیں ہے ۔ میں جو سمجھتا ہوں ماڈرنزم یہ ہے ” تعلیم یافتہ بننا ” جس کو ہم انگریزی میں کہتے ہیں کہ Modernism is )
education )
ماڈرنزم یہ ہے کہ آپ میں شعور آئے ۔ اب متعدد چیزیں ہیں کہ جب آپ لاکھ ایسے کپڑے پہنے کہ اس میں آپ کا بدن دیکھ رہا ہو کوئی لاکھ ایسے قیمتی کپڑے پہنے جو پہنے کے قابل نہیں اور اپنے آپ کو ماڈرن کہے تو مجھے یہ بتائے گا ۔ کیا ایک جانور اپنے آپ کو چھپا سکتا ہے؟ وہ ایکسپوز ہوتے ہیں ، وہ لوگوں کو ظاہر ہوتے ہیں ۔ معزرت کے ساتھ نوجوان نسل ماڈرنزم کرتے کرتے جانور بن گئے ہیں ۔ دوسری جانب ہمارے ہاں خواتین ماڈرنزم کا نعرہ لگاتی ہیں ، لیکن وہ بھول جاتی ہیں کہ وہ اسلام کی تعلیمات کی دھجیاں اڑا رہی ہوتی ہے ۔
تو اس ماڈرنزم نے لوگوں کو تباہ کردیا ہے ۔ آندھی تقلید میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں ، کہ اپنے آبا اجداد کے جو طرزِ زندگی تھی ان کو بھول گئے ہیں ۔
بات ہم نے شروع کی تھی 2024 کے اندر جو اہداف ہم نے 2023 کے اندر ادھورے چھوڑے تھے۔ ان اہداف کو دوبارہ سے پورا کرنا ہیں تو پھر وہی بات ہے کہ تعلیمی نظام پر ہم مکمل طور پر بات کریں ۔ میں کہتا ہوں کہ صحت کے شعبے کو اور بھی بہتر بنائے میں یہی کہوں گا کہ طلبا وطالبات کے لیے ایک ایسا جدید سسٹم تیار کیا جائے اور ایسا "Curriculum ” کریکولم ڈیزائن کیا جائے کہ جس میں ان بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں بروکار لائی جائے تعلیم کے ذریعے لوگ کامیاب ہو سکتے ہیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button