عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے انتخابات کے انعقاد بارے میں غیر یقینی کی صورتحال بڑی حد تک ختم ہو گئی سپریم کورٹ عام انتخابات کے انعقاد ملتوی کرانے کی کوششوں کی راہ میں حائل ہو گئی ہے مسلم لیگ (ن) ، پی ٹی آئی ،، پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی ، جمعیت علما اسلام اور ایم کیو ایم سمیت تمام قابل ذکر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دئیے ہیںقومی و صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کے ریکارڈ28626 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کرائے ہیں کاغذات نامزدگی کی مدمیں 65کروڑ سے زائد جمع ہوئے ہیں صرف وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کی نشستوں کیلئے208امیدوار میدان میں آئے ہیں پی ٹی آئی کے سوا کسی جماعت نے کاغذات نامزدگی چھیننے کی شکایت نہیں کی تاہم اس کے باوجودکسی حلقہ سے کاغذات نامزدگی وصول نہ کئے جانے کی کوئی مصدقہ اطلاع موصول ہوئی ہے اور نہ ہی کسی نے کاغذات نامزدگی جمع کرانے میں رکاوٹ ڈالنے پر الیکشن کمیشن سے رجوع کیا ہے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ پراپیگنڈا محض انتخابی عمل کو مشکوک بنانے کی حکمت عملی کا حصہ ہے عام انتخابات میں حصہ لینے کی راہ میں انتظامیہ کی جانب سے رکاوٹ ڈالے جانے کے خوف اور بڑی تعداد میں ” سیاسی بھگوڑوں ”کی وجہ سے پی ٹی آئی میں وکلاء کی ایک بڑی تعداد کی ”لاٹری ” نکل آئی ہے عمران خان سمیت کئی” یوتھیا” وکیلوں نے تین تین حلقوں میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی عیاشی کی ہے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی درد ناک انداز میں ”لیول پلئینگ فیلڈ ” نہ ملنے کا واویلا کر رہی ہے کسی حد تک پی ٹی آئی کی ”آہ و زاری” کا جواز بنتا ہے لیکن عمومی طور اس کا پراپیگنڈا اپنے آپ کو سیاسی طور” مظلوم ” بنانے کی بھونڈی کوشش ہے جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے الیکشن کمیشن جس قدرچاہے شفاف انتخابات کرادے وہ انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرے گی 8فروری2024ء کے انتخابات کو متنازعہ بنانا پی ٹی آئی کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے پی ٹی آئی نے کم و بیش ہر حلقہ انتخاب میں اپنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرا دئیے ہیں جن سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات میں پذیرائی حاصل نہیں ہوگی وہ بھی پی ٹی آئی کے بینڈ میں شامل باجہ ہوں گی کاغذات نامزدگی داخل کرانے کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے اس دوران مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر جماعتیں امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنے میں مصروف ہیں البتہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت رہائی کے لئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان پی ٹی آئی سے ”بلے ” کا نشان واپس لے لیتی ہے تو پی ٹی آئی پشاور ہائی کورٹ سے عارضی ریلیف لے لیتی ہے جب کہ پی ٹی آئی برملا کچھ عدالتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکی ہے عمران خان اور شاہ محمود قریشی سائفر ریفرنس میں اڈیالہ جیل میں بند تھے سپریم کورٹ نے عمران خانج اور شاہ محمودقریشی کی سائفر کیس میں ضمانت پر رہائی کا فرمان جاری ہونے کے باوجود اس لئے رہائی نہ ہو سکی عمران خان 9مئی 2023ء کے واقعہ میں گرفتار ہیں اب شاہ محمود قریشی بھی اسی کیس میں دھر لئے گئے ہیں اس مقدمہ کی سماعت فوجی عدالت میں ہونا باقی ہے بہر حال شاہ محمود قریشی کو جیل سے بھونڈے انداز میں گرفتار کر کے حکومت کو بدنامی کے سوا کچھ نہیں ملا پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان چوہے بلی کا کھیل جاری ہے ایسا دکھائی دیتا ہے آنے والے دنوں
میں پی ٹی آئی کی قیادت جیلوں سے ہی انتخاب لڑے گی عام انتخابات میں کی شفافیت بارے اٹھائے جانے والا سوالات کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کی طرف سے ریکارڈ کاغذات نامزدگی داخل کرانا غیر معمولی بات ہے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تو لنگوٹ کس کر میدان میں اتر چکی ہیں جب کہ پی ٹی آئی ابھی تک تذبذب کا شکار ہونے کے باوجود کسی دوسری جماعت کے لئے میدان کھلا چھوڑنے کے لئے تیار نظر نہیں آرہی پی ٹی آئی اس حد تک ”اوور کانفیڈ نس” دکھائی دیتی ہے کہ وہ انتخابی مہم شروع کرے نہ کرے ”الیکشن ڈے” کو بلا جیت جائے گا اس لئے ایک طرف سیاست کپتان کے ”بلے ”کے گرد گھوم رہی ہے تو دوسری طرف میدان سیاست کے ”لاڈلے” کا بڑا چرچا ہے بلاول بھٹو زرداری نواز شریف کو ایسٹیبلشمنٹ کا ”لاڈلا” ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے اس طعنہ کو اس طرح قبولیت کا درجہ دیا ہے کہ” نواز شریف پاکستان کے 24کروڑ عوام کاواقعی لاڈلا ہے عوام اسے چوتھی بار وزیر اعظم منتخب کریں گے ” مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی شہبا ز شریف کی 16ماہ کی مخلوط حکومت میں باہم شیرو شکر تھیں جب سے میاں نواز شریف وطن واپس آئے ہیں اور مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کو وزیر اعظم کے لئے نامزد کیا ہے بلاول بھٹو زرداری جو 36سال کی عمر میں ہی وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھ رہے ہیں نے نہ صرف اپنا نام وزیر اعظم کے منصب کے لئے پیش کر دیا ہے بلکہ باقاعدہ میاں نواز شریف کے خلاف محاذ کھول دیا ہے انہوں نے گڑھی خدابخش میں 27دسمبر2023ء کو بے نظیر بھٹو کی16ویں برسی کے جلسہ میں جہاں 10نکاتی منشور کا اعلان کیا وہاں انہوں نے اگلی بار وزیر اعظم بننے کے لئے100سے زائد نشستوں کی فرمائش کر دی ہے انہوں نے اس بات کا گلہ
کیا کہ ان کو پنجاب سے دیس نکالا دیا جا رہا ہے جس کے باعث انہوں نے خود ”تخت لہور” سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے جہاں سے ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے جسٹس جاوید اقبال کو شکست دی تھی بلاول بھٹو زرداری نواز شریف کو اس لئے” لاڈلا ” ہونے کاطعنہ اس لئے دے رہے ہیں کہ وہ پنجاب میں کسی جماعت سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کی غلطی کر کے اپنی پارلیمانی قوت میں کمی نہیں کرنا چاہتے نواز شریف نے پنجاب کی 146نشستوں میں سے ایک سو سے زائد نشستوں کا ٹارگٹ مقرر کر رکھا ہے یہی وجہ ہے وہ پیپلز پارٹی ، جمعیت علما ء اسلام اور استحکام پاکستان پارٹی سمیت کسی جماعت سے اکا دکا نشستوں کے سوا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے تیار نہیں ۔ استحکام پاکستان پارٹی نے قومی اسمبلی کے18حلقوں سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جن میں اس کے ایک سے زائدحلقوں میں امیدوار ہیں لہذا وہ مسلم لیگ (ن) سے 10نشستوں پر بارگینگ کی کوشش کرے گی ممکن ہے مسلم لیگ (ن) استحکام پاکستان پارٹی کو4،5نشتیں دے کر اس کے تمام امیدواروں کو اپنے حق میں دستبردار کرانے میں کامیاب ہو جائے ۔ بظاہر پی ٹی آئی عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہے لیکن ابھی تک یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ وہ8فروری 2023ء تک انتخابی دوڑ میں شریک رہتی ہے یا آخری ہفتے بائیکاٹ کا اعلان کر کے عام انتخابات کی کریڈبلٹی متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹر 7مارچ1977میں ہونے والی انتخابی دھاندلی کے خلاف پی این اے ووٹرز کی طرح( 10مارچ 1977) بائیکاٹ کر کے عام انتخابات کو متنازعہ بنا بنا دے اور اس کا کوئی ووٹر ووٹ کے لئے باہر نہ نکلے تو پی ٹی آئی کی سیاسی و اخلاقی جیت تصور ہو گی بصورت دیگر پی ٹی آئی نے عام انتخابات میں حصہ لیا اور اس کے 40،45ارکان منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آگئے تو اس کے پاس انتخابات کی شفافیت کو چیلہنج کرنے کے لئے کچھ نہیں بچے گا
0 71 5 minutes read