سال 2023 کے اختتام پر کئیں پروگرامز فنکشنز اور کانفرنسز کا حصہ رہی کچھ آرگنائزیشنز کی جانب سے appreciation ایوارڈ اور سرٹیفکیٹ سے بھی نوازا گیا۔زندگی کے ہر مراحل پر مشکلیں بہت تھیں مگر ان سے گزر کر کچھ کرنا بھی تھا اور دیر دیر تک تنہائیوں میں خود کو تلاش کرتی اور ہم کلام رہتی تھی۔ مجھے بہت کم عمری میں ہی بڑے بڑے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا اور میری یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ میری زندگی میں آئے ان ہیروں کی بدولت میں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ سیکھا۔ جنہوں نے زندگی میں مجھے کائنات دیکھنے، سوچنے سمجھنے اور دنیا کا مقابلہ کرنا سکھایا۔ میری بے مقصد زندگی کے سفر کو با مقصد بنایا۔اور جہاں شخصیت کی بات آئے ایسا ہو نہیں سکتا کہ میں اپنے نہایت ہی قابل احترام استادوں کو بھول جائوں جن کی appreciation سے مجھے ہمت و حوصلہ ملتا رہا جن کی موٹیویشنز سے میں نے بولنا سیکھا لوگوں کا سامنا کرنا سیکھا کہ اپنی رائے سب کے سامنے کیسے رکھتے ہیں یہ سب مجھے میرے والدین اور استادوں نے ہی سیکھایا ہے اور دوسرا دنیا کہ لہجوں نے ان کے رویات اور تلخیوں نے۔ کئیں شخصیات جو میری نظروں سے اوجھل ہیں مگر کچھ ایسی شخصیات جن کی موٹیویشنز اور باتیں میری زندگی کی ہمت بن کر رہی ہیں۔ایک مقام تک آنا آسان نہیں تھا مگر کرنا بھی تھا۔ ہزار لوگ آئے جنہوں نے غلط طرف بھی لے جانا چاہا، غلط کہا بھی، لوگوں کے رویات اور نظریں ان کے تنزانیہ و مزاحیہ حملے سہتے ہوئے بہت بار تھک کر ہار بھی مان لیتی اور اپنے کام اپنی محنت سے باز دفعہ پیچھے بھی ہٹ جانا چاہا مگر ہر انسان کا زندگی میں پہلا قدم ہی ہوتا ہے کوئی پہلے سے سیکھ کر نہیں آتا ہے لیکن یہ کسے اور کس طرح سمجھاتی کہ پہلا قدم کتنا مشکل ترین ہوتا ہے۔ میں جس بیک گرانڈ سے تعلق رکھتی ہوں آج خود پر رشک آتا ہے کہ ایک وقت تھا جب میری تعلیم بھی ممکن نہ تھی کالج یونیورسٹی تو دور کی بات اسکول بھی نہ ممکن تھا، مگر شاید رب کو اس مقام سے نوازنا تھا ۔ میرے لئے ہر وہ کام اللہ نے ممکن کیا جو اس کے بندوں نے میرے لئے ناممکن کیا ہوا تھا اور میں اپنی زندگی کا ہر پل اسی غم میں گزار دیتی کے میرا سکوں بھرا موت کا وہ لمحہ کب آئے کا آخر کب بھیڑیوں اور مطلبی کی دنیا سے رہائی ملے گی۔ ہر پل ناامیدی کی چادر اڑا کر رہتی تھی۔ کبھی گمان میں بھی نہیں تھا کہ زندگی میں رائٹر کہلاں گی۔ جہاں مجھے کوئی نہیں جانتا تھا آج دنیا مجھے میرے بیک گرانڈ سے نہیں بلکہ میری قلم سے مجھے جانتی ہے۔ آج میں سوسائٹی میں بطور کالمسٹ اور آرٹیکل رائٹر کہلائی جاتی ہوں۔ اللہ کی ہزار گنا زیادہ شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمیشہ منفی اور تنگ نظر لوگوں سے بچائے رکھا اور آج ایک مقام سے نوازا بے شق وہ اللہ ہی ہے جو انسان کو نوازتے وقت یہ نہیں دیکھتا کہ وہ کون ہے کس زبان اور طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ انتہائی مشکور ہوں ان دوستوں، ان صاحبان کی بھی جنہوں نے میرا مزاق بنایا، مجھے تنزانیہ اور تنگ نظروں کا وار رکھا اور خاص طور پر ان لوگوں کا جنہوں نے ہر ممکن کوششیں کی پیچھے رکھنے کی۔ اور نہایت ہی شکر گزار ہوں ان قابل احترام استادوں کا جو میری غربت، اور میرے مسئلے مسائل پر ڈسٹربنس پرسنلٹی کہتے، بہت دکھ ہوتا تھا جب میرے ہی استاد میرے سامنے کہتے کہ صرف ایک استاد اور پڑھے لکھے خاندان کا بچہ ہی آگے پڑھ سکتا ہے اور کچھ کر سکتا ہے ایک غریب اور ان پڑھ انسان کبھی بچوں کو مکمل تعلیم نہیں دے سکتا اور مزدور کا بچہ مزدوری ہی کرتا ہے ہمشہ۔ شکر گزار ہوں ان استادوں کی جنہوں نے یہ کہہ کر میرا مزاق اڑایا کے تمہاری ایک مہینے کی فیس سے تو ہم ایک وقت میں ہی برگر آرڈر کر کے کھا لیتے ہیں آہستہ آہستہ سب کی باتیں میرے لئے موٹیویشنز ثابت ہوئیں اور مجھے خود کی قدر ہوئی۔ میں ایسے جملوں کی عادی ہو چکی تھی مگر یہی جملے میرا حوصلہ بنے اور ان اس مقام تک پہنچی کیونکہ لوگوں کے ان لہجوں سے میرے آنکھوں میں آنسوں اور سسکیوں کے ساتھ ساتھ کہیں گنا زیادہ موٹیویٹ ہوتی اور جذبہ پیدا کرتی خود میں کہ وقت وقت ہے گزر جائے گا۔ مگر لفظ زندہ رہتے ہیں شکریہ ان استادوں ان دوستوں اور اس معاشرے کا اگر میں یہ سب سننے کی عادی نہ ہوتی تو شاید ہی آج اس مقام پر پہنچتی۔ سب کی باتیں آج بھی میری ڈائری پر موجود ہیں تاکہ زندگی میں کبھی کسی مقام پر خود کو غرور میں مبتلا نہ ہونے دوں۔مجھے کسی سے کوئی شکوہ و شکایت نہیں بس دکھ ہوتا تھا اس وقت بہت کیوں کہ میں میچور ہو چکی تھی سمجھ سکتی تھی کون کیا کہتا ہے کیوں کہتا ہے اور کس وجہ سے کہتے ہیں۔ دکھ تھا مگر انتظار بھی تھا خود کو اک مقام پر لے آنے کا کچھ کرنے کا اپنی زندگی کو بامقصد بنانے کا۔ آسان تو نہیں تھا یہاں تک بھی آنا مگر وقت و حالات بدلنا بھی ضروری تھے نیا سال بھری خوشیوں کا آئے سب کے لئے سال 2024 کی نئی کرن مبارک۔
بشکریہ سی سی پی۔
0 77 4 minutes read