اہم خبرپاکستان

اگر2002 میں قائداعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوتے’ چیف جسٹس

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں نااہلی کی مدت5سال یا تاحیات سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے’ جس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر2002 میںقائداعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوتے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا7 رکنی لارجر بینچ تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل عدالت میںپیش ہوئے اور کہا کہ آرٹیکل62 ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا 5 سال کرنے کی قانون سازی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے پر نظرثانی ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تشریح کے فیصلے کے دوبارہ جائزے کی استدعا کر دی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل’ آپ کا موقف کیاہے کہ الیکشن ایکٹ چلنا چاہیے یا سپریم کورٹ کے فیصلے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت سے درخواست ہے کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے۔ الیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیوں کہ یہ وفاق کا بنایا گیا قانون ہے۔
دوران سماعت میر بادشاہ قیصرانی کے خلاف درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی نے بھی تاحیات نااہلی کی مخالفت کر دی۔ وکیل نے کہا کہ میں نے2018 میں درخواست دائر کی جب 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا۔ اب الیکشن ایکٹ میں سیکشن232 شامل ہوچکا اس لئے تاحیات نااہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کر رہا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن ایکٹ2017 کو کیا کسی نے عدالت میں چیلنج کیا؟ جس پر درخواست گزار کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ الیکشن ایکٹ کو کبھی بھی کسی کے عدالت میں چیلنج نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کوئی ایسی صوبائی حکومت ہے جو الیکشن ایکٹ2017 کی مخالفت کرے جس پر صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز نے عدالت میں موقف دیا کہ تمام صوبائی حکومتیں الیکشن ایکٹ2017 کو سپورٹ کررہی ہیں۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے آئین کا آرٹیکل62,63 پھر کر سنا دیا۔ اٹارنی جنرل نے رکن پارلیمنٹ بننے کے لئے اہلیت اور نااہلی کی تمام آئینی شرائط پڑھ کر سنا دی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی کے وقت سے62 اور63 دونوں شرائط دیکھی جاتی ہیں۔ انٹری پوائنٹ پر دونوں آرٹیکل لاگو ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ شقیں تو حقائق سے متعلق ہیں وہ آسان ہیں۔ کچھ شقیں مشکل ہیں جیسے اچھے کردار والی شق۔ اسلامی تعلیمات کا اچھا علم رکھنا بھی ایک شق ہے ۔ پتا نہیں کتنے لوگ یہ ٹیسٹ پاس کرسکیں گے؟ الیکشن ایکٹ کی یہ ترمیم چیلنج نہیں ہوئی جب ایک ترمیم موجود ہے تو ہم پرانے فیصلے کو چھیڑے بغیر اس کو مان لیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تاثر ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک قانون سے سپریم کورٹ فیصلے کو اوور رائٹ کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تو کیا اب ہم سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو دوبارہ دیکھ سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں عدالت نے ایک نقطے کونظر انداز کیا۔ عدالت نے کہا کہ کرمنل کیس میں بندا سزا کے بعد جیل میںبھی جاتا ہے۔ اس لئے نااہلی کم ہے۔ عدالت نے یہ نہیں دیکھا ڈیکلیریشن62 ون ایف اور کرمنل کیس میں دونوں میں ان فیلڈ رہتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم تو گناہ گار ہیں اور اللہ سے معافی مانگتے ہیں۔ آرٹیکل62 میں نااہلی کی مدت درج نہیں بلکہ یہ عدالت نے دی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں تاحیات نااہلی کی ڈکلیئریش اپنی جگہ قائم ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ بھی تو لاگو ہوچکا اور اس کو چیلنج بھی نہیں کیاگی۔ جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں ردو بدل ممکن ہے؟
جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت تاحیات مقرر کرنے والے جج نے فیصل واوڈا کیس میں اپنے رائے تبدیل کی۔
بعد ازاں کیس کی سماعت 4 جنوری ساڑھے11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔ عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ 11جنوری تک کیس میں سماعت مکمل کرلیں گے۔ ہم اس کیس میں عدالتی معاون بھی مقرر کریں گے۔اگر کوئی سینئر وکیل عدالتی معاونت کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ۔ تمام وکلاء ویڈیو لنک کے بجائے ا سلام آباد میں پیش ہوں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button