کالم

ایک ٹکٹ کا سوال ہے بابا…!!

پاکستان میں 12ویں عام انتخابات جمعرات آٹھ فروری دوہزار چوبیس کو ہونگے فاتح جماعت اقتدار سنبھالے گی۔ آج ماضی کی ان چند شخصیات کا ذکر ہو جائے جو الیکشن جیتے، وزیراعظم بنے اور پھر اقتدار سے دور کئے گئے۔ یہ 1951کا منظر ہے ، پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان بنے۔ جنھیں راولپنڈی کمپنی باغ کے جلسے میں شہید کیا گیا،محمد علی بوگرا اورچودھری محمد علی سے استعفی لیا گیا۔حسین شہید سہروردی عہدے سے مستعفی کرائے گئے۔ آئی آئی چندریگر مستعفی ہوئے۔ فیروز خان نون اور ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا گیا۔ محمد خان جونیجو ، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں برطرف ہوئی۔ بینظیر بھٹو دوسری بار بھی برطرف کر دی گئیں۔نوازشریف کا دوسری بار تختہ الٹا گیا۔ظفر اللہ جمالی سے استعفی لیا گیا۔یوسف رضا گیلانی کی عدالتی حکم پر برطرفی ہوئی۔تیسری بار وازشریف عدالتی حکم پربرطرف ہوئے ۔عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ اس وقت چند بڑی پارٹیاں مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی،پی ٹی آئی کے ستارے گردش میں اور لیڈر جیل میں، ساتھی چھوڑچکے ہیں ،الیکشن کمیشن سے فارغ نہ جماعت اور نہ نشان اگر ہوتی تو ملک کی بڑی پارٹی میں شمار ہوتی۔اب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں سیاسی جان اور تحریک انصاف بے جان ہے۔ان کے لسانی لیڈر سے ایک مقامی لیڈر جیل میں ملنے گئے عمران خان نے اس کالم نگار سے صرف ایک فرمائش کی کہ بابر عدالت سے کہو یہ میری ورزش ڈمبل تو واپس کروادیں ۔ لگتا ہے خان صاحب کو قیدیوں جیسا سلوک نہیں دے رہے دیسی مرغ کھانے کو ورزش کے لیے مشینیں دے رکھی ہیں لہذا وہ بھول گئے.منیر نیازی یاد آگئے
کچھ ایویں وی راواں اوکھیا سن
کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی
اس پر تبصرہ حال ہی میں اس جماعت کے مخلص درد دل رکھنے والے نعیم بخاری نے کیا ہے۔ کافی عرصے بعد انہوں نے میڈیا کے لے دروازے کھولے ہیں کہا اگر میں کابینہ میں ہوتا تو گھڑی بیچنے سے منع کرتا۔میں نے عمران خان سے کہا تھا کہ اسمبلی میں دائیں بیٹھے ہیں تو اب بائیں بیٹھ جانا مگر اسمبلی سے نہ نکلنا ۔میں نے کے پی کے اور پنجاب کی اسمبلیوں کو بھی نہ توڑنے کا مشورہ دیا تھا۔یہ بھی کہا تھا کہ کابینہ کے دو وزرا بابر اور فواد سے بچ کر رہنا ۔ فواد چودھری کے بارے میں ایڈووکیٹ حامدخان بھی اپنی کتاب میں انکشاف کر چکے ہیں۔ لگتا یہی ہے ان مشوروں کو نظر انداز کیا گیا جبکہ یہ مفت مگر سنجیدہ قیمتی مشورے تھے اگر ان پر عمل کیا جاتا تو آج پارٹی قائم رہتی ۔الیکشن میں جنھیں اندازہ ہے کہ کس جماعت نے اگلے الیکشن میں اقتدار میں آنا ہے وہ پریشان ہیں۔ اب انکا کہنا ہے یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہونگے۔لیکن یہ نہیں کہتے کہ ہم بھی الیکشن سے نہیں سلیکشن سے آ? تھے۔ پتہ نہیں ہمارے چند سیاستدان اپنے آپ کو سمجھدار اور دوسروں کو بیوقوف کیوں سمجھتے ہیں۔جب کہ اس ملک کے عوام ان سے زیادہ سمجھدار ہیں ۔سیاستدان سمجھتے تو ہیں مگر سچ بولنے سے قاصر ہیں۔ہر الیکشن سے پہلے کوشش کرتے ہیں کہ ہم خلائی مخلوق کے ساتھ ملکر الیکشن لڑیں لیکن جب ان کی خواہش کامیاب نہیں ہوتی تو ناامید ہو جاتے ہیں اور رونا دھونا شروع کرتے ہیں ۔اگر یہ اپنی باری پر اس وقت ایسا بولتے جیسے آج بول رہے ہیں تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔جب یہ خود ان کی چھتری کے نیچے کھڑے تھے اس وقت انہیں کہتے جناب جس طرح سے اقتدار ہمارے حوالے کیا جا رہا ہے یہ جمہوریت نہیں ہے یہ ہمیں منظور نہیں ہے مگر اس وقت تو آپ نے اقتدار کو قبول کیا اور کچھ نہ کہا اقتدار میں رہ کر وہ کچھ یہ کر جاتے ہیں جھنیں کوئی باضمیر شخص کرنے کا سوچ نہیں سکتا۔ مگر یہ اقتدار کی خاطر سب کچھ کر گزرتے ہیں۔یاد رہے جو لاتے ہیں وہ ان سے ہر برا کام بھی لیتے ہیں ان باتوں کا پتہ سب کو ہے مگر سب چپ ہیں ۔اس لیے عام آدمی بھی وہی کچھ کر رہا ہے جو انکے بڑے کر رہے ہیں۔الیکشن میں حصہ لینے والوں کو یقین نہیں کہ الیکشن فیر اور فری ہونگے ۔مگر اس کے باوجود امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دی ہیں۔ زیادہ تعداد ان امیدواروں کی ہے جن کا تعلق سیاسی پارٹیوں سے ہے لیکن کچھ وہ بھی امیدوار ہیں جو ہر طرح سے آزاد ہیں جھنوں نے جائز ناجائز طریقے سے دولت اکٹھی کر رکھی ہے۔اب وہ اپنی شناخت کے لیے اپنے نام سے آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں۔ایک وہ ہیں جو سمجھ رہے کہ ان کی جماعت نے اگر کھمبا بھی کھڑا کیا تو وہ جیت جائے گا یہی وجہ ہے ایک سیٹ پر انکے اپنے کئی امیدوار کھڑے ہیں سمجھ رہے ہیں یہ ٹکٹ مجھے ہی ملے گا میں ہی اس کا حقدار ہوں۔بہرحال الیکشن کے نام پر شور بھی ہے اور شرابا بھی شروع ہے۔ اس موقع پر شاعر کی ایک نظم کے دو تین شعر پیش خدمت ہیں۔.میں بے قرار ہوں مدت سے ممبری کیلئے، ٹکٹ مجھے بھی دلا دے اسمبلی کیلیے۔ ٹکٹ کے واسطے حمیت کا بھی سودا کر سکتا ہوں۔ مجھے درکار ہے سکون زندگی کے لیے، ٹکٹ مجھے بھی دلا دے ، کروںگا قبضہ خالی پڑی زمینوں پر، نہ آئے گی شکن اپنی جبینوں پر، رہے گی خاص نوازش میری حسینوں پر، عوامی کام کرونگا عوام کے لے۔ ٹکٹ مجھے بھی دلا دے اسمبلی کے لیے۔۔سچ تو یہ ہے کہ سوائے چند ایک پارٹی کے کسی پارٹی کا کوئی ایجنڈا منشور نہیں ہے۔ یہی ان کا ایجنڈا ہے جو اس شاعر نے بیان کر دیا ہے۔ تمام امیدواروں سے گزارش ہے کہ الیکشن میں اپنا جوش جذبہ اس کھلاڑی جیسا رکھیں جو ریس ہار کر بھی جیتا ہے ہیرو ہے۔اس کھلاڑی کی کہانی کچھ یوں ہے ۔یہ کھلاڑی انٹرنیشنل مقابلوں کی ریس میں شامل تھا۔ابھی فنشگ لائن سے چند فٹ کے فاصلے پر کینیا کا ایتھلیٹ عبدالمطیع سب سے آگے تھا، مگر اس نے سمجھا کہ وہ دوڑ جیت چکا ہے جبکہ ایسا نہ تھا۔اس کے بالکل پیچھے اسپین کا رنر ایون فرنینڈز دوڑ رہا تھا اس نے جب دیکھا کہ کھلاڑی غلط فہمی کی بنیاد پر آہستہ ہو رہا ہے تو اس نے اسے پہلے آواز دی کہ دوڑو ابھی فنش لائن کراس نہیں کی تم نے۔دوسری طرف یہ بہترین موقع تھا کہ فرنینڈز اس سے آگے نکل کر یہ ریس جیت جاتا مگر اس نے عجیب فیصلہ کیا۔ اس نے عبدالمطیع کو دھکا دے کے فنش لائن سے پار کروا دیا اور وہ جیت گیا۔ تماشائی اس کی سپورٹس مین سپرٹ دیکھ کر دنگ رہ گئے، ایون فرنینڈز ہار کے بھی ہیرو بن چکا تھا۔ ایک صحافی نیفرنینڈز سے پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا.؟ فرنینڈز نے جواب دیا:”کہ ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جہاں کوئی دوسرے کو اس لئیے دھکا دے تاکہ وہ جیت سکے”صحافی نے پھر پوچھا:”مگر تم نے کینیا کے ایتھلیٹ کو کیوں جیتنے دیا۔؟” فرنینڈز نے جواب دیا:”میں نے اسے جیتے نہیں دیا، وہ ویسے ہی جیت چکا تھا، یہ دوڑ اسی کی تھی”صحافی نے پھر اصرار کیا: ” مگر تم یہ دوڑ جیت سکتے تھے”۔فرنینڈز نے اس کی طرف دیکھا اور بولا” اس جیت کا کیا میرٹ ہوتا ؟ اگر میں جیت جاتا۔ اس میڈل کی کیا عزت ہوتی؟ میری ماں میرے بارے میں کیا سوچتی؟اقدار نسل در نسل منتقل ہوتا ہے، ہمیں اپنے بچوں کو کیا سکھانا چاہئے، بلاشبہ یہ کہ جیتنے کے لئے کوئی بھی ناجائز طریقہ اختیار نہیں کرنا، وہ آپ کی نظر میں جیت ہوسکتی ہے، دنیا کی نظر میں آپ کو بد دیانت کے علاوہ کوئی خطاب نہیں ملے گا۔ یہ کھلاڑی ہار کر بھی ہیرو بنا۔کیا اس سے ہمارے الیکشن کے امیدوار سبق لیں گے؟الیکشن میں کسی کی جیت ہو گی اور کسی کی ہار۔
مگر دیکھنا یہ ہے کس شان سے وہ ہارتا ہے یا جیتا ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ ہر امیدوار اپنا ایسا ہی کردار رکھے گا جیسے اس کھلاڑی کا تھا۔جیتے بھی تو بازی کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button