اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے لواحقین پر تشدد انتظامیہ کی نہایت مذموم حرکت ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے اتنی ہی کم ہے ۔ یہ غموں کے مارے اپنوں کو تلاش کرتے کرتے بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے اس امید کے ساتھ اسلام آباد آئے تھے کہ شاید یہاں ان کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جائے،شاید یہاں قریب سے منصفوں کو پکارنے سے ان کی آواز پر کان دھر لیے جائیں اور انہیں انصاف مل جائے، شاید یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دل ان کی آہ و زاری پر پگھل جائیں مگر یہاں تو الٹ ہی ہوا اور ان کا استقبال ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے کیا گیا۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد تھانوں میں بند کر دیا گیا، جب میڈیا پر شور مچا تو حکومت نے ان سے ہمدردی جتانے کی کوشش کی اور ان کی ضمانتیں منظور کر کے رہا کر دیا۔ ہمارے ملک میں جبری گمشدگی یا لاپتہ افراد کا مسئلہ نہایت پیچیدہ ہوتا چلا جا رہا ہے دن بدن لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور بالخصوص ملک کے دور دراز علاقوں سے نوجوانوں کو غائب کیا جا رہا ہے ۔ نوجوانوں کو ان کے گھروں سے یا باہر کسی بھی جگہ سے اٹھا لیا جاتا ہے اور غائب کر دیا جاتا ہے ۔ ان کے گھر والوں کو بھی اطلاع نہیں دی جاتی اور کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کہاں ہیں ۔ وہ ایسے غائب ہوتے ہیں کہ برسوں ان کا پتہ نہیں چلتاکہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ اس لیے ان کے گھر والے ان کے خاندان والے برسوں ان کی راہیں تکتے رہتے ہیں ، انہیں تلاش کرتے رہتے ہیں ان کی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں ظاہر ہے کہ جب گھر کا کوئی فرد کوئی اپنا پیارا اچانک غائب ہو جائے تو اس کے رشتہ دار تو ظاہر ہے اس کو تلاش کریں گے اور وہ تب تک تلاش کرتے رہیں گے جب تک وہ مل نہیں جاتا یا یہ خود ختم نہیں ہو جاتے۔ کچھ نوجوان تو چند برس کو تحویل میں رہ کر رہا ہو جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کبھی واپس نہیں آتے۔ ان کے والدین ان کے بہنبھائی تلاش کرتے رہتے ہیں کبھی ایک ادارے میں جاتے ہیں کبھی دوسرے ادارے میں جاتے ہیں کبھی عدالتوں میں کیس کرتے ہیں کبھی کسی اعلی شخصیت کے پاس جاتے ہیں کوئی ایسا درنہیں چھوڑتے جہاں سے انہیں کچھ امید ہو یا کوئی ایسی شخصیت نہیں چھوڑتے جس سے انہیں کچھ امید ہو کہ یہ ان کے کام آسکتی ہے ۔ ہر جگہ جاتے ہیں ہر ایک کے پاس جاتے ہیں ، ہر احتجاج اور ہر ہڑتال میں شریک ہوتے ہیں ، ہر احتجاجی کیمپ میں پہنچ جاتے ہیں چاہے اس کے لیے انہیں ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے کیوں نہ طے کرنے پڑے یعنی اپنی طرف سے وہ پوری کوشش کرتے ہیںاور اپنی زندگیاں برباد کر دیتے ہیں ۔جبری گمشدگیوں کے پیچھے بارہا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا نام آ رہا ہے لیکن وہ ادارے اس پر کوئی وضاحت نہیں دیتے یا کہہ دیتے ہیں کہ وہ لوگ دہشتگردی کی کاروائیوں میں ملوث ہیں۔ اگر ان اداروں کا کہنا ہے کہ یہ لوگ جنہیں اٹھایا جاتا ہے دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہیں تو ٹھیک ہے اگر وہ دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں یا دہشت گردوں کی کاروائیوں میں ملوث ہیں تو یقینا انہیں سزا ملنی چاہیے ، انہیں گرفتار بھی کرنا چاہیے کیونکہ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو ۔ ہم نے دہشت گردی میں بہت زیادہ نقصان اٹھایا، ملکی معیشت کا نقصان علیحدہ ہوا اور انسانی جانوں کا ضیاع علیحدہ ہوا جس کی کبھی تلافی نہیں ہو سکتی ۔ بہت سے گھرانے برباد ہو گئے ہنستے بستے گھر دہشت گردی کی نذر ہو گئے جس کی وجہ سے ہم اس دہشت گردی سے بہت زیادہ تنگ آ چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دہشت گردی ملک سے ختم ہو لیکن اس کے لیے قانونی طریقہ بھی تو اپنایا جا سکتا ہے ہمارے ملک میں قوانین موجود ہیں ۔ جن لوگوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شک ہو انہیں قانونی طریقے سے گرفتار کرنے کے عدالتوں میں پیش کیا جائے ان کے اوپر الزام ثابت کر کے انہیں تحویل میں لیا جائے اور اس کے بعد انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے ، ان کے گھر والوں کو اطلاع کر دی جائے کہ آپ کے بچہ یا بھائی ہماری تحویل میں ہے اور اس پر یہ جرم ثابت ہوا ہے یوں کم از کم وہ در در کی ٹھوکریں تو نہیں کھائیں گے انہیں یہ تو معلوم ہوگا کہ ہمارا بچہ کہاں ہے۔ جبری گمشدہ لوگوں کے لواحقین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہی کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ کم از کم ان کے ساتھ قانون کے مطابق معاملہ کیا جائے ، انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے عدالتیں کس لیے بنی ہوئی ہیں عدالتوں میں پیش کر کے ان پر مقدمہ چلایا جائے اور انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے ، ہم یہ نہیں کہتے کہ ان کو رہا کر کے ہمارے حوالے کرو بلکہ ہمارایہ مطالبہ ہے کہ اگر وہ کسی دہشت گردی کی کاروائی میں ملوث بھی ہیں تو ان کے ساتھ قانون کے مطابق پیش آیا جائے ۔ ہاں ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر یہ ادارے ان بچوں کو اٹھانے میں ملوث نہیں ہیں تو پھر کون ملوث ہے ؟ یہ بھی ایک بہت بڑا سوال ہے اور پھر اداروں سے یہ سوال ہوتا ہے کہ اگر کوئی اور طاقت ہے یا کوئی دہشت گرد گروہ یا چور ، ڈاکو ان لوگوں کو گم کرنے میں ملوث ہیں تو تب بھی تو اداروں کا ہی کام ہے کہ ان کو بازیاب کروایا جائے ۔ کئی بار ایسا ہوا بھی ہے کہ اداروں نے جبری گمشدہ لوگوں کو بازیاب کروایا لیکن وہ بہت کم تعداد میں ہے ۔ابھی ہزاروں کی تعداد میں ایسے نوجوان ہیں جن کا پتہ ہی نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ تو ان کے لواحقین کو تسلی دی جائے ، ان کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے
اور ان کے لاپتہ یا گمشدہ افراد کو اغوا کاروں سے بازیاب کروایا جائے۔
0 57 4 minutes read