ایک وقت تھا جب ڈرامہ نویس ٹیلی ویژن ڈراما لکھتا تھا تو اس ڈرامے کے لیے وہ بہت ریسرچ کرتا تھا معاشرے میں مسائل کو قریب سے دیکھتا اس کے علاہ بڑے بڑے ادیبوں کے ساتھ بیٹھتا تھا جن موضوع پر یہ لکھنا چاہتا تھا تو ان کے ساتھ بیٹھ کر اس ڈرامے کے بارے میں بات چیت کرتا تھا ۔ کہ میں اس موضوع پر لکھنا چاہتا ہوں کیا یہ درست ہے کہ نہیں ۔ اگر ہم پرانے ڈراموں کو غور سے دیکھے تو ان میں ایک سبق ، نصیحت ہوتا تھا وہ ڈرامہ نگار ایک یا دو سال میں ایک ڈرامہ لکھتا تھا یعنی مکمل کرتا تھا اگر ڈرامے کی بات کرے کہ ڈراما کیسے کہتے ہیں ؟ ڈرامے کی اصل مقصد کیا ہے؟ تو میرے خیال میں ڈرامے کی مقصد معاشرے کی اصلاح کرنا ہے لیکن تفریح کی شکل میں جسے زیادہ تر لوگ انٹرٹینمنٹ کہتے ہیں اور وہ چیزیں عوام کو بتانا یا ان مسائل کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنا کہ جو معاشرے میں ہو رہا ہیں یا موجود ہے لیکن عوام اسے دیکھ نہیں سکتے کیوں اکثر بعض مسائل پوشیدہ ہوتے ہیں اور اس مسلوں کو ختم کرنا یا ان کا حل تلاش کرنا اور عوام کو بتانا یہ ایک ڈراما نویس کا کام ہے اس کے علاہ عوام میں شعور اجاگر کرنا اور ان کو غلط راستوں سے روکنا یہ کام بھی ایک قابل ڈرامہ نگار کا کام ہے اور وہ یہ کرسکتا ہے شرط یہ ہے کہ اس کا قلم آزاد ہو اس کے علاہ اگر کسی معاشرے میں تعلیم کی کمی ہے اور معاشرے میں بسنے والے لوگ تعلیم سے نفرت کرتے ہیں تو ایک اچھا لکھاری اپنے قلم کے ذریعے سے وہ مسلہ ڈرامے کی شکل میں حل کر سکتا ہے ۔ لیکن آج کے دور میں معاملہ کچھ مختلف ہے آج کے دور میں معاشرے میں جو چیزیں نہیں ہیں ان پر ڈرامے بنائے جاتے ہیں اور دھوم دھام سے ٹیلی ویژن پر نشر ہوتے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے پہلے زمانے میں لوگ ڈرامہ دیکھتے تھے اور ان سے کچھ سیکھتے تھے اور جو مسلہ یا کمی سماج میں ہوتا تھا اس کا حل نکالتے تھے لیکن آج کے دور میں ان موضوعات پر ڈرامے لکھ اور بن رہے ہیں جو معاشرے میں نہیں ہے الٹا وہ چیزیں معاشرے میں پیدا ہوتے ہیں آج کے دور میں نوجوان نسل مرد ہو یا خواتین ڈرامہ دیکھ کر سماج میں کچھ نیا کام شروع کرتے ہیں ظاہری سی بات ہے جو اس نے ڈرامے میں دیکھا وہ ضرور یہ کام معاشرے اور اپنی زندگی میں کرے گا،موجودہ دور میں ڈراما ان چیزوں کے اردگرد گھومتا ہیں ۔ لڑکا ، لڑکی ، پیار محبت اور دولت اگر پاکستانی ٹیلی ویژن ڈراموں کو دیکھے تو لڑکا لڑکی کی عشق میں مبتلا ہوتا اور لڑکی لڑکے کے عشق میں ڈرامے میں لڑکا لڑکی کے پیچھے حیوان کی طرح بھاگتا ہے اس طرح ان ٹی وی ڈراموں میں ایسا سین بھی دیکھنے کو ملتا ہیں جس میں لڑکی دولت اور شہرت کی پیچھے جاتی ہیں۔ آج کل ٹی وی ڈراموں میں خواتین کو بطور شوپیس استعمال کیا جاتا ہے لیکن کوئی اس بارے میں سوال نہیں اٹھاتا بلکہ سب لوگ خوشی خوشی دیکھتے ہیں ۔ کبھی ڈرامے میں لڑکی کو معصوم کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والوں کی آنکھوں میں آنسوں آنے لگتے ہیں اور کبھی آوارہ لڑکے کے روپ میں ۔ اگر لباس کو کی بات کریں تو ڈوپٹہ گلے کی رسی بن گئی ایک جو ایلیٹ کلاس کے گروہ کو دیکھایا جاتا ہے ان کے لباس کی بارے میں بات کرنا بھی فضول ہے اتنی عجیب قسم کی لباس ، بعض اوقات تو میں حیران ہوتا ہوں کہ عوام یہ اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر کس طرح دیکھتے ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں کچھ پراویٹ چینلز ایسے ہیں جن کا آپس میں مقابلہ ہوتا رہتا ہے کہ کس طرح ہم ایسی چیز بنانے چاہیے وہ فضول کیوں نہ ہو ، لیکن کسی طرح ریٹنگ بڑھے۔ اس کے علاہ پاکستان میں بہت سے مسائل ہیں لیکن ہمارے بڑے بڑے ڈرامہ نگاروں کو وہ نظر نہیں آتے یہ مسائل روز بروز بڑھ رہے ہیں لیکن کوئی ان کے بارے میں نہیں سوچتا آج کل جس موضوع پر ڈرامے بن رہے ہیں اور بدقسمتی سے عوام اس ڈراموں کو غور سے دیکھتے ہیں اس پر میں آخر میں بات کرونگا ۔ آج کے دور میں ایک سال میں ڈرامہ نگار ایک یا دو ڈرامے آسانی سے لکھتا ہے اور بڑے بڑے ٹی وی چینلز ان پر کام بھی شروع کرتے ہیں اور وہ ڈرامے نشر بھی ہوتے ہیں ایک وقت تھا کہ ایک ڈرامہ نگار کا ایک ڈرامہ دو سے تین سالوں میں مکمل کرتا تھا لیکن اس دوران میں وہ ڈرامہ نگار مختلف چیزوں کے بارے میں سوچتا معاشرے میں بہت سے مسائل کے بارے میں تحقیق کرتا مختلف ریسرچ کرتا تھا ۔ اور ان سب کے بعد وہ لکھنا شروع کرتا تھا اس طرح جب لکھنے کا کام مکمل ہوتا تو اس کے بعد پروڈکشن والے اس پر کام شروع کرتے تھے اور وہ ڈرامہ تقریبا دو یا ڈھائی سال میں تیار ہوتا اور اس کے بعد وہ ٹیلی ویژن پر نشر ہوتا تھا اور لوگ اس ڈرامے کو بہت شوق سے دیکھتے تھے اور اس سے کافی کچھ سیکھتے تھے پاکستان میں بہت سے ایسے ڈرامے بنے تھے جب وہ شام کی وقت ٹیلی ویژن پر نشر ہوتے تو شہر میں دوکانیں بند ہوتیں تھیں ۔ اس کے علاہ ان ڈراموں میں مثبت خوبیاں تو بہت تھیں لیکن ایک یہ کہ گھر میں چھوٹے بڑے سب مل کر ڈرامہ دیکھتے تھے اس طرح لوگ اگلے قسط کی انتظار میں دن گنتے تھے کہ اگلے قسط کی آنے
میں اتنے دن باقی ہے بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس ڈرامے کے سکرپٹ یا کہانی میں کچھ ہوتا تھا اسی وجہ سے لوگ اس کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہوتے تھے ۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے بہت سے ایسے ڈرامے آج بھی لوگ نہیں بولتے اور جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو ان کے ہیروں ، کہانی اور ادکاروں کا نہ صرف ذکر کرتے ہیں بلکہ ان کا نام بھی یاد ہوتا ہے ۔ جس زمانے کی میں بات کررہا ہوں اس زمانے میں گھر میں ایک ٹیلی ویژن ہوتا تھا اور گھر کے سارے لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر ڈرامہ دیکھتے لیکن وقت گزرتا گیا اور جب سوشل میڈیا میدان میں آیا تو اس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ۔ ٹیلی ویژن کا جو دور تھا وہ آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے وجہ یہ ہے کہ اب ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل فون ہے اسی موبائل فون کی مدد سے آج کا نوجوان سب کچھ دیکھ سکتا ہے جس طرح میں نے پہلے ذکر کیا کہ پرانے زمانے میں سب لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر ڈرامہ دیکھتے تھے آج کے دور میں اگر میں شہر کی بات کروں تو ہر گھر میں کیبل ہے اور کیبل پر سارے پراویٹ چینلز موجود ہیں لیکن ان چینلز پر جو ڈرامے نشر ہوتے ہیں وہ فیملی کے ساتھ کوئی دیکھ نہیں سکتا وجہ کیا ہے ؟ اگر ہم پرانے زمانے اور آج کل کے ڈراموں کا موازنہ کرے تو بہت تبدیلیاں ہمیں نظر آئیگی آج کل کے ڈراموں میں اداکار و اداکارہ کی لباس اس کے علاہ کہانی بھی وہ نہیں ہے جو ایک باپ اپنی بچی کے ساتھ دیکھے ۔ اس میں بنیادی کمزوری ادیب یا ڈرامہ نگار کی ہے کیوں کہ وہ یہ لکھتا ہے ۔ آج کل ڈرامہ نگار یا ادیب اس قسم کی کہانی کیوں لکھتا ہے ؟ اور لوگ ان ڈراموں کو کیوں دیکھتے ہیں ؟ اس پر میں اگلے کالم میں بات کرونگا ۔
0 41 5 minutes read